بنگلہ دیش: واحد ہندو سیاسی پارٹی، رجسٹریشن کے لیے کوشاں
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جولائی 2025ء) ایک ایسے ملک میں جہاں سرکاری مردم شماری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ہندو آبادی 2011 میں 8.54 فیصد سے کم ہو کر 2022 میں 7.95 فیصد رہ گئی، وہاں ہندوؤں کے لیے سیاسی جماعت کا تصور بہت ہی جرات مندانہ ہے۔
بنگلہ دیش نے مذہبی تشدد سے متعلق امریکی انٹیلیجنس سربراہ کا بیان رد کر دیا
تاہم تمام مشکلات کے باوجود، بنگلہ دیش سناتن پارٹی (بی ایس پی) نے 26 اگست 2022 کو ڈھاکہ میں اپنے وجود میں آنے کا اعلان کیا۔
حالانکہ بنیاد پرست عناصر کی مخالفت نے اس وقت کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کو بی ایس پی کو سیاسی تنظیم کے طور پر رجسٹر کرنے کی اجازت دینے سے روک دیا تھا۔سیاسی جماعت کی رجسٹریشن عام طور پر الیکشن کمیشن کا کام ہے لیکن بنگلہ دیش میں معاملات ذرا مختلف ہیں۔
(جاری ہے)
بی ایس پی کے بانی اور جنرل سکریٹری، سومن کمار رائے نے ڈھاکہ سے فون پر ایک بھارتی میڈیا ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’الیکشن کمیشن یہاں خود مختار نہیں ہے۔
یہ یا تو حکومت وقت کی خواہشات کے مطابق کام کرتا ہے، موجودہ معاملے میں محمد یونس کی سربراہی والی عبوری حکومت، یا فوج کے سربراہ کی ہدایت کے مطابق۔‘‘بنگلہ دیش: بغاوت کے مبینہ ملزم ہندو مذہبی رہنما کی درخواست ضمانت مسترد
چونکہ رائے کی بنگلہ دیشی فوج تک رسائی محدود ہے اس لیے وہ عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ بی ایس پی کو سیاسی پارٹی کے طور پر رجسٹریشن مل جائے۔
بنگلہ دیشی ہندوؤں کو شیخ حسینہ سے شکایترائے کے مطابق، ہندو کمیونٹی، جس نے حسینہ کی عوامی لیگ کو ہمیشہ یک مشت ووٹ دیا، عوامی لیگ کی رجسٹریشن مئی میں منسوخ کر دیے جانے کے بعد اپنی پسند کی سیاسی پارٹی چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ عالمی برادری کے سامنے یونس کے لیے بہتر امیج پیش کرنے کا موقع فراہم کرے گا کیونکہ حسینہ کے بھارت فرار ہو جانے کے بعد سے عبوری حکومت پر اقلیتوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بنگلہ دیش میں ہندو برادری شیخ حسینہ کی کھل کر حمایتی تھی اور ان کو بھی سابق وزیر اعظم کی مکمل تائید اور حمایت حاصل تھی، اس کے باوجود ہندوؤں کے لیے خصوصی پارٹی شروع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
رائے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں حسینہ کے خلاف نہیں ہوں۔ وہ بہت زیادہ انتظامی معلومات رکھتی تھیں۔
لیکن حسینہ نے ہندوؤں کو محض ووٹ بینک سمجھا۔ ان کی ایک بڑی خامی یہ تھی کہ وہ سب کو خوش رکھنا چاہتی تھیں، خواہ وہ بھارت ہو یا چین، بنیاد پرست ہوں یا ہندو۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ اسی لیے ہمیں 2022 میں بی ایس پی کا آغاز کرنا پڑا۔‘‘ بنگلہ دیش میں اقلیتوں کی صورت حالپانچ اگست 2024، جب شیخ حسینہ بھارت فرار ہوئیں، کے بعد سے، بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے لیے حالات خراب ہوئے ہیں۔
ڈھاکہ ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں 4 اگست سے 20 اگست کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد کے کل 2,010 واقعات ہوئے۔ بنگلہ دیش کی ہندو بدھسٹ کرسچن اوکیا پریشد نے انکشاف کیا کہ مذکورہ عرصے کے دوران اقلیتوں کے 915 گھروں پر حملے کیے گئے، 953 کاروباری اداروں کو نشانہ بنایا گیا، 69 مندروں کو نشانہ بنایا گیا، نو افراد کو ہلاک اور چار خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔بنگلہ دیش میں مذہبی کشیدگی کیوں بڑھ رہی ہے؟
ڈھاکہ ٹریبیون نے 20 ستمبر کو لکھا، ’’تقریباً 50 ہزار مرد، خواتین، نوعمر، بچے اور جسمانی یا ذہنی معذوری والے افراد براہ راست متاثر ہوئے۔‘‘
ایک مقبول ہندو پجاری اور بنگلہ دیش سمیلیتا سناتن جاگرن منچ کے ترجمان، چنموئے کرشنا داس، جنہوں نے بہت سے مظاہروں کی قیادت کی تھی، کو 25 نومبر 2024 کو گرفتار کیا گیا، اور ان پر غداری کے الزامات عائد کیے گئے۔
ہندو سیاسی جماعت کی ضرورت کیوں؟رائے کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے لیے اپنی سیاسی تنظیم کا ہونا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش میں اس وقت تقریباً 50 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں اور ان میں سے 23 اسلام پسند جماعتیں ہیں۔
بی ایس پی کے جنرل سکریٹری کا سوال ہے کہ ’’کیا ہندوؤں کی اپنی ایک پارٹی نہیں ہونی چاہیے؟‘‘
بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن نےنئی سیاسی جماعت کے رجسٹریشن کے لیے سخت ضابطے رکھے ہیں۔
مثال کے طور پر، اس کی کم از کم 100 ذیلی شاخیں اور 21 ضلعی کمیٹیاں ہونی چاہئیں۔بنگلہ دیش سناتن پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کی 120 ذیلی شاخیں اور 50 سے زیادہ ضلعی کمیٹیاں ہیں، جو رجسٹریشن کے لئے ضروری سے کہیں زیادہ ہیں، جس کا ثبوت الیکشن کمیشن کو پیش کیا جا رہا ہے۔ تاہم، اس کے لیے کم از کم 122 پارٹی دفاتر کی ضرورت ہے، جس میں بی ایس پی پیچھے ہے۔
رائے کہتے ہیں، ’’اس میں بہت پیسہ لگتا ہے اور میں اس کی ضمانت دے سکتا ہوں کہ رجسٹرڈ پارٹیوں کے ایک بڑے حصے کے پاس آج بھی 122 پارٹی دفاتر نہیں ہیں۔ تو پھر ہمارے ساتھ تفریق کیوں؟‘‘
رائے کی شیخ حسینہ سے شکایت ہے کہ ہندو نواز ہونے کا دم بھرنے کے باوجود انہوں نے بنگلہ دیش کی پہلی ’ہندو‘ پارٹی کو رجسٹریشن کی اجازت نہیں دی۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا انہیں اب کامیابی کی امید ہے؟ بنگلہ دیش سناتن پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا،''کوئی ہمیں اجازت نہیں دے گا، کوئی بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دے گا۔ پھر بھی، ہم کوشش کر رہے ہیں۔ بہت کم لوگوں نے ہمیں فرقہ پرست کہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم لفظ 'سناتن‘ کو چھوڑ دیں، جبکہ اسلامی آندولن بنگلہ دیش یا بنگلہ دیش اسلامک فرنٹ جیسے ناموں پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے لیے الیکشن کمیشن سیاسی جماعت بی ایس پی کے مطابق
پڑھیں:
بھارت دنیا کی واحد ریاست ہے،جو پاکستان میں ہونے ولےدہشتگرد حملوں پر سینہ تان کرخوشی مناتی ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر
راولپنڈی(ڈیلی پاکستان آ ن لائن)ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ میرا خیال ہے کہ بھارت دنیا کی واحد ریاست ہے،جو پاکستان میں ہونے ولےدہشتگرد حملوں پر سینہ تان کرخوشی مناتی ہے ۔
الجریزہ ٹی وی چینل کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کاکہناتھا کہ وہ خوش ہوتے ہیں، لطف اندوز ہوتے ہیں،جب خودکش حملے ہوتے ہیں جب معصوم بچوں کا خون بہتا ہے،توثبوت چاہے معلوماتی ڈومین میں ہو انتظامی سطحی پر ہو کسی دائرہ کار میں ہو،مالی معاونت دہشتگردی کی فنڈنگ ہر جگہ کھلے عام موجود ہے یہ ہر جگہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔
غزہ پر اسرائیلی حملوں میں مزید 24 فلسطینی شہید، 2 بڑے ہسپتال ایندھن کی قلت کا شکار
میرا خیال ہے کہ بھارت دنیا کی واحد ریاست ہے جو پاکستان میں ہونے والے دہشتگرد حملوں پر سینہ تان کر خوشی مناتی ہے،وہ خوش اور لطف اندوز ہوتے ہیں ، ڈی جی آئی ایس پی آر pic.twitter.com/WuSjVE6Sqp
— Pervaiz Sandhila (@chsandhilaa) July 9, 2025مزید :