فقیروں کی طرح پیسے مانگنے پڑتے ہیں، سینئر اداکار محمد احمد نے پروڈکشن ہاؤسز کی پول کھول دی
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
پاکستان شوبز کے سینئر اداکار سید محمد احمد نے شوبز انڈسٹری میں معاوضوں کی تاخیر سے ادائیگیوں کا انکشاف کردیا۔
اداکار محمد احمد نے سوشل میڈیا پر ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں انہوں نے پروڈکشن ہاؤسز کے معاوضوں سے متعلق پول کھول دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پروڈکشن ہاؤس ہر پراجیکٹ میں کوشش کرتے ہیں کہ اداکار ان سے فقیر کی طرح پیسے مانگے۔
سینئر اداکار کا کہنا تھا کہ پہلے معاوضوں پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے اب بھی سمجھا جاتا ہے تاہم اب فنکار اس کیخلاف آواز اُٹھانے لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پروکشن ہاؤسز فنکاروں سے 9 کے بجائے رات 1 بجے تک کام کرواتے ہیں اور فنکاروں کو نہ چاہتے ہوئے بھی کام کرنا پڑتا ہے مگر جب بات معاوضوں کی ادائیگی کی آتی ہے تو 5 سے 6 ماہ کی تاخیر عام بات ہوگئی ہے۔
View this post on InstagramA post shared by Niche Lifestyle (@nichelifestyle)
انہوں نے کہا کہ کئی مہینوں تک معاوضوں کی ادائیگی میں تاخیر کے بعد بھی اداکاروں کو اپنے حالات بتا کر فقیروں کی طرح ان سے پیسے مانگنے پڑتے ہیں جب جا کر چیک ملتا ہے اور وہ بھی احسان سمجھ کر تھمایا جاتا ہے۔
سید محمد احمد کا کہنا تھا کہ ہماری انڈسٹری میں اب معاوضوں سے متعلق مسائل سنگین صورتحال اختیار کر گئے ہیں اور اب وقت کی سب سے بڑی ضرورت پیسہ ہے جس کیلئے آواز اُٹھانا ضروری ہوگیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
شبیر احمد شاہ کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرنے پر این آئی اے کی مذمت
ڈی ایف پی ترجمان نے تمام کشمیری سیاسی قیدیوں کو مقبوضہ علاقے کی جیلوں میں منتقل کرنے کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت کو قیدیوں کے بنیادی حق کا احترام کرنا چاہیے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کی اکائی ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی نے غیر قانونی طور پر نظربند پارٹی سربراہ شبیر احمد شاہ کی بگڑتی ہوئی صحت کے باوجود درخواست ضمانت کی مخالفت کرنے پر بھارتی تحقیقاتی ادارے ”این آئی اے” کی شدید مذمت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈی ایف پی کے ترجمان ایڈووکیٹ ارشد اقبال نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں شبیر احمد شاہ کے خلاف این آئی اے کے مقدمے کو بے بنیاد اور سیاسی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ این آئی اے عدالت میں کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہنے کے بعد اب شبیر شاہ کی غیر قانونی نظربندی کو طول دینے کے لیے تاخیری ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ایڈووکیٹ اقبال نے شبیر احمد شاہ کی بگرتی ہوئی صحت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی عدلیہ انصاف کی فراہمی کے بجائے سیاسی دبائو کے تحت کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شبیر احمد شاہ 1968ء سے جھوٹے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں اور دہلی کی تہاڑ جیل میں آٹھ سال گزرنے کے بعد بھی کوئی عدالت ان کے خلاف الزامات کو ثابت نہیں کر سکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری سیاسی قیدیوں کو غیر قانونی طور پر نظربند رکھنے کے لیے جان بوجھ کر ضمانت سے انکار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شبیر احمد شاہ اور دیگر حریت رہنمائوں کو صرف ان کی پرامن سیاسی جدوجہد اور کشمیری عوام کے لئے حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے پر سزا دی جا رہی ہے۔ ایڈوکیٹ اقبال نے عدالت میں حقائق کو مسخ کرنے پر بھارتی سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شبیر احمد شاہ نے اپنے سیاسی نظریے کی وجہ سے آدھی سے زیادہ زندگی سلاخوں کے پیچھے گزاری ہے۔
انہوں نے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں پر زور دیا کہ وہ شبیر شاہ کی بگڑتی ہوئی صحت کا فوری نوٹس لیں جو کئی دائمی عارضوں میں مبتلا ہیں۔ انہیں خصوصی طبی امداد کی ضرورت ہے جو جیل میں دستیاب نہیں ہے۔ ڈی ایف پی ترجمان نے تمام کشمیری سیاسی قیدیوں کو مقبوضہ علاقے کی جیلوں میں منتقل کرنے کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت کو قیدیوں کے بنیادی حق کا احترام کرنا چاہیے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان کے مناسب علاج کو یقینی بنانا چاہیے۔