صحافیوں سے اپنی ایک گفتگو میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جب ہمیں اطمینان ہو جائے گا کہ مذاکرات کے ذریعے ایرانی عوام کے حقوق اور ملک کے اعلیٰ مفادات کا تحفظ ہوگا تو ہم اس عمل میں شرکت سے نہیں ہچکچائیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے آج تہران میں مقیم بیرونی ممالک کے سفیروں اور نمائندوں کے ساتھ ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے یورپی ممالک کی جانب سے دباو کی پالیسی کے استعمال جیسی دھمکیوں کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ یورپ نے گزشتہ کئی مہینوں، خاص طور پر حالیہ دنوں میں بارہا "اسنیپ بیک" کے استعمال اور قرارداد 2231 کو منسوخ کرتے ہوئے کونسل کی گزشتہ قراردادوں کو بحال کرنے کی بات کی۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ یہ عمل یورپ کی جانب سے کی جانے والی سب سے بڑی غلطیوں میں سے ہو گا۔ امریکہ نے بھی غالباََ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے وقت یہی غلطی کی تھی۔ جس نے جوہری معاملے کو پہلے سے کہیں زیادہ مشکل و پیچیدہ بناتے ہوئے اس کے حل کو مزید مشکل بنا دیا۔اسنیپ بیک کا بھی یہی کردار ہو گا جو معاملے کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا دے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایران کے جوہری معاملے کا نہ تو کوئی فوجی حل ہے اور نہ ہی اس مسئلے کو سلامتی کونسل میں لے جانے سے کوئی پیشرفت ہو گی۔ یہ مسئلہ صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے اور مذاکرات بھی ایسے کہ جن میں ایرانی عوام کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ 

یہ مفادات خاص طور پر ایران کے جوہری حقوق اور یورینیم کی افزودگی کے استحقاق پر مشتمل ہیں جو کہ بحث کا بنیادی  نکتہ بھی ہیں۔ باقی فوجی کارروائی کے ذریعے یہ ٹیکنالوجی، علم اور حق، ایران سے نہیں چھینا جا سکتا۔ وزیر خارجہ سے ایران کی مذاکرات میں واپسی کے لیے مطلوبہ یقین دہانی و ضمانت سمیت مخالف فریق سے کسی اشارے کے ملنے کے بارے میں پوچھا گیا۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات ہی کر رہے تھے کہ اس دوران فوجی مہم جوئی شروع کر دی گئی۔ یہ ایک دھوکہ تھا جو امریکیوں نے نہ صرف ہمیں بلکہ ڈپلومیسی کو بھی دیا۔ اگر وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، جس کے لئے ہمیں متعدد پیغامات بھی موصول ہوئے ہیں تو فطری بات ہے کہ ہمیں یقین دلایا جائے کہ دوبارہ ایسا رویہ نہیں دُہرایا جائے گا اور اگر مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوتی تو فوجی آپشن زیر غور نہیں ہو گا۔ سید عباس عراقچی نے کہا کہ بین الاقوامی تعلقات میں ضمانت جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی اور میں ضمانت کی بات نہیں کر رہا۔ تاہم ہمیں یقین دلایا جائے کہ اس بار ایسا نہیں ہوگا۔ البتہ ہمیں کچھ یقین دہانیاں کروائی گئی ہیں جن پر غور کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہمیں اطمینان ہو جائے گا کہ مذاکرات کے ذریعے ایرانی عوام کے حقوق اور ملک کے اعلیٰ مفادات کا تحفظ ہوگا تو ہم اس عمل میں شرکت سے نہیں ہچکچائیں گے۔

قریب یا بعید کے امکان کو مدنظر رکھتے ہوئے مذاکرات کے وقت کے بارے میں سید عباس عراقچی نے کہا کہ ہم وقت، مقام، شکل، انتظامات اور ضروری یقین دہانیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہمیں بے نتیجہ مذاکرات میں داخل ہونے کی کوئی جلدی نہیں، لیکن ساتھ ہی ہم ایرانی عوام کے مفادات اور حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ ہم پوری احتیاط سے حالات کی تمام پہلوؤں سے جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔ ہم ایران کی عوام کے مفاد کو دیکھ کر کوئی فیصلہ کریں گے۔ سفارت کاری کا دروازہ کبھی بھی بند نہیں ہو سکتا۔ ہم نے ناقابل فراموش مزاحمت کے ساتھ فیصلہ کُن جنگ لڑی، جس میں بلاشبہ اسلامی جمہوریہ ایران اور ہماری عوام کی فتح ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ فاتح کبھی مذاکرات سے نہیں گھبراتا اور جنگ میں کامیابی کے بعد مذاکرات کا سب سے بہترین موقع ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سید عباس عراقچی انہوں نے کہا کہ ایرانی عوام کے مذاکرات میں مذاکرات کے کے ذریعے نہیں ہو سے نہیں

پڑھیں:

ایران امریکا سے مشروط مذاکرات پر آمادہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تہران/ دبئی(مانیٹرنگ ڈیسک) ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکا سے دوبارہ مذاکرات کے لیے مشروط آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ فرانسیسی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں عباس عراقچی نے کہا کہ ہم امریکا کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر مذاکرات شروع کرنے کے لیے آمادہ ہیں تاہم امریکا کو مذاکرات کے دوران ایران پر حملے نہ کرنے کی ضمانت دینا ہوگی اور امریکا غلطیوں کا ازالہ کرے تو مذاکرات دوبارہ شروع ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے ہی مذاکرات توڑ کر کارروائی کا آغاز کیا، اس لیے اب ضروری ہے کہ امریکا اپنی غلطیوں کی ذمہ داری قبول کرے، امریکا کے حالیہ حملوں سے ایران کی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے، ایران کو جوہری تنصیبات پر نقصان کے تخمینے کے بعد معاوضہ طلب کرنے کا حق حاصل ہے۔ ایرانی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ یہ سمجھنا کہ ایران کو پر امن جوہری منصوبہ ترک کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے درحقیقت یہ ایک سنگین غلط فہمی ہے، ایرانی جوہری پروگرام ایسا قومی سرمایہ ہے جسے آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ عباس عراقچی نے مزید کہا کہ سفارت کاری دو طرفہ معاملہ ہے اور دوست ممالک یا ثالثوں کے ذریعے ایک سفارتی ہاٹ لائن قائم کی جا رہی ہے۔ ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے (آئی اے ای اے) پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ادارہ اپنے”دہرے معیار” کو ختم نہیں کرتا تو ایران اس کے ساتھ جوہری تعاون دوبارہ شروع نہیں کرے گا۔ ایرانی صدر کے یہ ریمارکس یورپی کونسل کے صدر انٹونیو کوسٹا سے فون پر گفتگو کے دوران سامنے آئے، جس کی تفصیلات ایرانی سرکاری میڈیا نے جاری کیں۔صدر پزشکیان نے واضح کیا کہ ایران کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کی کسی بھی کوشش کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ صدر ایران نے کہا کہ اگر ایران پر دوبارہ حملہ ہوا تو اس کا جواب مزید سخت اور قابلِ افسوس ہوگا‘ آئی اے ای اے کی غیرجانب داری پر سوالیہ نشان ہے اور رپورٹنگ میں امتیازی رویے نے ادارے کی ساکھ کو مشکوک بنا دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • خیبرپختونخوا میں تبدیلی ترجیح ہے لیکن بوٹوں کے حضور بیٹھ کر حکومت نہیں مانگیں گے، فضل الرحمان
  • ایران کی جوہری مذاکرات میں واپسی امریکا کے دوبارہ حملہ نہ کرنے سے مشروط
  • قطر میں امریکی اڈوں پر حملہ معمولی واقعہ نہیں تھا: آیت اللّٰہ علی خامنہ ای
  • ایران امریکا سے مشروط مذاکرات پر آمادہ
  • امریکا ایران مذاکرات تعطل کا شکار، عباس عراقچی نے رویہ بدلنے کی شرط رکھ دی
  • سلیکشن پر کامران اکمل کی کڑی تنقید، کپتانی کے فیصلوں کو غیر سنجیدہ قرار دے دیا
  • ہم ہمیشہ مظلوموں کیساتھ ہیں چاہے وہ بوسنیا میں ہوں یا فلسطین میں، سید عباس عراقچی
  • وقت ختم ، اب کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے،عمران خان
  • سعودی ولی عہد سے ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی کی ملاقات