اسرائیل اور امریکا کی جانب سے 27 مئی کو غزہ میں امداد کی تقسیم کا متبادل نظام شروع کیا گیا لیکن ان کیمپس پر بھی بچوں اور خواتین سمیت فلسطین کے نہتے مسلمانوں کو موت کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی درندگی جاری: اہلخانہ کے لیے کھانا لینے جانے والوں کی مزید 57 لاشیں خالی ہاتھ گھر واپس

غزہ میں اسرائیلی حملوں و محاصروں کے باعث کھانے پینے سے محروم مظلوم شہری جب خوراک کے حصول کے لیے ان مراکز پر گئے تو ان کا استقبال بندوق کی گولیوں اور گولہ بارود سے کیا گیا۔

خوراک لینے آنے والے ان افراد میں سے اب تک 800 افراد بھوکے پیٹ ہی ماردیے گئے ہیں۔ ان میں سے 315 شہادتیں غزہ امدادی فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے مراکز پر ہوئیں جبکہ 183 افراد امدادی قافلوں سے خوراک اتارنے کی کوشش میں ہلاک ہوئے۔ جی ایچ ایف کو امداد کی تقسیم کا کام اسرائیل اور امریکا نے سونپا ہے اور اس کا اقوام متحدہ یا اس کے اداروں سے کوئی تعلق نہیں۔

اقوام متحدہ کے حکام نے غزہ میں امداد کی تقسیم کے مراکز پر خواتین اور بچوں سمیت سیکڑوں لوگوں کی ہلاکتوں کو ہولناک اور ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

مزید پڑھیے: ’او وی خوب دیہاڑے سَن‘، خوشیاں لانے والی سردیاں اور بارشیں اب غزہ والوں کے دل کیوں دہلا دیتی ہیں؟

عالمی باڈی کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے ان ہلاکتوں پر تشویش اور مذمت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خوراک کے حصول کی کوشش کرنے والوں پر فائرنگ ناقابل قبول اور نامعقول عمل ہے۔

بین الاقوامی قانون کی پامالی

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کی ترجمان روینہ شمداسانی نے کہا ہے کہ گزشتہ دنوں وسطی علاقے دیرالبلح میں اقوام متحدہ شراکت دار امدادی ادارے پراجیکٹ ہوپ کے مرکز پر امداد کے انتظار میں کھڑے افراد پر فائرنگ سے 15 شہادتیں ہوئیں جن میں 9 بچے بھی شامل تھے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ میں بین الاقوامی انسانی قانون کے اصولوں پر عملدرآمد کے حوالے سے سنگین خدشات سامنے آئے ہیں۔ اس جنگ میں ہلاک ہونے والے ہزاروں فلسطینی شہریوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

انہوں نے بتایا ہے کہ خوراک کے حصول کی کوشش میں شہید ہونے والے بیشتر لوگوں کو گولیوں کے زخم آئے۔

مزید پڑھیں: صیہونی افواج کے ہاتھوں ماری جانے والی 10 سالہ راشا کی وصیت پر من و عن عمل کیوں نہ ہوسکا؟

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ترجمان کرسچین ِلنڈمیئر کا کہنا ہے کہ امدادی مراکز پر لوگوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا جا رہا ہے۔ ہزاروں خواتین، بچے، مرد، لڑکے اور لڑکیاں امدادی مراکز، پناہ گاہوں، راستوں پر یا طبی مراکز میں ماردیے گئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے جو کسی طور قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔

غزہ کے 94 فیصد اسپتال اسرائیلی بربریت کی نذرکرسچین ِلنڈمیئر نے کہا ہے کہ 130 یوم کے بعد پہلی مرتبہ غزہ میں 75 ہزار لٹر ایندھن آیا ہے جس کی اس موقعے پر اشد ضرورت تھی۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ایندھن، خوراک اور دیگر امدادی سامان کو بڑی مقدار میں اور تواتر سے غزہ میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ اسپتالوں اور ایمبولینس گاڑیوں کو فعال رکھا جا سکے اور پانی صاف کرنے کے پلانٹ، تنور اور طبی مراکز میں انکیوبیٹر کام کرتے رہیں۔

مزید پڑھیں: غزہ: بچوں کی ڈاکٹر نے 9 بچے کھو دیے، شوہر و آخری بچہ موت کی دہلیز پر

ترجمان نے بتایا ہے کہ غزہ میں 94 فیصد اسپتالوں کو جنگ میں نقصان پہنچا ہے یا وہ پوری طرح تباہ ہو چکے ہیں جبکہ اسرائیل کی فوج کے احکامات پر لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ بھی جاری ہے جو تنگ اور گنجان علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خوراک کی بجائے موت غزہ غزہ بچے اور خواتین شہید فلسطین فلسطینی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: خوراک کی بجائے موت غزہ بچے اور خواتین شہید فلسطین فلسطینی اقوام متحدہ مراکز پر نے والے

پڑھیں:

کاروباری دنیا میں مفت کچھ نہیں

کہتے ہیں کہ کاروباری دنیا میں مفت کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کوئی نہ کوئی اس کی قیمت ضرور ادا کرتا ہے، چاہے اس کےلیے ادائیں اور کچھ اور بھی کیوں نہ دکھانا پڑے۔ میرے نزدیک تو کاروباری دنیا کا مفت ظہرانہ ہو یا عشائیہ، کاروباری نہیں بلکہ کاروکاری ہے اور یہ وقت بتاتا ہے کہ کون کارو ہے اور کون کاری ہے۔

کاروباری دنیا میں مفت ظہرانہ یا عشائیہ کیوں نہیں ہوتا؟ اور اس بات کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا ہے؟

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ کاروباری دنیا مفادات کی دنیا ہے اور جس کا مطمع نظر صرف اور صرف منافع ہوتا ہے۔ عام طور پر ایک فریق کا نقصان ہی دوسرے فریق کا فائدہ یا منافع ہوتا ہے۔ اس کی بالکل سامنے کی مثال اسٹاک ایکسچینج ہے کیونکہ وہاں یہی ہوتا ہے کہ جس کو جوا تو کہا جاسکتا ہے مگر کاروبار قطعی نہیں۔ لیکن ہمارے یہاں اب بھی اس کو کاروبار سمجھا اور بولا جاتا ہے۔

آپ کو ایک مزے کی بات بتاؤں کہ دنیا کے تمام بڑے جوئے خانوں میں جواری حضرات کےلیے کھانے اور پینے کے لوازمات بظاہر بالکل مفت ہوتے ہیں۔ ان کی قیمت جوئے کی رقم میں نظر تو نہیں آتی مگر شامل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جوئے خانے کے مالکان یہ نہیں چاہتے کہ ان کے یہاں کھیلنے والے کھانے کےلیے بھی باہر جائیں، کیونکہ اگر ایک دفعہ وہ باہر چلے گئے تو پھر ہوسکتا ہے کہ وہ پلٹ کر واپس اسی جوئے خانے میں نہ آئیں اور کہیں اور چلے جائیں۔

اب ہم ہمارے دوسرے سوال کی جانب آتے ہیں کہ کاروباری دنیا میں کوئی چیز ایسی کیوں نہیں ہوتی کہ جس کو مفت قرار دیا جاسکے؟ اور اس کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا ہے؟

اس بات کے آغاز کے بارے میں حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر عام خیال یہ ہے کہ اس کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا ہے کہ جب کچھ بار (شراب خانے) والوں نے اپنے صارفین کو ایک بیئر کی بوتل کے ساتھ مفت کھانے کی ترغیب دینی شروع کی تھی۔ مفت کھانے کے لالچ میں لوگ بیئر کا آرڈر دیتے تھے۔ کھانے میں نمک کا تناسب عام سے تھوڑا زیادہ ہوتا تھا، نتیجتاً گاہک کو زیادہ پیاس لگتی تھی اور یوں صارف بیئر کی مزید بوتلوں کا آرڈر دیتا تھا کہ جس سے کھانے کی قیمت وصول ہوجاتی تھی اور یوں اس کہاوت کا آغاز ہوا۔

اب تو آپ کو یقین آگیا ہوگا کہ مفت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور یہی بات ول اسمتھ فلم ’کنگ رچرڈ‘ میں اپنی دونوں بیٹیوں وینس ولیم اور سرینا ولیم کو بتاتا ہے، جب وہ ایک کلب میں گئے ہوتے ہیں اور بچیوں نے مفت سمجھ کر برگر آرڈر کیے تھے۔ اگر آپ نے یہ فلم نہیں دیکھی تو ضرور دیکھیے یہ ایک بہت شاندار فلم ہے۔

اس مفت کھانے کی پوری کہانی میں مزے کی بات یہ ہوتی ہے کہ جو کھانا کھا رہا ہوتا ہے صرف اسی کو قیمت نظر نہیں آرہی ہوتی، ورنہ باقی سب کو تو اس کھانے کی قیمت بڑی بڑی لکھی نظر آرہی ہوتی ہے۔ آپ بس اس تھوڑے لکھے کو بہت جانیے۔

اس کائنات اور دنیا کا کاروبار ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے اصول پر چلتا ہے اور یہی برابری کا اصول ہے۔ اگر آپ کچھ خدمات دیے بغیر صرف وصول کرنے پر یقین رکھتے ہیں تو اسے بھیک، صدقہ، خیرات یا امداد ہی کہہ سکتے اور اس کی بھی قیمت ہوتی ہے کہ جو غیرت، وقار، عزت نفس، قدر و منزلت، حشمت، حرمت، آبرو اور خودداری کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے اور من حیث القوم ہم سے زیادہ اس کا ادراک اور کس کو ہوگا؟

آخر میں حسب روایت ایک کہانی اور اختتام۔ ایک صاحب کہ جن کا نام ڈونلڈ ڈک تھا ان کے پاس یکایک بہت بہت زیادہ پیسہ آگیا اور انھوں نے اپنی امارت کا اظہار کرنے کےلیے اپنے دوستوں عربی، عجمی، یورپی، پوربی، چینی غرضیکہ اپنے تمام حامیوں کی ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ دعوت کے اختتام پر انھوں نے اپنے تمام مہمانوں کو اپنے محل نما گھر جو کہ پورا سفید ماربل کا بنا ہوا تھا اس کا دورہ کرایا۔ ایک بڑے کمرے میں ایک بہت ہی بارعب شخص کی بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی۔ تمام مہمانوں نے استفسار کیا کہ یہ صاحب کون ہے؟ اس پر ڈونلڈ ڈک نے کہا کہ یہ میرے جد امجد ہے اور ان سے ہمارا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے جد امجد کی بہادری اور سخاوت کی مبالغہ آرائی بلکہ دروغ گوئی کی حد تک کی کہانیاں سنانی شروع کردی۔ اب ان سب مہمانوں نے ان کا (مفت) ظہرانہ کھایا تھا اس لیے چپ کرکے سنتے رہے مگر ایک مہمان سے برداشت نہ ہوا اور اس نے کہا کہ تھوڑے سے پیسوں کی وجہ سے میرا سودا ٹوٹ گیا تھا ورنہ آج یہ میرے جد امجد ہوتے۔

اگر اس کہانی کا کوئی تعلق آپ کو بین الاقوامی سیاست سے لگتا ہے تو یہ آپ کے اپنے ذہن کا فتور ہے اور اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ ہاں اس میں سمجھنے والوں کےلیے نشانیاں ہیں، اگر وہ سمجھنا چاہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی فوج نے خوراک کے متلاشی 798 فلسطینیوں کو شہید کردیا 
  • اسرائیل کی غزہ میں بمباری سے خواتین اور بچوں سمیت 82 فلسطینی شہید
  • اسرائیلی فوج نے خوراک کے متلاشی 798 فلسطینیوں کو شہید کردیا، اقوام متحدہ کا انکشاف
  • شکر پینے اور خوراک کے ذریعے کھانے میں سے کون سا طریقہ زیادہ خطرناک؟
  • اسرائیلی محاصرہ ختم نہ ہوا تو طبی مراکز جلد قبرستانوں میں تبدیل ہوجائیں گے، اسپتالوں کی دہائی
  • کھانا اور ادویات لینے آئے بیمار بچوں و خواتین پر اسرائیلی فوج کا حملہ، 15 افراد شہید
  • کاروباری دنیا میں مفت کچھ نہیں
  • (غزہ میں قیامت) اسرائیلی فضائی حملوں میں بچوں سمیت 105فلسطینی شہید(530 زخمی)
  • جیکب آباد ،سرکاری ملازمین کی بیگمات نے مستحق خواتین امداد ہڑپ کرلی