WE News:
2025-07-11@16:38:14 GMT

وہ پاکستانی ستارے جن کا آخری وقت دلخراش رہا

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

وہ پاکستانی ستارے جن کا آخری وقت دلخراش رہا

پاکستانی شوبز انڈسٹری بظاہر ایک پرکشش دنیا ہے جہاں چمکتے دمکتے چہرے، مہنگے ملبوسات، اسٹیج کی روشنی، شہرت اور چاہنے والوں کا ہجوم نظر آتا ہے، لیکن اس جگمگاتی دنیا کے پیچھے ایک تاریک پہلو بھی چھپا ہوتا ہے۔ یہ دنیا ذہنی دباؤ، بے یقینی، تنہائی، مالی مشکلات، انڈسٹری کے طاقتور گروپوں کی اجارہ داری، اور کام کے مواقع کی کمی جیسے کئی مسائل سے بھری پڑی ہے۔ ان چمکتے ستاروں کی زندگیوں کا ایک ایسا پہلو ہے جو مداحوں سے اکثر چھپا رہتا ہے، اور جب ان کی موت کی خبریں سامنے آتی ہیں تو عوام کو جھٹکا لگتا ہے۔

ذیل میں اُن 15 پاکستانی فنکاروں کا ذکر کیا گیا ہے جن کا آخری وقت نہایت دلخراش رہا۔

عائشہ خان

عائشہ خان پاکستان ٹی وی انڈسٹری کی معروف شخصیت تھیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز پی ٹی وی سے کیا اور بعد ازاں پرائیویٹ چینلز پر کام کرتے ہوئے شہرت حاصل کی۔ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود وہ تنہا رہتی تھیں۔ ان کی لاش ایک ہفتے بعد ان کے اپارٹمنٹ سے ملی، جب ان کا کسی سے رابطہ نہ ہونے پر تفتیش کی گئی۔ ان کی موت نے ملک بھر میں افسوس کی لہر دوڑا دی۔

حمیرا اصغر

نوجوان اور باصلاحیت اداکارہ حمیرا اصغر کی موت کے حالات دل دہلا دینے والے تھے۔ وہ کراچی کے ایک فلیٹ میں اکیلی رہتی تھیں اور پچھلے سال سے کرایہ ادا نہیں کررہی تھیں۔ مکان مالک نے عدالت سے رجوع کیا، اور جب بیلف دروازہ کھلوانے پہنچا تو ان کی لاش ملی۔ فرانزک رپورٹ کے مطابق، وہ 10 ماہ قبل ہی وفات پاچکی تھیں، جبکہ بیلف کو دروازہ توڑنے تک یہ بھی اندازہ نہ تھا کہ اندر موت بسی ہے۔ ان کی عمر صرف 32 سال تھی۔ ان کی موت نے یہ سوال اٹھایا کہ نوجوان فنکار کس قدر تنہا اور دباؤ میں زندگی گزار رہے ہیں۔

ثنا یوسف

سوشل میڈیا کی ابھرتی ہوئی اسٹار ثنا یوسف صرف 17 سال کی عمر میں قتل کر دی گئیں۔ ایک نوجوان نے، جس کو انہوں نے مسترد کر دیا تھا، نے انتقامی کارروائی کے طور پر ان کے گھر میں گھس کر انہیں قتل کردیا۔ اس واقعے نے معاشرے میں موجود عورتوں کے خلاف نفرت اور ’نہ‘ کو برداشت نہ کرنے والی ذہنیت کو بے نقاب کیا۔ ابتدا میں متاثرہ لڑکی کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس سے معاشرتی منافقت بھی آشکار ہوئی۔

عامر لیاقت حسین

عامر لیاقت حسین ایک ایسا نام ہے جو مذہب، سیاست اور شوبز کی دنیا میں یکساں مقبول رہا۔ لیکن ان کی زندگی کا آخری دور تنازعات سے گھرا ہوا تھا۔ مسلسل شادیوں اور طلاقوں نے ان کی نجی زندگی کو سوشل میڈیا پر مذاق بنا دیا۔ ان کی اہلیہ کی جانب سے نجی ویڈیوز منظرِ عام پر لانے کے بعد وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے۔ بالآخر وہ پراسرار حالات میں اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔

قندیل بلوچ

قندیل بلوچ نے سوشل میڈیا پر اپنی بے باک رائے اور غیر روایتی انداز سے شہرت حاصل کی۔ انہوں نے کئی نامور افراد کو بے نقاب کیا، جس کی وجہ سے وہ متنازع بن گئیں۔ ان کے بھائی نے ’غیرت‘ کے نام پر ان کا قتل کر دیا۔ ان کا مقدمہ برسوں چلا، لیکن انہیں مکمل انصاف کبھی نہ ملا۔

سلطان راہی

فلمی دنیا کے بے تاج بادشاہ سلطان راہی نے 800 سے زائد فلموں میں کام کیا اور پنجابی فلم انڈسٹری کو نئی زندگی دی۔ لیکن ان کا انجام انتہائی افسوسناک تھا۔ انہیں راولپنڈی سے لاہور واپسی پر نامعلوم حملہ آوروں نے گاڑی روک کر گولی مار دی۔ وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے، اور ان کے قاتل آج تک قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔

ننھا

مزاحیہ کرداروں سے شہرت حاصل کرنے والے ننھا نے لاہور میں خود کو شاٹ گن سے گولی مار کر خودکشی کرلی۔ وجوہات میں ناکام محبت اور کیریئر کا زوال شامل بتایا جاتا ہے۔ ان کی موت نے شوبز انڈسٹری میں موجود خاموش اذیتوں کو بے نقاب کیا۔

طارق ٹیڈی

تھیٹر کے معروف کامیڈین طارق ٹیڈی اپنے انوکھے انداز اور خشک مزاح کے لیے جانے جاتے تھے۔ وہ جگر کے سنگین مرض کا شکار ہو گئے تھے۔ ان کے اہلخانہ نے علاج کے لیے حکومتی مدد کی اپیل کی، جس پر حکومت نے مدد تو فراہم کی لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔ ان کا انتقال 46 سال کی عمر میں ہوا۔

مستانہ

تھیٹر کے ورسٹائل اداکار مستانہ نے 30 سال تھیٹر کو دیے۔ ایک موقع پر جب پولیس نے تھیٹر پر چھاپہ مارا، تو مبینہ طور پر ایک اہلکار نے انہیں تھپڑ مارا۔ یہ توہین ان کے دل پر گراں گزری اور انہوں نے تھیٹر کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔ وہ ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہوئے اور بہاولپور میں انتقال کرگئے۔

ببّو برال

ببو برال نہ صرف مزاحیہ اداکار بلکہ بہترین گلوکار بھی تھے۔ وہ طویل بیماری کے بعد انتقال کرگئے۔ ان کے اہلخانہ آج بھی مالی مشکلات میں مبتلا ہیں اور حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔

روحی بانو

روحی بانو کو ملک کی بہترین اداکاراؤں میں شمار کیا جاتا تھا۔ ان کی زندگی دکھوں سے بھری رہی،  2 ناکام شادیاں، بیٹے کا کم عمری میں قتل، اور بعد ازاں ذہنی بیماری نے انہیں تنہا کر دیا۔ آخری ایام وہ اپنی بہن کے ساتھ استنبول میں گزاررہی تھیں جہاں ان کا انتقال ہوا۔

اسد عباس

ایک نہایت عمدہ آواز کے مالک گلوکار اسد عباس کو کوک اسٹوڈیو میں بھی سراہا گیا۔ ان کے گردے کام کرنا چھوڑ گئے تھے، جس کے بعد وہ مالی مشکلات کا شکار ہوگئے۔ علاج کے لیے انہوں نے اپنے تمام اثاثے بیچ دیے، لیکن زندگی کی جنگ نہ جیت سکے۔

جنید جمشید

مشہور بینڈ ’وائٹل سائنز‘ کے روح رواں اور بعد ازاں مذہبی شخصیت جنید جمشید نے 2 مختلف زندگیاں گزاریں۔ پہلے موسیقی میں اور پھر دین کی خدمت میں۔ وہ 2016 میں ایک فضائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ ان کی موت نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا۔

امجد صابری

صوفی قوال امجد صابری اپنے باوقار انداز، دلکش آواز اور صابری خاندان کے وارث ہونے کی حیثیت سے شہرت رکھتے تھے۔ رمضان کے مہینے میں کراچی کی ایک مصروف سڑک پر انہیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی موت فن، ثقافت اور روحانیت کا ایک ناقابلِ تلافی نقصان تھی۔

نادرہ

اداکارہ نادرہ اپنی خوبصورتی، آنکھوں کی دلکشی اور فلمی صلاحیتوں کی وجہ سے شہرت حاصل کرچکی تھیں۔ وہ سلطان راہی کے ساتھ کئی فلموں میں جلوہ گر ہوئیں۔ اپنے کیریئر کے عروج پر انہیں گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ ان کے قتل کی تفتیش آج تک مکمل نہ ہوسکی۔

یہ تمام واقعات اس حقیقت کو عیاں کرتی ہیں کہ شہرت، دولت، اور چمکتی دنیا کے پیچھے اکثر گہرے زخم چھپے ہوتے ہیں۔ یہ فنکار لاکھوں دلوں پر راج کرتے رہے، لیکن جب ان کے اپنے دل ٹوٹے تو اکثر وہ تنہا، نظرانداز شدہ اور بے سہارا تھے۔ شوبز کی چکاچوند کے پیچھے موجود یہ کربناک سچائیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہر ستارہ اپنی روشنی کے پیچھے کہیں نہ کہیں اندھیرے سے لڑرہا ہوتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news آخری وقت پاکستان حمیرا اصغر دردناک شوبز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان دردناک ان کی موت نے انہوں نے کے پیچھے کا شکار قتل کر کر دیا کے لیے

پڑھیں:

انسانی زندگی میں فلسفے کا کردار اور اس کی تاریخی اہمیت

فلسفہ انسانی شعور کی گہرائیوں میں اترنے کائنات، انسان اور زندگی کے بنیادی سوالات کے جوابات تلاش کرنے کا علم ہے۔ یہ ایک ایسا علم ہے جو نہ صرف عقل و منطق کو بروئے کار لاتا ہے بلکہ اخلاق، وجود، علم، سیاست، مذہب اور فنون جیسے شعبوں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ فلسفہ محض خیالی قیاسات نہیں بلکہ انسانی رویوں، اقدار، روایات، معاشرتی ڈھانچوں اور علمی ترقی کے لیے ایک مضبوط فکری بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ فلسفے کا انسانی زندگی میں کیا کردار ہے ؟فلسفہ انسان کو اپنی ذات کے شعور کی طرف مائل کرتا ہے ، یہ انسان کے اندر سوال پیدا کرتا ہے کہ’’میں کون ہوں؟‘‘، ’’میری اصل کیا ہے؟‘‘ اور ’’مجھے کن راستوں پر چلنا ہے؟‘‘ یہ سوالات فرد کی شخصیت میں گہرائی، سنجیدگی اور خودی کا شعور پیدا کرتے ہیں۔
فلسفے کا دوسرا مقصد انسان کے اخلاقی معیار کی تشکیل ہے۔اخلاقیات یا علمِ اخلاق فلسفے کی ایک اہم شاخ ہے جو اچھے اور برے، صحیح اور غلط کی تمیز میں مدد دیتی ہے۔ زندگی میں فیصلے کرتے وقت فلسفیانہ سوچ انسان کو انصاف، ہمدردی اور حق پسندی کی طرف مائل کرتی ہے اور یہ کہ فلسفہ انسان کی عقلی اور تنقیدی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے ۔جس کی وجہ سے انسان محض تقلید ہی نہیں کرتا بلکہ دلائل، شواہد اور استدلال کی روش اپناتا ہے۔ یہ تنقیدی سوچ معاشرے میں سچ اور جھوٹ، حقیقت اور فریب کے درمیان فرق کرنے میں مدد دیتی ہے۔
فلسفہ معاشرتی فہم اور اصلاح کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ معاشرتی ڈھانچوں، قوانین، ریاست، عدل و انصاف اور آزادی جیسے موضوعات کا گہرائی سے مطالعہ کرتا ہے۔ افلاطون، ارسطو، ہیگل، اور ابن خلدون جیسے فلسفیوں نے معاشرتی اور سیاسی نظریات پیش کیے جو آج بھی دنیا بھر کے نظاموں میں اثرانداز ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی جڑیں فلسفے میں پیوستہ ہیں۔ طبیعیات، حیاتیات، منطق، اور ریاضیات کے ابتدائی تصورات فلسفیوں نے ہی پیش کیے تھے۔ دیکارٹ، کانٹ، اور برکلے جیسے فلسفیوں کے افکار سائنسی طریقہ کار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
فلسفے کی تاریخی اہمیت:فلسفے کی بنیادیں قدیم یونان میں رکھی گئیں۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو نے اخلاقیات، سیاست، منطق اور علمیات کے ایسے تصورات پیش کیے جو صدیوں تک مغربی فکر پر غالب رہے۔8ویں سے 12ویں صدی عیسوی کے درمیان مسلم دنیا میں فلسفے نے زبردست ترقی کی۔ فارابی، ابن سینا، ابن رشد، الکندی اور الغزالی جیسے فلسفیوں نے یونانی فلسفے کو اسلامی فکر سے ہم آہنگ کیا اور نئی فکری راہیں کھولیں۔
یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے دور میں فلسفہ سائنسی ترقی، انسانی آزادی، اور عقلی تحریک کا بنیادی ذریعہ بنا۔ جدید مغربی فلسفہ ڈیکارٹ، ہیوم، کانٹ، اور ہیگل جیسے مفکرین کی بدولت ارتقا پذیر ہوا۔مارکس، نطشے، سارتر، فوکو اور ڈیریدا جیسے فلسفیوں نے جدید معاشروں کے مسائل، اقتدار، شناخت، اور وجود کے نئے پہلوئوں کو اجاگر کیا۔ وجودیت (Existentialism)، ردتشکیلیت (Deconstruction) اور تنقیدی نظریات (Critical Theories) نے انسانی زندگی کے نئے امکانات کو نمایاں کیا۔
فلسفہ انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے کیونکہ یہ ہمیں سوچنے، سمجھنے اور خود کو دریافت کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ فلسفہ صرف ماضی کی دانش نہیں، بلکہ حال کی بصیرت اور مستقبل کی رہنمائی بھی ہے۔ اگرچہ عام انسان شاید فلسفے کے دقیق مباحث میں نہ اترے، مگر اس کی روزمرہ زندگی، فیصلوں،رویوں اور اقدار میں فلسفے کے اثرات نمایاں طور پر ہوتے ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ فلسفہ انسانی تہذیب کی روح ہے۔یہاں ایک فکری سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب علم کی پیاس بجھانے کے لئے دنیا میں عظیم جامعات نہیں تھیں تب انسان کے فلسفیانہ مسائل کی نوعیت کیا تھی ؟یہ سوال ہماری توجہ انسانی شعور کی سطح کی بلندی یا پستی کے بارے میں سوچنے اور تعبیرات پر دھیان کی طرف راغب کرتا ہے کہ تب انسان کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات کہاں تلاش کئے جاتے تھے ، تو ہم ان سوالات کی نوعیت، دائرے اور اس دور کی زندگی پر غور کرتے ہیں کہ اظہار کے ذرائع کیا تھے اور اس دور کی زندگی کا تعلق اپنے ماحول سے کس قدر توانا یا کمزور تھا ۔جب انسان کچھ خود شناس ہوا تو کائنات ، زمین و آسمان،بارش، زلزلوں ،چاند ،سورج اورموت و حیات کو سمجھنے کی جستجو کن مظاہر کی روشنی میں کرتا تھا۔چونکہ ان دنوں سائنسی اور منطقی بنیادوں کا ظہور تو نہیں ہوا تھا۔شاید ان سب کے ادراک کے لئے ہی اس نے ماورائی قوتوں ، دیوی ،دیوتاں یا روحانی عناصر کا فرضی تصورقائم کر لیا۔
اس دور میں فلسفہ یا مذہب بھی شاید جادوئی روایتوں سے جڑے ہوئے تھے !بارش کیوں اور کیسے ہوتی ہے؟سورج کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے ؟اور موت کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ انسان نے جب پہلی بار خود کوشعور کی روشی میں محسوس کیا تو سب سے پہلے اپنے ہی بارے خود سے سوال کیا میں کون ہوں ؟ میں کہاں سے آیا ہوں ؟ میری آخری منزل کونسی ہے؟
پھر جب انسان نے قبیلوں اور گروہوں کی صورت میں رہنا شروع کیا تو جھوٹ، سچ ،عدل وانصاف اور وفا و بے وفائی کے سوال اس کے روبرو کھڑے ہوگئے ،جو معاشرتی زندگی کا لازمہ تھے۔ان سب میں خوف اور حیرت بنیادی محرکات تھے اور یہ حیرت ہی تھی جس سے فلسفہ پیدا ہوا۔ حیرت اور خوف کے ابتدائی فلسفیانہ اور مذہبی بیانیئے کو جنم دیا۔یوں بغیر اداروں کے نسل در نسل ، کہانیوں شاعری اور ضرب الامثال اور قبائلی سیانوں کے ذریعے علم منتقل ہونا شروع ہوگیا۔ابتدا میں فلسفہ عام طور پر علامتی انداز میں ظہور پذیر ہوا‘ ہندووید، مصری دیو مالا اوریونانی اساطیر کا بھی اس میں بہت عمل دخل ہے۔
اداروں یا جامعات سے پہلے فلسفہ تحریر ی شکل میں نہیں تھا بلکہ تجربات ،عقائد،روایاتواور حکمت کی آمیزش کے طور پر موجود تھا۔یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ انسانی تاریخ سے بھی کہنہ علم ہے اور انسان کی بصیرت آفروزی میں اس کا کردار کلیدی ہے ۔اس کے مفاہیم مقاصد ،ماہیت، دائرہ کار اور اظہار کے وسیلے ابتدا سے اب تک تغیر سے جڑے ہوئے ہیں اور فلسفے کی اسی جہت کی وجہ سے اہل علم اسے سائنس سے تعبیر کرنے میں کوئی قباحت نہیں گردانتے ۔

متعلقہ مضامین

  • وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین کا کوئٹہ سے لاہور جانے والی بس کے 9 مسافروں کو اغوا کے بعد شہید کیے جانے کے دلخراش واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار۔
  • وفاقی وزیر داخلہ کا ژوب کے دلخراش واقعے پر گہرے دکھ کا اظہار
  • سیدہ صفیہؓ
  • افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
  • اداکارہ حمیرا کی زندگی کا ایک ان دیکھا گوشہ سامنے آگیا
  • انسانی زندگی میں فلسفے کا کردار اور اس کی تاریخی اہمیت
  • صارفیت، آدھی روٹی اور دل ونگاہ کی مسلمانی
  • ایٹین کی خوش آمدید مہم کا آغاز
  • پُر اُمید رہئیے