UrduPoint:
2025-07-11@14:46:42 GMT

بنگلہ دیش: واحد ہندو سیاسی پارٹی، رجسٹریشن کے لیے کوشاں

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

بنگلہ دیش: واحد ہندو سیاسی پارٹی، رجسٹریشن کے لیے کوشاں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جولائی 2025ء) ایک ایسے ملک میں جہاں سرکاری مردم شماری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ہندو آبادی 2011 میں 8.54 فیصد سے کم ہو کر 2022 میں 7.95 فیصد رہ گئی، وہاں ہندوؤں کے لیے سیاسی جماعت کا تصور بہت ہی جرات مندانہ ہے۔

بنگلہ دیش نے مذہبی تشدد سے متعلق امریکی انٹیلیجنس سربراہ کا بیان رد کر دیا

تاہم تمام مشکلات کے باوجود، بنگلہ دیش سناتن پارٹی (بی ایس پی) نے 26 اگست 2022 کو ڈھاکہ میں اپنے وجود میں آنے کا اعلان کیا۔

حالانکہ بنیاد پرست عناصر کی مخالفت نے اس وقت کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کو بی ایس پی کو سیاسی تنظیم کے طور پر رجسٹر کرنے کی اجازت دینے سے روک دیا تھا۔

سیاسی جماعت کی رجسٹریشن عام طور پر الیکشن کمیشن کا کام ہے لیکن بنگلہ دیش میں معاملات ذرا مختلف ہیں۔

(جاری ہے)

بی ایس پی کے بانی اور جنرل سکریٹری، سومن کمار رائے نے ڈھاکہ سے فون پر ایک بھارتی میڈیا ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’الیکشن کمیشن یہاں خود مختار نہیں ہے۔

یہ یا تو حکومت وقت کی خواہشات کے مطابق کام کرتا ہے، موجودہ معاملے میں محمد یونس کی سربراہی والی عبوری حکومت، یا فوج کے سربراہ کی ہدایت کے مطابق۔‘‘

بنگلہ دیش: بغاوت کے مبینہ ملزم ہندو مذہبی رہنما کی درخواست ضمانت مسترد

چونکہ رائے کی بنگلہ دیشی فوج تک رسائی محدود ہے اس لیے وہ عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ بی ایس پی کو سیاسی پارٹی کے طور پر رجسٹریشن مل جائے۔

بنگلہ دیشی ہندوؤں کو شیخ حسینہ سے شکایت

رائے کے مطابق، ہندو کمیونٹی، جس نے حسینہ کی عوامی لیگ کو ہمیشہ یک مشت ووٹ دیا، عوامی لیگ کی رجسٹریشن مئی میں منسوخ کر دیے جانے کے بعد اپنی پسند کی سیاسی پارٹی چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ عالمی برادری کے سامنے یونس کے لیے بہتر امیج پیش کرنے کا موقع فراہم کرے گا کیونکہ حسینہ کے بھارت فرار ہو جانے کے بعد سے عبوری حکومت پر اقلیتوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بنگلہ دیش میں ہندو برادری شیخ حسینہ کی کھل کر حمایتی تھی اور ان کو بھی سابق وزیر اعظم کی مکمل تائید اور حمایت حاصل تھی، اس کے باوجود ہندوؤں کے لیے خصوصی پارٹی شروع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

رائے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں حسینہ کے خلاف نہیں ہوں۔ وہ بہت زیادہ انتظامی معلومات رکھتی تھیں۔

لیکن حسینہ نے ہندوؤں کو محض ووٹ بینک سمجھا۔ ان کی ایک بڑی خامی یہ تھی کہ وہ سب کو خوش رکھنا چاہتی تھیں، خواہ وہ بھارت ہو یا چین، بنیاد پرست ہوں یا ہندو۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ اسی لیے ہمیں 2022 میں بی ایس پی کا آغاز کرنا پڑا۔‘‘ بنگلہ دیش میں اقلیتوں کی صورت حال

پانچ اگست 2024، جب شیخ حسینہ بھارت فرار ہوئیں، کے بعد سے، بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے لیے حالات خراب ہوئے ہیں۔

ڈھاکہ ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں 4 اگست سے 20 اگست کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد کے کل 2,010 واقعات ہوئے۔ بنگلہ دیش کی ہندو بدھسٹ کرسچن اوکیا پریشد نے انکشاف کیا کہ مذکورہ عرصے کے دوران اقلیتوں کے 915 گھروں پر حملے کیے گئے، 953 کاروباری اداروں کو نشانہ بنایا گیا، 69 مندروں کو نشانہ بنایا گیا، نو افراد کو ہلاک اور چار خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

بنگلہ دیش میں مذہبی کشیدگی کیوں بڑھ رہی ہے؟

ڈھاکہ ٹریبیون نے 20 ستمبر کو لکھا، ’’تقریباً 50 ہزار مرد، خواتین، نوعمر، بچے اور جسمانی یا ذہنی معذوری والے افراد براہ راست متاثر ہوئے۔‘‘

ایک مقبول ہندو پجاری اور بنگلہ دیش سمیلیتا سناتن جاگرن منچ کے ترجمان، چنموئے کرشنا داس، جنہوں نے بہت سے مظاہروں کی قیادت کی تھی، کو 25 نومبر 2024 کو گرفتار کیا گیا، اور ان پر غداری کے الزامات عائد کیے گئے۔

ہندو سیاسی جماعت کی ضرورت کیوں؟

رائے کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے لیے اپنی سیاسی تنظیم کا ہونا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش میں اس وقت تقریباً 50 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں اور ان میں سے 23 اسلام پسند جماعتیں ہیں۔

بی ایس پی کے جنرل سکریٹری کا سوال ہے کہ ’’کیا ہندوؤں کی اپنی ایک پارٹی نہیں ہونی چاہیے؟‘‘

بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن نےنئی سیاسی جماعت کے رجسٹریشن کے لیے سخت ضابطے رکھے ہیں۔

مثال کے طور پر، اس کی کم از کم 100 ذیلی شاخیں اور 21 ضلعی کمیٹیاں ہونی چاہئیں۔

بنگلہ دیش سناتن پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کی 120 ذیلی شاخیں اور 50 سے زیادہ ضلعی کمیٹیاں ہیں، جو رجسٹریشن کے لئے ضروری سے کہیں زیادہ ہیں، جس کا ثبوت الیکشن کمیشن کو پیش کیا جا رہا ہے۔ تاہم، اس کے لیے کم از کم 122 پارٹی دفاتر کی ضرورت ہے، جس میں بی ایس پی پیچھے ہے۔

رائے کہتے ہیں، ’’اس میں بہت پیسہ لگتا ہے اور میں اس کی ضمانت دے سکتا ہوں کہ رجسٹرڈ پارٹیوں کے ایک بڑے حصے کے پاس آج بھی 122 پارٹی دفاتر نہیں ہیں۔ تو پھر ہمارے ساتھ تفریق کیوں؟‘‘

رائے کی شیخ حسینہ سے شکایت ہے کہ ہندو نواز ہونے کا دم بھرنے کے باوجود انہوں نے بنگلہ دیش کی پہلی ’ہندو‘ پارٹی کو رجسٹریشن کی اجازت نہیں دی۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا انہیں اب کامیابی کی امید ہے؟ بنگلہ دیش سناتن پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا،''کوئی ہمیں اجازت نہیں دے گا، کوئی بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دے گا۔ پھر بھی، ہم کوشش کر رہے ہیں۔ بہت کم لوگوں نے ہمیں فرقہ پرست کہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم لفظ 'سناتن‘ کو چھوڑ دیں، جبکہ اسلامی آندولن بنگلہ دیش یا بنگلہ دیش اسلامک فرنٹ جیسے ناموں پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے لیے الیکشن کمیشن سیاسی جماعت بی ایس پی کے مطابق

پڑھیں:

اے این پی کو خیر باد کہنے والی بلور خاندان کی واحد خاتون سیاستدان ثمر ہارون بلور کون ہیں؟

عوامی نیشنل پارٹی کی سابقہ صوبائی سیکریٹری اطلاعات و سابق رکن خیبر پختونخوا اسمبلی ثمر ہارون بلور نے قوم پرست جماعت اے این پی سے کئی دہائیوں پر محیط ساتھ توڑ کر پارٹی چھوڑ دی ہے اور وفاق میں حکمران ن لیگ میں شمولیت کا فیصلہ کر چکی ہیں۔

ثمر ہارون بلور نے خود اے این پی سے علیحدگی کی تصدیق کر دی ہے اور وہ وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کرکے باقاعدہ طور پر ن لیگ میں شمولیت اختیار کریں گی۔

ثمر ہارون بلور نے خاندانی جماعت کیوں چھوڑی؟

عوامی نیشنل پارٹی اور بلور خاندان کا ساتھ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ بلور خاندان کے سربراہ اور بزرگ سیاستدان غلام احمد بلور اگرچہ سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر چکے ہیں لیکن اے این پی سے تعلق نہیں توڑا ہے۔

’ثمر ہارون بلور کا اے این پی سے نظریاتی اختلاف تھا‘

شمیم شاہد پشاور کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ انہوں نے وی نیوز کو تجزیہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق ثمر کا ن لیگ میں شمولیت اور اے این پی کو چھوڑنا ان کا ذاتی فیصلہ ہے اور بلور خاندان کا متفقہ فیصلہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو ثمر بلور کی سیاسی جڑیں مسلم لیگی ہیں۔ ان کے والد ن لیگ سے تعلق رکھتے تھے جبکہ نانا غلام اسحاق خان بھی لیگی تھے۔ وہ ہارون بلور کی بیوہ ضرور ہیں لیکن اے این پی سے ان کا نظریاتی تعلق نہیں تھا‘۔

شمیم شاہد نے بتایا کہ اس وقت بلور خاندان سیاسی اور معاشی مسائل سے دوچار ہے لیکن اس فیصلے سے اے این پی یا بلور خاندان پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔

ثمر ہارون بلور کون ہیں؟

سال 2018 تک ثمر ہارون بلور کو پارٹی اور عام لوگ بالکل نہیں جانتے تھے۔ اس وقت تک وہ گھریلو خاتون تھیں۔ سال 2018 شاید ان کی زندگی کا مشکل ترین سال تھا جب عام انتخابات کے لیے مہم کے دوران ان کے شوہر اور اے این پی کے امیدوار کو پشاور کے علاقے سرکلر روڈ پر ایک جلسے کے دوران دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔ حملے میں ہارون بلور جان کی بازی ہار گئے۔ شوہر کی شہادت کے بعد ثمر سیاست کے میدان میں اتریں اور ضمنی انتخاب میں شوہر کی نشست پر کامیاب ہوئیں۔

ثمر بلور نے دہشتگردی کے ہاتھوں اپنے سسر اور شوہر کو کھونے کے باوجود سیاست سے پیچھے ہٹنے کے بجائے میدان میں قدم رکھا۔ وہ بلور خاندان کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے عملی سیاست کا آغاز کیا۔

خاندانی پس منظر

ثمر ہارون بلور پشاور کے بااثر سیاسی و کاروباری خاندان بلور کی بہو ہیں۔

بلور خاندان کا شمار پاکستان کے بااثر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے جو کئی دہائیوں سے خیبر پختونخوا کی سیاست میں سرگرم ہے۔

ثمر ہارون بلور سندھ کی اہم شخصیت اور سیاستدان عرفان اللہ مروت کی بیٹی ہیں جبکہ پاکستان کے سابق صدر غلام اسحاق خان کی نواسی ہیں۔ ان کی شادی خیبر پختونخوا کے ممتاز سیاسی رہنما بیرسٹر ہارون بلور (بشیر احمد بلور کے بڑے صاحبزادے) سے ہوئی جو عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سرگرم کارکن تھے۔

ثمر ہارون بلور نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔

سیاست میں انٹری

ثمر ہارون بلور بلور خاندان کی واحد خاتون ہیں جو اس وقت عملی سیاست کر رہی ہیں۔ سال 2018 تک وہ سیاست سے دور تھیں۔ شوہر کی شہادت کے بعد انہوں نے سیاست میں قدم رکھا۔ اکتوبر 2018 میں انہوں نے خیبر پختونخوا اسمبلی کے حلقہ PK-78 پشاور سے ضمنی انتخاب لڑا اور 20,916 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ ثمر بلور نے دہشتگردی کے ہاتھوں اپنے سسر اور شوہر کو کھونے کے باوجود سیاست سے کنارہ کشی نہیں کی۔

مشکل وقت، گھر فروخت کرنا پڑا

بشیر احمد بلور کی شہادت کے بعد ثمر ہارون بلور کا خاندان مشکلات کا شکار ہو گیا۔ انہیں معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلسل سیکیورٹی خدشات کے باعث انہوں نے پشاور کے بجائے اسلام آباد منتقلی کو ترجیح دی۔ پشاور کینٹ میں واقع ان کا عالیشان گھر بھی فروخت کرنا پڑا جو ن لیگ کے رہنما امیر مقام نے خرید لیا۔

پشاور کا بلور خاندان

غلام احمد بلور کا تعلق پشاور کے ایک بااثر تاجر و سیاسی خاندان سے ہے۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق باجوڑ ایجنسی سے تھا جو بعد ازاں پشاور منتقل ہوئے۔ ان کے والد حاجی بلور دین ایک معروف تاجر اور سماجی کارکن تھے۔ بلور خاندان نے نہ صرف تجارت میں مقام حاصل کیا بلکہ کئی دہائیوں تک سیاست میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ حاجی دین بلور کے بیٹے غلام احمد بلور اور بشیر بلور نے سیاست میں نام کمایا اور پشاور کی سیاست پر طویل عرصے تک راج کیا۔ انہوں نے کئی بار رکن اسمبلی اور وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بلور خاندان کی سیاست ہمیشہ عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ جڑی رہی ہے۔

غلام احمد بلور کی سیاست سے کنارہ کشی، خاندان کی اسلام آباد منتقلی

بلور خاندان کی سیاسی عروج کو بڑا دھچکا اس وقت لگا جب سال 2012 میں بشیر بلور دہشتگردی کے ایک حملے میں شہید ہو گئے۔ اس کے بعد ان کے بڑے بیٹے، جو اس وقت لندن میں تھے، واپس آئے اور والد کی جگہ سیاست میں قدم رکھا لیکن 2013 کے عام انتخابات میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بعد ازاں غلام احمد بلور بھی انتخاب ہارنے لگے اور اب باقاعدہ طور پر سیاست سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔

انہوں نے پشاور میں واقع بلور ہاؤس بھی فروخت کر دیا ہے اور پشاور کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر اسلام آباد منتقل ہو چکے ہیں۔ ان کا اکلوتا پوتا سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتا جس کی وجہ سے بلور خاندان اب سیاست سے دور ہو چکا ہے۔

اب صرف ثمر ہارون بلور اور سابق سینیٹر الیاس بلور کے بیٹے غضنفر بلور سیاست میں فعال ہیں لیکن وہ بھی خاندانی جماعت اے این پی کو چھوڑ کر بالترتیب ن لیگ اور پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بشیر احمد بلور بلور خاندان پی ٹی آئی ثمر ہارون بلور سابق صدر غلام اسحاق خان عرفان اللہ مروت غلام احمد بلور ن لیگ

متعلقہ مضامین

  • خیبرپختونخوا سینیٹ الیکشن سے قبل سیاسی جوڑ توڑ تیز، پیپلز پارٹی وفد کی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات
  • مولانا فضل الرحمان سے پیپلزپارٹی کے وفد کی ملاقات، سینیٹ انتخابات کے حوالے سے مشاورت
  • ’میوزک، میمز اور گرافیٹی‘ بنگلہ دیش میں بغاوت سے احتساب تک کے عوامی ہتھیار
  • شیخ حسینہ واجد کے خلاف ‘انسانیت کیخلاف جرائم’ کے مقدمے کا آغاز، سابق آئی جی وعدہ معاف گواہ بن گئے
  • دنیا بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور ہندو انتہاپسندی کے خطرناک رجحانات سے بدظن ہورہی ہے، فیلڈ مارشل
  • فضل الرحمان سے امیر مقام اور رانا ثناء اللہ کی ملاقات، پختونخوا میں پارٹی پوزیشن پر مشاورت
  • بنگلہ دیش: آڈیو ریکارڈنگز کے مطابق کریک ڈاؤن کا حکم شیخ حسینہ نے دیا
  • اے این پی کو خیر باد کہنے والی بلور خاندان کی واحد خاتون سیاستدان ثمر ہارون بلور کون ہیں؟
  • خیبر پختونخوا: اے این پی کو بڑا سیاسی جھٹکا، بلور خاندان کی اہم شخصیت ن لیگ میں شامل