لاہور، برسات، روایات اور حاجی صاحب
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
لاہور کی مون سون کی بارشیں میرے دل میں ہمیشہ ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ یہ محض ایک موسم نہیں بلکہ زندگی کے ایک ایسے باب کی مانند ہیں جو خوشبو، جذبات اور یادوں سے لبریز ہے۔ اس تاریخی شہر کی قدیم مٹی پر گرنے والا ہر قطرہ مجھے اُن قیمتی صبحوں کی طرف لے جاتا ہے جو میں نے اپنے مرحوم والد چوہدری محمد اقبال صاحب کے ساتھ گزاریں جن کا نظم و ضبط اور شفقت میرے بچپن کے رہنما ستارے تھے۔
میرے والد ایک پختہ عادتوں والے انسان تھے۔ چاہے بارش ہو یا دھوپ، سرد ہوائیں ہوں یا خزاں کی سنہری رت، وہ فجر کی نماز کے فوراً بعد باغ جناح (جو پہلے لارنس گارڈن کہلاتا تھا) میں چہل قدمی کے لیے نکل جاتے۔
ہماری چہل قدمی کا آغاز باغ جناح کے ایک دلکش چکر سے ہوتا، جہاں بل کھاتے راستے عظیم الشان درختوں کے سایے میں لپٹے ہوتے اور اُن کے پتے صبح کی شبنم سے لرزاں دکھائی دیتے۔ جب میرے والد اپنی چہل قدمی مکمل کر لیتے، تو میں اکیلا مغل گارڈن کی طرف بڑھ جاتا۔ وہاں، ننگے پاؤں، میں بھیگی ہوئی گھاس پر آہستہ آہستہ قدم رکھتاجس کی ٹھنڈک نہ صرف جگانے والی ہوتی بلکہ ایک عجیب سا سکون بھی بخشتی۔ صبح کی روشنی سے لبریز وہ سبز قالین میرے لیے مطالعے کا کمرہ بن جاتا، ایک پناہ گاہ، جہاں میں آنے والے امتحانات کی تیاری کرتا، فطرت کی بے مثال خاموشی اور سکون میں ڈوبا ہوا۔
لارنس گارڈن درختوں کے ایک ایسے ذخیرے پر مشتمل ہے جن میں جامن کے درخت خاص طور پر نمایاں اور قیمتی شمار ہوتے۔ ایک صبح میرے والد، جنہیں لوگ محبت سے حاجی صاحب کہتے تھے، نے جامن بیچنے والوں پر ایک معنی خیز نظر ڈالی اور کہا’’یہ دعویٰ کرتےہیں کہ یہ باغ سے توڑے گئے تازہ جامن ہیں، لیکن چند درختوں سے روزانہ اتنی بڑی مقدار میں جامن توڑنا کیسے ممکن ہے؟‘‘ اُن کا یہ سوال میرے ذہن میں گھر کر گیا۔ اگلے روز ہم معمول سے کچھ پہلے باغ پہنچے اور ایک بیوپاری کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیاجو بازار سے خریدے گئے جامن کے کریٹ اتار رہا تھا۔ اس منظر نے سحر کو تو توڑ دیا، لیکن ہمیں بے حد مسرت بھی دی۔ ہم دونوں خوب ہنسے، اس نفسیاتی تاثر پر جو صرف اس خیال سے پیدا ہوا تھا کہ یہ جامن باغ ہی سے توڑے گئے ہیں، اور اسی وجہ سے زیادہ مزیدار لگتے تھے۔
وہ دن موسمی کھانوں کی دلکش سادگی سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ برسات کی صبح پوری، حلوہ، میٹھا پورا، قیمے والا پورا اور لسی کا ناشتہ اپنی مثال آپ ہوتا۔ ایسا ناشتہ کرنے کے بعد لمبی نیند سونا ایک نعمت محسوس ہوتا۔ لاہور کی مون سون کی برساتیں قیمے والے نان یا تندور کی تازی گرم روٹیوں کی خوشبو، دہی کی چٹنی کا ذائقہ، آموں کی مٹھاس اور لسی کی ٹھنڈک کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھیں۔ بعض اوقات ہم یہ لوازمات ساتھ لے کر باغ جناح، کامران کی بارہ دری، شاہی قلعہ، مقبرہ جہانگیر یا بادشاہی مسجد جایا کرتے، جہاں دوست احباب اور رشتہ دار ابرآلود آسمانوں کے نیچے جمع ہوتے، ہنسی، قصے اور کھانے بانٹے جاتے، بارش سے دھلے درختوں اور گنبدوں کے سائے تلے۔
بارشوں کے موسم میں بچپن کے روایتی کھیلوں کو کیسےبھلایاجاسکتا ہے؟ تنگ محلّوں اور کشادہ صحنوں میں بچے ننگے پاؤں بارش میں بھیگی گلیوں میں کھیلتے۔ کاغذ کی چھوٹی چھوٹی کشتیاں بارش کے پانی کی روانی میں تیرتی جاتیں، اور ہر بچہ اپنی ننھی کشتی کے لئے خوشی سے نعرے لگاتا، گویا وہ مون سون کے پانیوں کی کوئی بہادر سپاہی ہو۔ بچیاں اور بزرگ خواتین ٹین کی چھتوں کے نیچے بچھی ہوئی چارپائیوں پر بیٹھ کر الائچی والی چائے کی چسکیاں لیتیں اور اپنے بچپن کی برساتوں کی یادیں تازہ کرتیں، اکثر ہاتھوں میں مٹر چھیلتے یا کچّے آم کا اچار بنانے کے لیے انہیں کاٹتے ہوئے۔
بارش شہر میں ایک خاص مزاج لے کر آتی،گلیوں میں بلند آوازوں میں آوازیں لگاتے ہوئے ریڑھی والے، جو نمک اور لیموں سے بھرپور بھنے ہوئے بھٹے بیچتے؛ بڑے کڑاہیوں میں تلتے ہوئے پکوڑوں کی آوازیں،جو عارضی ترپالوں کےنیچے قائم ٹھیلوں سےنکلتی تھیں،آلو کے سموسوں کی تیز خوشبو جو زمین سے اٹھنے والی سوندھی مٹی کی مہک میں گھل جاتی تھی۔ یہ صرف کھانےنہیں تھے بلکہ موسمِ برسات کی وہ روایتی رسومات تھیں جو تمام حواس کو بیدار کر دیتی تھیں اور لاہور کی برسات کی اصل پہچان بن جاتی تھیں۔
ہم زندگی کی الجھنوں میں ایسے الجھ چکے ہیں کہ ان حسی تجربات کو بھلا بیٹھے ہیں۔ گیلی مٹی کی خوشبو، موسمی پھلوں کا ذائقہ، شبنم سے بھیگی گھاس پر ننگے پاؤں چلنے کا احساس اور ہلکی بارش کے ساتھ چہچہاتے پرندوں کی آوازیں،یہ سب وہ تجربات ہیں جو کبھی ہماری روح کو سیراب کیاکرتےتھے مگر اب مصروف شیڈولوں اور اسکرینوں کے پیچھے دفن ہو چکے ہیں۔
ان لمحوں میں ایک پاکیزگی تھی، ایک تقدس تھا ان رفاقتوں میں۔ لیکن وقت اپنے بے رحم تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔ وہ پیارے چہرے اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ شہر نے شاید کنکریٹ اور تجارت میں ترقی کر لی ہو، لیکن دل اُن چیزوں کو ترس رہا ہے جو واپس نہیں آ سکتیں وہ لوگ، وہ معصومیت، وہ خاموش رشتے جو بادلوں سے ڈھکے آسمان کے نیچے خاموشی سے بندھے ہوتے تھے۔
کچھ یادیں ویسی ہی ہوتی ہیں جیسے گرمیوں کی پہلی بارش کے بعد اٹھنے والی مٹی کی خوشبو،ہمیشہ کے لیے دل میں بس جاتی ہیں۔ یہ صرف یادیں نہیں ہوتیں بلکہ زندگی کے وہ خزانے ہوتے ہیں جو کبھی مٹتے نہیں۔ آج کی اس تیز رفتار اور منتشر دنیا میں یہ ہمیں اُس زمانے سے جوڑتی ہیں جو مکمل اورخوبصورت تھااور اگرچہ موسم بدل جاتے ہیں، اور وقت وہ چہرے ہم سے چھین لیتا ہے جن سے ہم محبت کرتے ہیں لیکن لاہور کی بارشیں ہمیشہ مجھے میرے والد کےخاموش قدموں کی یاددلاتی رہیں گی، ان جامنوں سے لبریز ہنسیوں کی، شبنم سےبھیگی باغیچوں میں ننگے پاؤں چلنے کی، اور اُس لاہور کی،جو کبھی اپنی بارشوں میں محبت کی سرگوشیاں کیا کرتا تھا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ننگے پاؤں میرے والد لاہور کی ہیں جو
پڑھیں:
سیلاب ،بارش اور سیاست
رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔۔
ّ آج کل
کسی بھی ملک میں مہنگائی، بے روزگاری ، غربت ،جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی میںاضافہ ہورہا ہو تو اس کی اہم ترین وجہ ناقص حکمرانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ماہر معیشت حفیظ پاشا نے پاکستان کے اسی قسم کے مسائل کی نشاندہی کی ہے موجودہ وقت میں کوئی بھی ذی شعور شخص حکومت کے ترقی اور استحکام کے دعوؤں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سیلاب نے مسائل کی شدّت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکومت کے قریبی تصور کیے جانے والے مبصر نجم سیٹھی کا بھی یہ کہنا ہے کہ ” موجودہ حکمرانوں کے خلاف عوام میں غصّہ اور نفرت کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے ”۔ ملک میں قدرتی آفت ہو یابیرونی جارحیت ہو اس صورت حال کا مقابلہ حکومت اور عوام مل کر کرتے ہیں۔ عوام کا اعتماد حکومت کو حاصل نہ ہو تو متاثرہ لوگوں کی بحالی میں رکاوٹ ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں موجودہ سیلاب کی تباہ کاری میں عوام کو متحرک کرکے امدادی کام کرنے والی تنظیموں کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات سامنے آرہے ہیں۔ یہاں تک کہ امدادی کاموں میں بھی مبینہ بدعنوانی کا تذکرہ تک کیا جارہاہے۔
معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہو تو بدعنوانی نچلی سطح تک جا پہنچتی ہے۔ مختلف فلاحی اور سیاسی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب میں انتظامیہ دبائو ڈال رہی ہے کہ ہر امدادی سامان کی تھیلی پر پنجاب کی وزیر اعلیٰ کی تصویر لگائی جائے جس کی وجہ سے بعض مقامات پر مختلف تنظیمیں اور افراد امدادی کاموں میں حصّہ لیے بغیر واپس چلے گئے۔ اس قسم کی اطلاعات سے امدادی کاموں کے لیے رضا کارانہ کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ عوام بھی بد دل ہوجاتے ہیں اور متاثرین کی محرومیوں اور پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ سیلاب میں سینکڑوں قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ لوگوں کے گھر ختم ہوگئے ۔فصلیں اور کاروبار تباہ ہوگئے۔ مویشی سیلاب میں بہہ گئے ۔دوسری تباہی اس سیاست کی وجہ سے ہے جس میں سیاسی اور فلاحی تنظیموں کو امداد سے روکا جا رہا ہے۔ ایک مقبول اور عوام کے اعتماد کی حامل حکومت آسانی سے قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو متحرک کر سکتی ہے لیکن ایسی حکومت جسے عوام کا اعتما د حاصل نہ ہو ،وہ عوام کو متحرک نہیں کرسکتی اور اگر ایسی کوئی حکومت فلاحی اور مدادی کاموں میں رکاوٹ بنے اور محض نمائشی اقدامات اور نام و نمود کی جانب توجہ دے تو ایک جانب سیلاب سے آنے والی تباہی کا نقصان ہوگا اور دوسرا اس قسم کی منفی سیاست کا نقصان ہوگا۔
موجودہ دور میں پاکستان کے مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بد نظمی اور ناقص حکمرانی ہے۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اپنی خراب کارکردگی کی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ملک میں جاری موجودہ نظام کی خامیوں کو دور کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔ مقتدر اشرافیہ اپنے وقتی اور فوری مفادات کے حصول کو ترجیح دیتی ہے۔ دولت اور عہدے کے حصول اوراس کو برقرار رکھنا اس میں اضافہ کرنا ہی اس کی کوششوں کا مرکز ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ تما م قوانین اور ضوابط کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔اگر کوئی رکاوٹ ہو تو قوانین بھی بدل دیتے ہیں۔ اس سے ملک میں مزید افراتفری اور عدم استحکام پیداہوتا ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور ہوجاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک نے موسمیاتی تبدیلی اورماحولیات سے پیدا ہونے کے لیے بیس سال پہلے سے سنجیدگی سے کام کر نا شروع کر دیا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جس سے نمٹنے کے لیے مستحکم ،منظم اور موثر کارکردگی کے حامل اداروں کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے کسی بھی ملک کا کوئی ادارہ ،تنظیم اور کاروبار قواعد اور ضوابط کے بغیر کام نہیں کرسکتا ۔فرض کریں کے پولیس کی بھرتی کے قواعدکی خلاف ورزی کی جائے معذور اور متعدی امراض کے شکار مریضوں کوبھرتی کیا جائے ۔ہر امتحان میں ناکام ہونے کے باوجود سفارشی شخص کو افسر بھرتی کر لیا جائے یاعمر کی کوئی قید نہ رہے تو ایسی صورت میں پولیس کا ادارہ بدترین تباہی کا شکار ہوگا،جس ادارے میں جتنا زیادہ نظم و ضبط ہوگا قواعدو ضوابط کی پابند ی ہوگی، وہ ادارہ اتنا ہی زیادہ موثر ہوگا۔ معاشرے اور ملک میں نظم و ضبط قائم رکھنے کی بنیاد آئین اور دیگر قوانین ہیں جس کی وجہ سے ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ امریکا ،برطانیہ،کنیڈا،فرانس ،جرمنی اور دیگر جمہوری ملکوںکی ترقی اور خوشحالی میں آزادی اظہار، انسانی حقوق پر اور آئین اور قانون کی بالادستی کا بنیادی کردار ہے، دس لاکھ افراد بھی جمع ہوکر مظاہرہ کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کام کرتی رہتی ہے۔ حکومت اس وقت تک کام کرتی ہے جب تک حکومت کو عوام کامینڈیٹ حاصل رہتا ہے۔ اگر ان جمہوری ممالک میں دھاندلی کے ذریعے غیر نمائندہ حکومت قائم ہوجائے ،آزادی اظہار پر پابندی لگ جائے اور انسانی حقوق ختم کردیے جائیں تو یہ ترقّی یا فتہ ممالک زوال کا شکار ہوجائیں ۔معیشت منجمد ہوجائے گی۔ افراتفری کے نتیجے میں تباہی کا شکار ہوجائیں گے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کی وجہ یہی اخلاقی زوال ہے۔
پاکستان کے تقریباًتما م مبصرین اس بات کو کسی نہ کسی انداز میں تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ سیاسی ڈھانچہ ووٹوں کی چوری کے ذریعے کھڑا گیا ہے۔ امریکی جریدے نے دولت مشترقہ کے ان مبصرین کی رپورٹ بھی شائع کردی ہے جو پاکستان کے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے آئے تھے لیکن ان کی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی۔ جریدے نے تحریر کیا ہے کہ اس رپورٹ میں فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔اس رپورٹ نے حکومت کی ساکھ کو ایک اور بڑانقصان پہنچایا ہے۔ حکومت نے تحریک انصاف کو مسئلہ تصور کر رکھا ہے جبکہ اصل مسائل مہنگائی،بدعنوانی،بے روزگاری ،غربت،جرائم اور ناانصافی کے علاوہ ایک ایسی حکومت کوگھسیٹنے کی کوشش ہے جس پر عوام کا اعتماد نہیں بلکہ حکمراں جماعتوںکی ساکھ کامسلسل خاتمہ ہے۔ ترقی کرنے والے ممالک چاہے جمہوری ہوں یا کسی اور نظام پر مشتمل ہو، اخلاقیات اور عوام کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ جاپان پر اگست1945 میں جو ایٹمی حملہ ہوا تھا ،ایسی تباہی دنیا نے کبھی نہیں دیکھی لیکن جاپان نے عوام کی مدد سے اپنے اداروں کی شفافیت اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دے کر حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چین کی ترقی کی وجہ بھی ا یک ا یسی عوامی تحریک تھی جس نے نچلی سطح تک ایک جماعت کو منظم کیا اور سیاسی استحکام کو فروغ دیا ۔بدعنوانی اور غربت کاخاتمہ کیاحیران کن حد تک چھوٹی بڑی صنعتوں کاوسیع جال بچھایا ۔زراعت کو فروغ دیا ۔دفاع پر بھی بھر پو ر توجہ دی۔ امریکا کی ترقی میں بھی وہاں کا مستحکم سیاسی نظام اور عوام کو دی جانے والی آزادی اور سیاسی عمل میں ان کی شراکت نے کردار اداکیاہے۔ پاکستان انصاف پر مبنی،بد عنوانی سے پاک سیاسی ڈھانچہ ضروری ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہو۔ سیاسی استحکام کی بنیاد اسی طرح ممکن ہے ۔حکمراں جماعتیں عوامی حمایت کی محرومی کے باعث سیاسی استحکام قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہورہی ہیں یا ہوچکی ہیں۔غیر جانبدارانہ ، منصفانہ انتخابات ہو ں تو عوام کی امنگوں ،خواہشات اور جذبات کی صحیح اور سچائی پر مبنی عکاسی ہوگی ،ورنہ ہم اسی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے مزید اخلاقی پستی اور عدم استحکام کے دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے ۔شاید ہم سچ کا سامنا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔
٭٭٭