’میوزک، میمز اور گرافیٹی‘ بنگلہ دیش میں بغاوت سے احتساب تک کے عوامی ہتھیار
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
16 جولائی 2024 کو جب بنگلہ دیش میں سیکیورٹی فورسز نے وزیرِاعظم شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبا پر کریک ڈاؤن کیا، تب مشہور ریپر مسرور جہان عالف المعروف شیزان نے ایک گانا ریلیز کیاجس کے بول تھے؛ کوتھا کو یعنی آواز اٹھاؤ۔
اس گانے میں سوال اٹھایا گیا کہ ’ملک کہتا ہے وہ آزاد ہے، تو پھر تمہاری گرج کہاں ہے‘، اسی دن ایک مظاہرہ کرنے والے طالبعلم ابو سید کی ہلاکت تحریک کی علامت بن گئی۔ سید کی شہادت نے احتجاج کو شدید تر کر دیا، اور شیزان کا گانا عوامی تحریک کا ترانہ بن گیا۔
ایک اور ریپر حنان حسین شمول کے گانے ’آواز اُٹھا‘ نے بھی نوجوانوں کو متحرک کیا، ان آوازوں نے بالآخر شیخ حسینہ کو اگست 2024 میں ملک چھوڑ کر بھارت جانے پر مجبور کر دیا۔
ایک سال بعد، شیزان نے ایک اور مقبول ریپ سونگ ’ہدّائی حتاشے‘ جاری کیا، جس میں انہوں نے چوروں کو پھولوں کے ہار پہنائے جانے کا طنز کیا، ان کے بقول، یہ اشارہ ان لوگوں کی طرف تھا جو شیخ حسینہ کے بعد نظام میں اہم عہدے سنبھال رہے ہیں مگر ان کے پاس اہلیت نہیں۔
آج بنگلہ دیش میں انقلابی تحریک کی سالگرہ منائی جا رہی ہے اور احتجاج میں استعمال ہونے والے انہی ٹولز یعنی ریپ میوزک، میمز، اور گرافیٹی اب مرکزی سیاسی گفتگو کا حصہ بن چکے ہیں، نہتے نوجوان جس طرح شیخ حسینہ کو ہٹانے کے لیے اپنا آرٹ بروئے کار لائے بعین اسی پیمانے سے اب موجودہ عبوری حکومت کو احتساب کے دائرے میں رکھ رہے ہیں۔
شیخ حسینہ کی رخصتی کے بعد بنگلہ دیش میں ایک فیس بک میم وائرل ہوئی جس میں حکومتی علامت کے اندر “عوامی جمہوریہ” کی جگہ “ہجوم کی جمہوریہ” لکھا گیا تھا اور ایک شخص پر لاٹھیوں سے تشدد ہوتا دکھایا گیا تھا۔ یہ میم صحافی اور سماجی کارکن عمران حسین نے بنایا تھا، جس کا مقصد نئی حکومت میں پھیلتے ہجوم کے تشدد پر احتجاج تھا۔
نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں نئی عبوری حکومت نے وسیع اصلاحاتی ایجنڈا متعارف کرایا، لیکن ہجوم کے تشدد نے اسے چیلنج سے دوچار کیا، صوفی مزاروں، ہندو اقلیتوں اور خواتین کی فٹبال ٹیموں پر حملے ہوئے، اور منشیات فروشوں کو قتل کیا گیا، یہ سب ویڈیوز میں ریکارڈ ہوا اور سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنا۔
اسی دوران، مزاحیہ میمز بھی مقبول ہوئیں، شیخ حسینہ کی ایک ویڈیو میں وہ میٹرو اسٹیشن کو ہونے والے نقصان پر رو رہی تھیں، جس پر میم بنی؛ ناتوک کوم کورو پریو یعنی ڈرامہ کم کرو، پیاری، یہ طنز ان کی منافقانہ ہمدردی پر تھا، جبکہ انہی دنوں سیکیورٹی اداروں نے درجنوں مظاہرین کو قتل کیا تھا۔
سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور پی ایچ ڈی اسکالر پُنی کبیر کے مطابق، شیخ حسینہ کے دور میں تنقید کرنا بہت مشکل تھا کیونکہ صحافیوں اور کارٹونسٹوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن طنزیہ اظہار نے خوف کی دیوار توڑ دی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میمز اور ریپ میوزک جیسے ذرائع مستقبل کی بنگلہ دیشی سیاست میں بھی مؤثر کردار ادا کریں گے، معروف کالم نگار شفقت ربی کے مطابق، چھوٹے، تیز اور وائرل ہونے والے تبصروں کے ساتھ میمز آج کا بنگلہ دیشی ’ٹوئٹر‘ بن چکے ہیں۔
مرکزی بینک نے بھی طلبا کے بنائے گئے گرافیٹی کو نئے کرنسی نوٹوں کے ڈیزائن میں شامل کر کے اس احتجاجی آرٹ کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا، ریپ میوزک، جسے ابتدا میں صرف مزاحمت کی آواز سمجھا جاتا تھا، اب روزمرہ زندگی میں بھی شامل ہو چکا ہے، اشتہارات، کلچر، اور نوجوانوں کی شناخت کا حصہ بن چکی ہے۔
ریپر شیزان کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ گانے کسی شہرت کے لیے نہیں بنائے تھے، بس جو ہوتا دیکھا، اس پر ردعمل دیا، حنان حسین کو ان کے گانے کے فوراً بعد گرفتار کر لیا گیا تھا، اور وہ شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کے بعد ہی رہا ہو سکے۔ ’اس فی البدیہہ احتجاجی ریپ میوزک کا مستقبل روشن ہے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انقلاب بنگلہ دیش طلبا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انقلاب بنگلہ دیش بنگلہ دیش میں ریپ میوزک
پڑھیں:
حسینہ واجد نے ہی طلبہ پر خونریز کریک ڈاؤن کی منظوری دی تھی‘ لیک آڈیو میں انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ڈھاکا (مانیٹرنگ ڈیسک) برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے تحقیقی یونٹ (بی بی سی آئی )کی تصدیق شدہ آڈیو کال سے انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ سال طلبا احتجاج کے دوران خونریز کارروائی کی منظوری سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے خود دی تھی۔ یہ آڈیو کال مارچ 2025 میں لیک ہوئی تھی، جس میں حسینہ واجد کوسیکورٹی فورسز کو مہلک ہتھیار استعمال کرنے اور طلبا کو موقع پر گولی مارنے کا حکم دیتے سنا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ اگست 2024 میں طلبا کی قیادت میں حکومت مخالف تحریک کے دوران ایک ہزار سے زاید مظاہرین جاں بحق ہو گئے تھے، جس کے بعد حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور وہ ملک سے فرار ہو کر بھارت میں پناہ گزین ہو گئیں۔