امریکی پابندیاں شرمناک ہیں، اسرائیلی نسل کشی بےنقاب کرنے پر نشانہ بنایا جارہا ہے: فرانسسکا البانیز
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اقوام متحدہ کی ماہرِ انسانی حقوق فرانسسکا البانیز نے امریکہ کی جانب سے ان پر عائد کی گئی پابندیوں کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کو بے نقاب کرنے کی پاداش میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
فرانسسکا البانیز فلسطینی علاقوں پر اقوامِ متحدہ کی خصوصی رپورٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں، انہوں نے قطری نشریاتی ادارے کو بتایا کہ وہ ان دباؤ کے ہتھکنڈوں سے خاموش نہیں ہوں گی، مجھے انصاف اور بین الاقوامی قانون کے احترام کی جستجو سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔
انہوں نے امریکی حکومت کے ان اقدامات کو مافیا کی دھمکیوں سے تشبیہ دی اور کہا کہ پابندیاں تب ہی مؤثر ہوتی ہیں جب لوگ خوف زدہ ہو کر خاموش ہو جائیں، مگر میں ان میں سے نہیں ہوں۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فرانسسکا البانیز پر الزام عائد کیا کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف سیاسی و معاشی جنگ چلا رہی ہیں، اس کے جواب میں البانیز نے کہا کہ انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی جرائم اور نسل کشی پر تنقید ان کی ذمہ داری ہے اور وہ یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین کے تحفظ کے لیے کر رہی ہیں۔
البانیز کا کہنا تھا کہ غزہ میں جاری مظالم نہ صرف اسرائیل کی جارحانہ توسیع پسندانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہیں بلکہ ان کمپنیوں کا بھی کردار ہے جو فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اور اسرائیل کے جنگی جرائم سے مالی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
گزشتہ ہفتے البانیز نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی جس میں ان کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی تھی جو فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی اور غزہ میں جاری نسل کشی میں اسرائیل کی معاونت کر رہی ہیں، یہ رپورٹ امریکہ اور اسرائیل کے حلقوں میں سخت ردعمل کا باعث بنی۔
فرانسسکا البانیز نے کہا کہ وہ ابھی یہ جائزہ لے رہی ہیں کہ امریکی پابندیوں کے ان پر عملی اثرات کیا ہوں گے تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے مؤقف پر قائم رہیں گی اور حق گوئی سے پیچھے نہیں ہٹیں گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فرانسسکا البانیز البانیز نے رہی ہیں
پڑھیں:
اسرائیل کی من مانیاں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن معاہدے کے باوجود غزہ میں حالات خاصے خراب ہیں اور اسرائیل وہاں اپنی کارروائیاں کر رہا ہے۔ ان کارروائیوں میں مسلسل ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔
یوں غزہ میں قیام امن کی جو امید قائم ہوئی تھی وہ تاحال تعبیر کی صورت میں سامنے نہیں آسکی۔امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ دنوں اسرائیل بھی گئے تھے اور انھوں نے اسرائیلی پارلیمنٹ کے ساتھ خطاب بھی کیا تھا لیکن اب وہ بھی حماس کے حوالے سے مسلسل خاصے سخت بیانات دے رہے ہیں۔ادھر امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس نے یروشلم میں اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ سے ملاقات کی ہے۔
اس ملاقات میں انھوں نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا امن منصوبہ چیلنجوں کے باوجود آگے بڑھے گا۔ صدر ٹرمپ کے غزہ کی پٹی میں جنگ کے خاتمے کے منصوبے کے تحت ایک بین الاقوامی سیکیورٹی فورس قائم کی جائے گی، تاکہ غزہ میں امن برقرار رہے جب کہ اسرائیل اس سے دستبردار ہو جائے۔قبل ازیں امریکی نائب صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ نیوز کانفرنس میں کہا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا اور غزہ کی تعمیر نو مشکل ہے مگر ہم اس کے لیے بہت پر امید ہیں۔
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ امریکا غزہ میں بغیر فوج بھیجے صرف ہم آہنگی فراہم کرے گا۔انھوں نے واضح کیا کہ حماس کو غیر مسلح ہونے کی کوئی واضح ڈیڈ لائن نہیں دینا چاہتے۔امریکا کی درخواست پر برطانوی فوجیوں کو غزہ امن منصوبے کی نگرانی کے لیے اسرائیل میں تعینات کردیا گیا۔
غزہ میں جب تک حتمی امن نہیں ہوتا تب تک تنازعہ فلسطین کا حل بھی ممکن نظر نہیں آتا۔ اس وقت ضروری بات یہ ہے کہ غزہ امن منصوبے میں جو جو نکات شامل ہیں‘ان پرفوری عمل درآمد کرایا جائے ‘جہاں تک حماس کو غیر مسلح کرنے کی شرط کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بہتر تو یہ تھا کہ حماس کے ساتھ معاملات طے کیے جاتے کیونکہ حماس بھی حالیہ مذاکراتی عمل میں شریک تھی اور وہ بھی غزہ میں امن کے عمل پر راضی ہے۔
اس کے باوجود غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیلی کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ کہیں نہ کہیں معاملات حل نہیں ہوئے اور کچھ نکات ابھی ادھورے اور مبہم ہیں۔ حماس کا یہ مطالبہ سامنے آیا تھا کہ حماس کے لیڈروں اور کارکنوں کی زندگی کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔اصولی طور پر تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اس قسم کی ضمانت امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ با آسانی دے سکتے ہیں۔
اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ حماس غیر مسلح ہونے پر آمادہ ہو جائے گی جس کی وجہ سے غزہ میں مستقل امن کی ضمانت بھی مل جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ غزہ میں بین الاقوامی فورس کی تعیناتی بھی انتہائی ضروری ہے۔ فقط برطانیہ کی فوج کی تعیناتی سے معاملہ حل نہیں ہو گا اس کے لیے مسلم ممالک خصوصاً عربوں پر مشتمل فورس کی تعیناتی بھی ایک اہم نقطہ ہے جس پر جتنا جلد ہو سکے عمل کیا جانا چاہیے۔
غزہ میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یہ پورا علاقہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے ‘حالیہ امن منصوبے کے اعلان کے بعد بڑی تعداد میں فلسطینی اپنے گھروں میں آئے ہیں‘لیکن اسرائیل کی کارروائیاں تاحال جاری ہیں ‘علاقے میں ادویات اور کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت ہے۔ اسرائیلی فورسز غزہ میں امدادی قافلوں کو ابھی بھی جانے نہیں دے رہی جو سراسر عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے ۔
عالمی ادارے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ غزہ میں قحط کی صورت حال ہے اور اس کی ساری ذمے داری اسرائیل کی حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسرائیلی حکومت نے غزہ میں امدادی سامان کی بندش کو جاری رکھا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ فوجی کارروائیاں بھی کر رہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے اپنے ایک فیصلے میں مشاورتی رائے دی ہے کہ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (UNRWA) اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مقبوضہ غزہ کے فلسطینیوں میں امداد کی فراہمی اسرائیل کی ذمے داری ہے۔
اسرائیل غزہ میں بھوک کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرے، غزہ جانے والے امدادی سامان میں رکاوٹ نہ ڈالے۔اسرائیل کو UNRWA اور دیگر اقوام متحدہ کے اداروں کو امداد کی فراہمی میں تعاون کرنا چاہیے۔عالمی عدالت انصاف (ICJ) کے ججوں نے قرار دیا کہ اسرائیل اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی انروا کے ملازمین کی بڑی تعداد حماس کے ارکان ہیں۔واضح رہے اقوام متحدہ کی ایجنسی انروا پر اسرائیلی پابندی پر جنرل اسمبلی نے عدالت سے اسرائیل کی قانونی ذمے داریوں کے بارے میں مشاورتی رائے دینے کی درخواست کی تھی۔
اسرائیل کی نیتن یاہو حکومت نے غزہ کے حوالے سے جس قسم کی من مانی کی ہے اور ایک چھوٹے سے خطے کے لوگوں پر جس طرح مسلسل بمباری جاری رکھی ہوئی ہے‘ جنگوں کی تاریخ میں اس قسم کی بے رحمی کی مثال کم ہی دیکھنے میں ملے گی۔ اقوام متحدہ کے مختلف ادارے متعدد بار غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے کے بارے میں اقوام عالم کو آگاہ کر چکے ہیں لیکن اقوام عالم کی طاقتور اقوام نے بھی اسرائیل کی اس من مانی کو روکنے کے لیے عملی اقدامات سے گریز کی پالیسی اختیار کی ہے۔
روس خود یوکرین کی جنگ میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ روس سے امید کی جا سکتی تھی کہ وہ فلسطین کی حمایت کو آئے گا لیکن یوکرین کی جنگ نے روسی قیادت کو بری طرح الجھا دیا ہے اور ان کی سب سے پہلی ترجیح یوکرین کے مسئلے سے نمٹنا بن چکی ہے جس کی وجہ سے وہ فلسطین پر عملی قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں جب کہ چین کی پالیسی بھی بیانات سے آگے نہیں ہے جب کہ بھارت کھل کر اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔عرب ممالک کی طرف دیکھا جائے تو انھوں نے جس قدر ہو سکا کوشش کی ہے مگر عالمی سیاست میں ان کا وزن اتنا زیادہ نہیں کہ وہ امریکا اور مغربی ممالک کی مشترکہ پالیسی کا توڑ کر سکیں۔ یوں اسرائیل کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملا ہے۔
اسرائیل فلسطین کے حوالے سے مسلسل اپنے منصوبے پر عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔میڈیا کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ میں فلسطین کے علاقے مغربی کنارے کے انضمام کا ابتدائی مرحلے کا بل منظور کرلیا گیا۔الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک نے اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو کی مخالفت کے باوجود بل کو آگے بڑھانے کے حق میں 25 اور مخالفت میں 24 ووٹ آئے۔نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ پارٹی کے بیشتر ممبران یا تو غیر حاضر رہے یا بل کے حق میں ووٹ نہ دیا۔ واضح رہے امریکی صدر ٹرمپ نے کہہ رکھا ہے کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے انضمام کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔
اردن نے اسرائیلی حکومت کے مغربی کنارہ ہتھیانے کے دو ڈرافٹس کی ابتدائی منظوری کی شدید مذمت کی ہے ۔پاکستان کی وزارت خارجہ نے اسرائیلی افواج کے غزہ پر تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انھیں شرم الشیخ،مصر میں مسلم اور عرب دنیا، امریکا، یورپ اور اقوام متحدہ کی قیادت کی موجودگی میں طے پانے والے امن معاہدے کی روح کے منافی قرار دیا ہے۔عالمی برادری اسرائیل کی خلاف ورزیاں روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے ۔ الجزیرہ کے مطابق شمالی غزہ کے علاقے طوفہ میں بھی اسرائیلی فوج نے فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ ادھر ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ حماس نے مزید دو یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دی ہیں جن میں ایک اسرائیلی فوجی اور ایک شہری کی لاش شامل ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس غزہ امن معاہدے کی طے کردہ شرائط پر عمل کر رہی ہے ‘اس امن معاہدے میں یہ بھی شق شامل تھی کہ حماس کے پاس جو یرغمالی موجود ہیں ‘انھیں زندہ یا مردہ اسرائیل کے حوالے کر دیا جائے۔ بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کی تکمیل تب ہی ممکن ہے جب اسرائیل کو اس پر عملدرآمد کے لیے مجبور کیا جائے گا کیونکہ اسرائیل کی حکومت تاحال اپنی توسیع پسندانہ پالیسی پر بھی عمل کر رہی ہے اور غزہ میں جنگ بندی کی بھی خلاف ورزی کر رہی ہے۔مغربی کنارے کو ہتھیانے کے لیے اسرائیلی پارلیمنٹ نے جو قرار دادیں یا مسودے منظور کیے ہیں وہ سراسر زیادتی ہے۔
موجودہ حالات میں تو اس کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے۔ اسرائیل نے شام کے علاقے گولان ہائیٹس پر بھی ناجائز قبضہ کر رکھا ‘اسرائیل کے انتہا پسند مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اس علاقے کو اسرائیل میں ضم کر لیں۔ اگر اس قسم کی من مانی جاری رہتی ہے تو تنازعہ فلسطین حل نہیں ہو سکے گا اور نہ ہی مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکے گا۔ اس حوالے سے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانی پڑے گی کیونکہ اسرائیل کے انتہا پسند اس وقت تک باز نہیں آئیں گے جب تک کہ انھیں امریکی انتظامیہ سختی سے منع نہیں کرتی۔