روز مرہ کے استعمال کا ایک مصالحہ خطرناک کینسر سے بچنے میں مددگار
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ روزمرہ خوراک میں ہلدی شامل کرنے سے آنتوں کے کینسر (باؤل کینسر) سے بچاؤ ممکن ہو سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف لیسٹر میں کی گئی تحقیق کے مطابق، ہلدی میں موجود زرد رنگت دینے والا قدرتی مرکب کرکیومن (Curcumin) آنتوں میں کینسر کے ابتدائی خلیوں کی افزائش کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ کرکیومن نقصان دہ خلیوں کو ٹیومر میں تبدیل ہونے سے پہلے ہی غیر مؤثر کر دیتا ہے، اس طرح کینسر بننے کا عمل روکا جا سکتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ کرکیومن ایک اہم پروٹین کو غیر فعال کر دیتا ہے جو کینسر کے خلیوں کے پھیلاؤ میں کردار ادا کرتا ہے۔
لیبارٹری تجربات کے دوران، سائنس دانوں نے کرکیومن کی مخصوص مقدار کو آنتوں کے بافتوں (ٹشوز) پر آزمایا، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ مرکب کینسر اسٹیم سیلز جیسے خلیوں کی بڑھوتری کو مؤثر طریقے سے روکتا ہے۔ ان خلیوں کو عام طور پر ٹیومر کی نشوونما اور دوبارہ پیدا ہونے کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔
تحقیق کے نتائج ‘جرنل کینسر لیٹرز’ میں شائع ہوئے، جس میں یہ واضح کیا گیا کہ کرکیومن نقصان دہ خلیوں کو کم خطرناک شکل میں تبدیل کر دیتا ہے، جس سے ان کی تقسیم اور مضبوطی کی صلاحیت محدود ہو جاتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض کا خطرناک پھیلاؤ، 24 گھنٹوں میں 33 ہزار سے زائد مریض رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور: پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں، جس نے حکام اور صحت کے شعبے کے لیے سنگین چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔
محکمہ صحت پنجاب کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں بخار، جلدی امراض، آشوب چشم، ڈائریا، سانپ اور کتے کے کاٹنے کے 33 ہزار سے زائد کیسز رجسٹر ہوئے ہیں، جبکہ سیلاب زدہ علاقوں میں مجموعی طور پر مریضوں کی تعداد 7 لاکھ 55 ہزار تک جا پہنچی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک دن کے دوران سانس کی تکلیف کے شکار 5 ہزار افراد، بخار سے متاثرہ 4300، جلدی الرجی کے 4 ہزار اور آشوب چشم کے 700 مریض سامنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈائریا کے 1900 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ سانپ کے کاٹنے کے 5 اور کتے کے کاٹنے کے 20 واقعات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار سیلاب سے تباہ حال علاقوں میں صحت کے نظام پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
محکمہ صحت کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 405 مستقل طبی کیمپ قائم کیے گئے ہیں، جہاں اب تک 2 لاکھ 79 ہزار سے زائد مریضوں کا معائنہ اور علاج کیا جا چکا ہے۔ حکام نے بتایا کہ ان کیمپوں میں بنیادی طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، لیکن بیماریوں کے تیزی سے پھیلاؤ نے صورتحال کو پیچیدہ کر دیا ہے۔
ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ صاف پانی کی کمی، ناقص صفائی ستھرائی اور متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کی رفتار سست ہونے کی وجہ سے وبائی امراض کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے اضافی وسائل اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے، جبکہ شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور طبی امداد کے لیے قریبی کیمپوں سے رجوع کریں۔
یہ صورتحال نہ صرف صحت کے شعبے بلکہ امدادی اداروں کے لیے بھی ایک امتحان ہے، کیونکہ متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکام سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فوری طور پر ادویات کی فراہمی اور طبی عملے کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ اس بحران سے نمٹا جا سکے۔