Jasarat News:
2025-11-03@14:07:58 GMT

سیدہ صفیہؓ

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اصلی نام زینب تھا لیکن وہ چونکہ جنگ خیبر میں خاص نبی اکرمؐ کے حصے میں آئی تھیں اور عرب میں غنیمت کے ایسے حصے کو جو امام یا بادشاہ کے لیے مخصوص ہوتا ہے صفیہ کہتے تھے اس لیے وہ بھی صفیہ کے نام سے مشہور ہوگئیں، یہ زرقانی کی روایت ہے۔
سیدہ صفیہ کو باپ اور ماں دونوں کی طرف سے سیادت حاصل ہے۔ باپ کا نام حیی بن اخطب تھا۔ جو قبیلہ بنو نضیر کا سردار تھا۔ اور ہارون علیہ السلام کی نسل میں شمار ہوتا تھا۔ ماں کا نام ضرو تھا، سموال رئیس قریظہ کی بیٹی تھی۔

سیدہ صفیہؓ کی شادی پہلے سلام بن مشکم القریظی سے ہوئی تھی۔ سلام نے طلاق دی تو کنانہ بن ابی لحقیق کے نکاح میں آئیں۔ جو ابورافع تاجر حجاز اور رئیس اور خیبر کا بھتیجا تھا۔ کنانہ جنگ خیبر میں مقتول ہوا۔ سیدہ صفیہؓ کے باپ اور بھائی بھی کام آئے اور خود بھی گرفتار ہوئیں۔ جب خیبر کے تمام قیدی جمع کیے گئے تو دحیہ کلبیؓ نے آپؐ سے ایک لونڈی کی درخواست کی آپ نے انتخاب کرنے کی اجازت دی، انہوں نے سیدہ صفیہؓ کو منتخب کیا، لیکن ایک صحابی نے آپ کی خدمت میں آکر عرض کی کہ آپ نے رئیسہ بنو نضیر و قریظہ کو دحیہ کو دے دیا، وہ تو صرف آپ کے لیے سزاوار ہے، مقصود یہ تھا کہ رئیسہ عرب کے ساتھ عام عورتوں کا سا برتاؤ مناسب نہیں۔ چنانچہ دحیہؓ کو آپ نے دوسری لونڈی عنایت فرمائی اور صفیہ کو آزاد کر کے نکاح کر لیا (صحیح بخاری، صحیح مسلم)۔
سیدنا عثمانؓ کے ایام محاصرہ میں جو سن 35 ہجری میں ہوا تھا۔ سیدہ صفیہؓ نے ان کی بے حد مدد کی تھی، جب عثمانؓ پر ضروریات زندگی مسدود کر دی گئیں، اور ان کے مکان پر پہرہ بٹھا دیا گیا۔ تو وہ خود خچر پر سوار ہو کر ان کے مکان کی طرف چلیں۔ غلام ساتھ تھا، اشتر کی نظر پڑی تو انہوں نے آکر خچر کو مارنا شروع کیا، صفیہؓ نے کہا مجھ کو ذلیل ہونے کی ضرورت نہیں، میں واپس جاتی ہوں تم خچر کو چھوڑ دو۔ گھر واپس آئیں تو سیدنا حسنؓ کو اس خدمت پر مامور کیا، وہ ان کے مکان سے سیدنا عثمانؓ کے پاس کھانا اور پانی لے جاتے تھے (اصابہ)۔
سیدہ صفیہؓ نے رمضان 50 ہجری میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں، اس وقت ان کی عمر ساٹھ سال کی تھی۔ ایک لاکھ ترکہ چھوڑا، اور ایک ثلث کے لیے اپنے یہودی بھانجے کے لیے وصیت کر گئیں (زرقانی)۔

سیدہ صفیہؓ سے چند حدیثیں مروی ہیں، جن کو زین العابدینؓ، اسحاق بن عبداللہ بن حارث، مسلم بن صفوان، کنانہ اور یزید بن معتب وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ دیگر ازواج کی طرح صفیہؓ بھی اپنے زمانے میں علم کا مرکز تھیں۔ سیدہ صہیرہؓ بنت جیفر حج کر کے سیدہ صفیہؓ کے پاس مدینہ آئیں تو کوفہ کی بہت سی عورتیں مسائل دریافت کرنے کی غرض سے بیٹھی ہوئی تھیں، صہیرہؓ کا بھی یہی مقصد تھا۔ اس لیے انہوں نے کوفہ کی عورتوں سے سوال کرائے اور ایک فتوی نبیذ کے متعلق تھا۔ صفیہؓ نے سنا تو بولیں اہل عراق اس مسئلے کو اکثر پوچھتے ہیں(مسند)۔
سیدہ صفیہؓ میں بہت سے محاسن اخلاق جمع تھے، اسد الغابہ میں ہے: ’’وہ عقلمند عورتوں میں نہایت عقلمند تھیں‘‘۔ زرقانی میں ہے: ’’صفیہؓ عقل والی، فاضلہ اور حلم والی تھیں‘‘۔
حلم و تحمل ان کے باب فضائل کا نہایت جلی عنوان ہے، غزوہ خیبر میں جب وہ اپنی بہن کے ساتھ گرفتار ہو کر آ رہی تھیں تو ان کی بہن یہودیوں کی لاشوں کو دیکھ کر چیخ اٹھتی تھیں۔ سیدہ صفیہؓ اپنے محبوب شوہر کی لاش سے قریب ہو کر گزریں لیکن اب بھی اسی طرح پیکر متانت تھیں اور ان کی جبین تحمل پر کسی قسم کی شکن نہیں آئی۔

ایک مرتبہ سیدہ حفصہؓ نے ان کو یہودیہ کہا، ان کو معلوم ہوا۔ تو رونے لگیں، صفیہؓ کے پاس ایک کنیز تھی، جو سیدنا عمرؓ سے جا کر ان کی شکایت کیا کرتی تھی۔ چنانچہ ایک دن کہا کہ ان میں یہودیت کا اثر آج تک باقی ہے، وہ یوم السبت کو اچھا سمجھتی ہیں۔ اور یہودیوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہیں۔ عمرؓ نے تصدیق کے لیے ایک شخص کو بھیجا تو صفیہؓ نے جواب دیا کہ یوم السبت کو اچھا سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں، اس کے بدلے خدا نے ہم کو جمعہ کا دن عنایت فرمایا ہے۔ البتہ میں یہود کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہوں، وہ میرے خویش و اقارب ہیں۔ اس کے بعد لونڈی کو بلا کر پوچھا کہ تم نے میری شکایت کی تھی؟ بولی: ہاں، مجھے شیطان نے بہکا دیا تھا۔ یہ سن کر سیدہ صفیہؓ خاموش ہو گئیں اور اس لونڈی کو آزاد کر دیا (اصابہ)۔
سیدہ صفیہؓ کو آپؐ سے بہت محبت تھی۔ جب آپ علیل ہوئے تو نہایت حسرت سے بولیں:’’کاش! آپ کی بیماری مجھ کو ہو جاتی‘‘۔ ازواج نے ان کی طرف دیکھنا شروع کیا، تو آپؐ نے فرمایا یہ سچ کہہ رہی ہیں (یعنی اس میں تصنع کا شائبہ نہیں ہے) (زرقانی بحوالہ ابن سعد)۔
نبی اکرمؐ کو بھی ان کے ساتھ نہایت محبت تھی۔ اور ہر موقع پر ان کی دلجوئی فرماتے تھے۔ ایک بار آپ سفر میں تھے، ازواج مطہرات بھی تھیں، صفیہؓ کا اونٹ سوئے اتفاق سے بیمار ہوگیا۔ سیدہ زینبؓ کے پاس اونٹ ضرورت سے زیادہ تھے، آپ نے ان سے فرمایا کہ ایک اونٹ صفیہؓ کو دیدو۔ انہوں نے کہا، کیا میں اس یہودیہ کو اپنا اونٹ دے دوں؟ اس پر آپؐ ان سے اس قدر ناراض ہوئے کہ دو مہینے تک ان کے پاس نہ گئے۔ (اصابہ بحوالہ ابن سعد وزرقانی) ایک مرتبہ سیدہ عائشہؓ نے ان کی قد وقامت کی نسبت چند جملے کہے (آپؓ پست قد تھیں) تو آپؐ نے فرمایا کہ تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر سمندر میں چھوڑ دی جائے تو اس میں مل جائے (یعنی سمندر کو بھی گدلا کر سکتی ہے) (ابوداؤد)۔

ایک بار آپؐ صفیہؓ کے پاس تشریف لے گئے، دیکھا کہ رو رہی ہیں آپ نے رونے کی وجہ پوچھی، تو انہوں نے کہا کہ ’’عائشہ و حفصہؓ کہتی ہیں کہ ہم تمام ازواج میں افضل ہیں، ہم آپ کی زوجہ ہونے کے ساتھ آپ کی چچا زاد بہنیں بھی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ’’ہارون میرے باپ، موسی میرے چچا اور محمدؐ میرے شوہر ہیں، اس لیے تم لوگ کیونکر مجھ سے افضل ہو سکتی ہو‘‘ (صحیح ترمذی)۔
سفر حج میں سیدہ صفیہؓ کا اونٹ بیٹھ گیا تھا۔ اور وہ سب سے پیچھے رہ گئی تھیں۔ آپؐ ادھر سے گزرے تو دیکھا کہ زاروقطار رو رہی ہیں، آپ نے رداء اور دست مبارک سے ان کے آنسو پونچھے، آپ آنسو پونچھتے جاتے تھے اور وہ بے اختیار روتی جاتی تھیں (زرقانی)۔
سیدہ صفیہؓ سیر چشم اور فیاض واقع ہوئی تھیں، چنانچہ جب وہ ام المومنین بن کر مدینہ میں آئیں تو سیدہ فاطمہؓ اور ازواج مطہراتؓ کو اپنی سونے کی بجلیاں تقسیم کیں (زرقانی)۔
آپؓ کھانا نہایت عمدہ پکاتی تھیں اور آپؐ کے پاس تحفۃً بھیجا کرتی تھیں۔ سیدہ عائشہؓ کے گھر میں آپؐ کے پاس انہوں نے پیالہ میں جو کھانا بھیجا تھا اس کا ذکر بخاری اور نسائی وغیرہ میں آیا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سیدہ صفیہ انہوں نے کے ساتھ کے پاس کے لیے

پڑھیں:

بلیدہ میں پکنک پر گئے 4نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد، خاندانوں میں صف ماتم

کوئٹہ:

بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل بلیدہ کے علاقے جاڑین سے چار نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

نوجوان تقریباً ایک ہفتہ قبل پکنک منانے کے لیے گئے تھے اور اس کے بعد سے لاپتا تھے اور آج یہ افسوسناک واقعہ سامنے آیا ہے جس نے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔

ذرائع کے مطابق قتل ہونے والے نوجوانوں کی شناخت ذاکر ولد عبداللہ، رزاق ولد عبداللہ، صادق اور پیرجان کے ناموں سے ہوئی ہے۔ تین نوجوان زِردان کوچہ بلیدہ کے رہائشی تھے، جبکہ ایک کا تعلق بٹ کورے پشت جاڑین بازار سے تھا۔

اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ یہ نوجوان پکنک کے لیے نکلے تھے اور اسی دن سے ان کے موبائل فون بند ہوگئے تھے، ان کے اہل خانہ نے سوشل میڈیا پر متعدد پوسٹس کے ذریعے حکام بالا سے مدد کی اپیل کی تھی۔

لاشوں کی اطلاع ملتے ہی لواحقین اور مقامی افراد نے پہاڑی علاقے کی جانب روانگی اختیار کی، جہاں سے لاشیں برآمد ہوئیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ لاشیں بری طرح مسخ شدہ حالت میں تھیں اور نوجوانوں کی موٹر سائیکلیں بھی جلا دی گئی تھیں۔ یہ واقعہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں اور جبری گمشدگیوں کی ایک اور مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جہاں حالیہ مہینوں میں متعدد ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا تاہم مقامی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک منظم کارروائی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ خاندانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • بلیدہ میں پکنک پر گئے 4نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد، خاندانوں میں صف ماتم
  • وزیراعلیٰ پنجاب کے روٹ پر مشکوک گاڑیاں، قافلے کو روک لیا گیا
  • پشاور: تھانہ سی ٹی ڈی میں دھماکے کی رپورٹ تیار
  • ولادت حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے مدرسہ امام علی قم میں نشست کا انعقاد
  • ڈہرکی،پولیس کی کامیاب کارروائی، شراب کا اسٹاک برآمد
  • ایف آئی اے نے سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے خلاف کرپشن کا مقدمہ واپس لے لیا