تل ابیب کیساتھ تعلقات کی بحالی ہمارے ایجنڈے میں نہیں، لبنانی صدر
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
اپنے ایک جاری بیان میں شیخ نعیم قاسم کا کہنا تھا کہ ہم کبھی بھی اپنے ہتھیار زمین پر نہیں رکھیں گے۔ یہ ہتھیار صہیونی ریاست کے قبضے اور جارحیت کیخلاف ملک کے دفاع کیلئے ضروری ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کے صدر "جوزف عون" نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی فی الحال ہماری خارجہ پالیسی میں نہیں۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار آج بیروت میں عرب اور بین الاقوامی تعلقات کونسل کے ایک وفد سے ملاقات میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ حکومت تمام گروہوں کو غیر مسلح کرنے کے فیصلے پر قائم ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ مہینوں میں امریکہ نے لبنان کی داخلی اور خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کے لیے نئی سرگرمیاں شروع کی ہیں۔ جس کی واضح مثال، شامی امور کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی "ٹام باراک" کا وہ منصوبہ ہے جو انہوں نے حزب الله اور دیگر مزاحمتی گروہوں کو غیر مسلح کرنے کے لئے پیش کیا ہے۔ اس منصوبے میں ضمنی طور پر حزب الله کے بتدریج غیر مسلح ہونے تک اسرائیلی فوجوں کی واپسی و جارحیت کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ تاہم اس دباؤ کے جواب میں حزب الله کے سیکرٹری جنرل "شیخ نعیم قاسم" نے واضح کیا کہ ہم کبھی بھی اپنے ہتھیار زمین پر نہیں رکھیں گے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ ہتھیار صہیونی ریاست کے قبضے اور جارحیت کے خلاف ملک کے دفاع کے لیے ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حزب الله کسی صورت میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے عمل کو پورا نہیں ہونے دے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے حزب الله کہا کہ
پڑھیں:
سب کچھ یہاں فریب ہے یکسر فریب ہے۔۔۔ !
نیوزی لینڈ:آج کے اس دور فتن میں ہر چیز وافر مقدار میں موجود ہے، ہماری روزمرہ کی چھوٹی سی ضرورت سے لے کر لذّت کام و دہن کے لیے انواع و اقسام کے اتنے کھانے کہ ان کے ناموں کی بھی کتاب بن سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم بیمار زیادہ ہیں، ناخوش زیادہ ہیں، بے چین زیادہ ہیں، اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ کچھ بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس دنیا میں بے انتہاء معالج، اسکالرز، شیوخ، اساتذہ، دوست، احباب ہیں، معلومات کا سمندر ہے لگتا ہے کہ سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے لیکن۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ہے بس میں بس خود فریبی ہے۔
ہمارے اردگرد سب کچھ ہے لیکن ہم بے چین ہیں اور آج کا سب سے بڑا روگ اداسی یعنی احساس رائیگانی ہے جسے سب ’’ڈیپریشن‘‘ کہتے ہیں اور پھر ہم دعائیں کرتے ہیں اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں یا اسی طرح کے ناامیدی کے خیالات اور احساسات ہمارے دل میں، ہماری سوچوں میں گھر کر لیتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے، کیا ہم نے اپنا محاسبہ کیا۔۔۔ ؟
کیوں محرومیت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔۔۔۔ ؟
ہم اپنی دعاؤں میں مانگ کیا رہے ہیں۔۔۔ ؟
دنیاوی آسائش، مادی آسودگی یا وہ جو ہمیں مانگنا چاہیے۔ سکون، صحت، وقت میں برکت، صالح اولاد، حلال رزق، اچھے کام کی طرف بڑھنے والے ہاتھ اور پاؤں، دل و دماغ یعنی اچھی سوچ۔ کبھی ہم نے غور کیا قرآن میں انبیائے کرامؑ، رسولوں و پیغمبروںؑ نے کیا مانگا اور ہم کیا مانگتے ہیں۔۔۔۔ ؟
سورۃ مریم میں حضرت ذکریاؑ ایسا وارث مانگ رہے ہیں جو آل یعقوب سے ہو۔ حضرت ذکریا علیہ السلام کوئی مال دار شخص نہیں تھے۔ وہ اپنے ہاتھوں سے محنت کرتے تھے یعنی اﷲ کے دوست اور ایک بڑھئی تھے۔ وہ اپنی دعا میں کس وارث کی بات کر رہے ہیں ؟ کس وارث کو آگے دیکھ رہے ہیں؟ جی! وہ علم کی وراثت مانگ رہے ہیں، مال و دولت نہیں بل کہ علم۔ وہ اپنی آنے والی نسل کو نہیں چاہتے کہ گم راہی میں چلی جائے۔ ان کی دعا میں اپنے اﷲ سے روشن مستقبل کی طلب ہے۔ غور کریں! ہماری دعائیں تو صرف ہماری ذات تک محدود ہوتی ہیں۔ کیا ہم اپنی دعاؤں کے دوررس اثرات میں اپنے رشتے داروں، اپنے خاندان کو شامل رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔۔۔ ؟
حضرت ذکریاؑ اپنی اس دعا میں ایک ایسا بیٹا مانگ رہے ہیں جو آگے کی نسلوں کے لیے علم کا مینارہ ہو۔ وہ علم جو اﷲ کا عطا کیا ہُوا ہے۔ اس دعا میں وہ مانگ رہے ہیں علم نافع، روشن اور تابناک مستقبل۔ ہمیں بھی اپنی دعاؤں کو سطحی حیثیت سے نکالنا ہوگا، اس میں گیرائی لانا ہوگی۔ ایسی دعائیں جن کا اثر لمبے عرصے تک قائم رہے۔ ان کی تاثیر مثبت ہو۔ خود بھی سیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی سکھائیں کہ دعا یہ نہ ہو کہ مثلاً تعلیمی امتحان صرف پاس ہو جائے بل کہ اپنے اﷲ سے ہر امتحان کو پاس کرنے کا دوررس مقصد مانگیں، وقتی نہیں۔
حضرت موسیٰؑ کی دعا بھی انھی خطوط پر تھی جب انھوں نے اپنے بھائی کی مدد کے ساتھ اﷲ کا پیغام آگے پہنچانے کی دعا مانگی، مفہوم:
’’مضبوط کر دے اس کے ساتھ قوت میری۔ ‘‘
دعائیں تو ہماری روز کی عبادت ہے۔ اس عبادت کو بہتر کیسے بنایا جائے۔ کیسے ان میں گہرائی لائی جائے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم جس موجودہ زمانے اور وقت میں رہ رہے ہیں، اس کا اثر ہمارے اوپر کتنا ہے اور کیا ہے، اس پر توجہ دیں۔ یاد رکھیں! ہم جو یہ سمجھنے لگے ہیں اور بڑے یقین سے سمجھنے لگے ہیں کہ ہر چیز پر ہمارا حق ہے یا ہم دنیا کی ہر چیز کے، ہر نعمت کے حق دار ہیں اس ذہنیت سے نکلنا بہت ضروری ہے۔ اس ذہنیت کے سحر سے نکلنے کے لیے سب سے پہلے تو درج ذیل کام کیے جاسکتے ہیں:
٭ ان لوگوں کی خدمت کرنا شروع کر دیں جو واقعی محروم ہیں۔ یہ سوچ، یہ عمل آپ کی آنکھیں کھول دے گا کہ محرومیت ہوتی کیا ہے؟ اور آپ کی دعائیں شروع ہی ہوں گی اﷲ کی حمد و ثناء سے، اس کے شُکر سے۔
٭ دنیا کی درد ناک حقیقت کو جاننے کی کوشش کیجیے، مثلاً ایک حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کثیر آبادی بجلی سے محروم ہیں، پچاس فی صد لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ جنگ و جدل ہے، محرومی اور ناانصافی ہے، بھوک و افلاس ہے، کبھی محسوس کریں ان لوگوں کی زندگی کیا ہوگی ؟ ان سچائیوں سے اپنے آپ کو باخبر رکھنا ہمیں احساس دلائے گا کہ اﷲ نے ہم پر تو بڑا کرم کیا ہُوا ہے۔ دنیاوی متاع و دولت کے ساتھ ہم اﷲ سے اس کی رضا کے طلب گار بن جائیں گے۔
ان تلخ اور بے رحم حقائق سے شناسائی ہمیں مجبور کرے گی کہ ہماری دعا ہماری چاہ اﷲ تعالی سے کیا ہونی چاہیے۔ ایک آسائشوں بھری زندگی کے بلبلے میں جب تک ہم رہیں گے ہمیں سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ دعا کی روح کس کو کہتے ہیں۔ اﷲ سے مانگا کیا جاتا ہے ؟
جب ہم اس خود فریبی کے جال سے نکلیں گے، جبھی ہماری دعائیں وہ دعائیں ہو جائیں گی جو ہمارے انبیائے کرامؑ، ہمارے رسولوںؑ اور ہمارے پیغمبروںؑ نے مانگیں۔ ہماری دعائیں وہ دعائیں ہو جائیں گی جو اﷲ عزوجل ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم مانگیں۔ جب ہم اس ’’ہر چیز پر میرا حق ہے۔‘‘ اور ’’مجھے یہ بھی چاہیے، وہ بھی چاہیے۔‘‘ کے جال سے نکلیں گے تو خود بہ خود ہمیں وہ نعمتیں نظر آنے لگیں گی جو پہلے ہی ہمارے پاس موجود ہیں اور وافر موجود ہیں اور انھیں ہمارے رب کریم نے بن مانگے ہی ہمیں عنایت فرمایا ہُوا ہے۔
یاد رکھیں! ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کے لیے کئی مواقعوں اور جگہوں پر جہاں وہ اﷲ سے وہ اپنے لیے دعا مانگ سکتے تھے جس کی قبولیت کا اﷲ آپ ﷺ سے وعدہ کیا، بدر، احد، خندق، طائف یہ تو چند مثالیں ہیں لیکن ہمارے نبی نے وہ دعا سنبھال کر رکھی اور کہتے رہے: امتی، امتی، امتی۔ اور ہم بہ طور امت کیا کر رہے ہیں ؟ کیا ہم اپنی دعاؤں کو بھی بہتر نہیں بنا سکتے۔ ہم تو اپنے کریم رب سے سے مایوس ہونے لگتے ہیں۔ ناامید ہو کر ان راستوں پر چل نکلتے ہیں جو حرام اور گناہ ہیں۔ کبھی سوچا ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ ہم سے کتنی محبت فرماتے تھے، ہر تکلیف اپنی امت کے لیے آپ ﷺ نے برداشت فرمائی۔ یہ انتہاء اپنی امت کی خیر خواہی کی کہ وہ دعا سنبھال کر رکھی۔ صعوبتیں، مشکلات اٹھاتے رہے لیکن دعا بچا کر رکھی کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ان کی امت کو روز قیامت اس دعا کی کتنی ضرورت ہوگی۔
اﷲ کے ساتھ رابطہ بنائیں، رابطہ اس طرح جس طرح اس کا حکم ہے۔ اس طرح نہیں جس طرح ہم چاہیں۔ حکم کیا ہے، مفہوم:
’’پکارو مجھے میں سنتا ہوں۔‘‘ (سورۃ البقرہ)
اور آیت کے آخر میں: ’’پس چاہیے کہ میرے احکامات پر عمل پیرا ہوں۔‘‘
اﷲ تو سمیع و بصیر ہے وہ تو ہر لمحہ سن رہا ہے، دیکھ رہا ہے لیکن کیا ہم سن رہے ہیں، جس طرح وہ حکم دے رہا ہے۔۔۔۔ ؟ اﷲ کے احکامات کو بالائے طاق رکھ کر دعا تو عبادت ہو ہی نہیں سکتی۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں وہ بصیرت عطا فرمائے کہ ہم دعا کی عبادت کی روح کو اس کی اصل حقیقت کو سمجھ سکیں۔ آمین