اسرائیل کا رفح کے قریب فوجی چھاؤنی قائم کرنے کا فیصلہ، فلسطینیوں پر اپنا تسلط قائم رکھنے کا بہانہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تل ابیب: اسرائیل نے جنوبی غزہ کے شہر رفح کے قریب اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں وہ لاکھوں بے گھر فلسطینیوں کے لیے ایک بڑے کیمپ کے قیام کی تیاری کر رہا ہے تاکہ وقفے وقفے سے فلسطینیوں پر ظلم ڈھاتا رہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کا منصوبہ ہے کہ وہ رفح سے 2 سے 3 کلومیٹر شمال میں واقع فلاڈیلفی کاریڈور کے قریب اپنی افواج مستقل طور پر تعینات رکھے،اسرائیل نے غزہ سے انخلاء کا ایک نیا نقشہ پیش کیا ہے جس کے مطابق وہ خان یونس اور رفح کے درمیان واقع مورگ کاریڈور سے فوج واپس بلانے پر آمادہ ہے مگر رفح شہر پر مکمل کنٹرول بدستور اسرائیلی فوج کے پاس رہے گا۔
اسرائیلی افسر کاکہنا تھا کہ حماس کے جنگجو اب بھی اپنی بقا کیلیے مؤثر انداز میں کام کر رہے ہیں اور دوبارہ منظم ہو رہے ہیں،افسر نے اعتراف کیا کہ اسرائیلی افواج کو مسلسل مزاحمت کا سامنا ہے اور وہ اب تک غزہ پر مکمل فوجی کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
خیال رہےکہ کہ حماس نے نہ صرف اپنی عسکری طاقت میں استقامت دکھائی ہے بلکہ اس کی تنظیمی صلاحیت بھی بدستور برقرار ہے جو اسرائیلی فورسز کے لیے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 57,800 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ غزہ کی پٹی پر ہونے والی وحشیانہ بمباری نے علاقے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے اور یہ رہائش کے قابل نہیں رہا۔
دوسری جانب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات جاری ہیں، تاہم اسرائیلی فوج کی طرف سے رفح پر کنٹرول جاری رکھنے اور نیا کیمپ قائم کرنے کی اطلاعات سے جنگ بندی کے امکانات کو ایک نیا دھچکا پہنچ سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
‘یہ پُرامن عزم کی علامت ہے،’ ترکی کیخلاف برسرپیکار کرد تںطیم نے اپنا اسلحہ نذر آتش کردیا
کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے جنگجوؤں نے شمالی عراق میں اپنے ہتھیار نذرِ آتش کر دیے، جو ترکی میں اپنی 4 دہائیوں پر محیط مسلح بغاوت کے خاتمے کا ایک علامتی اظہار تھا۔
یہ تقریب عراق کے صوبہ سلیمانیہ کے قصبے دکان میں منعقد ہوئی جس میں پی کے کے کے تقریباً 30 مسلح جنگجوؤں نے حصہ لیا، جن میں نصف تعداد خواتین کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: ترکیہ کے خلاف سرگرم ’کردستان ورکرز پارٹی‘ کی تحلیل، پاکستان کا خیرمقدم
جنگجوؤں نے اپنی رائفلز، گولہ بارود کی بیلٹیں اور دیگر ہتھیار ایک بڑے دیگ نما برتن میں رکھ کر نذرِ آتش کردیا۔
تقریب کے دوران پی کے کے کی سینیئر کمانڈر بیسے ہوزات نے کہا کہ ہم اپنی مرضی سے اپنے ہتھیار تباہ کر رہے ہیں، یہ خیر سگالی اور پُرامن عزم کی علامت ہے۔
یہ پیش رفت پی کے کے کے قید رہنما عبداللہ اوجلان کی اپنی تنظیم سے اپیل کے بعد سامنے آئی جس میں انہوں نے تنظیم کو تحلیل کرنے اور مسلح جدوجہد ترک کرنے کا حکم دیا تھا۔ بدھ کو نشر ہونے والے ایک وڈیو پیغام میں اوجلان نے کہا کہ مجھے سیاست کی طاقت اور معاشرتی امن پر یقین ہے نہ کہ ہتھیاروں پر۔
یہ بھی پڑھیے: کرد عسکریت پسند تنظیم ’پی کے کے‘ کی تحلیل، اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟
پی کے کے نے 1984 میں ترکی کے جنوب مشرقی علاقوں میں ایک آزاد کرد ریاست کے قیام کے مقصد سے مسلح بغاوت شروع کی تھی۔ اس تنازع میں اب تک 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ یہ تنازع ترکی پر بھاری معاشی بوجھ اور سماجی تناؤ کا سبب بھی بنا ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ پی کے کے مکمل طور پر کب اور کس طریقے سے ہتھیار ڈالے گی تاہم ستمبر تک مکمل غیر مسلح ہونے کا عمل متوقع ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
kurdistan pkk اسلحہ اسلحہ جمع بغاوت کرد کردستان