ابراہیمی معاہدہ صیہونی حکومت کی بیعت ہے ، غیرت مند پاکستانی قبول نہیں کریں گے، احسن عباس
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
اپنے بیان میں ایم ڈبلیو ایم ضلع ملیر نے کہا کہ اگر کسی حکمران نے غلطی سے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا سوچا یا ڈونلڈ ٹرمپ ابراہیم اکارڈ منصونے کا حصہ بننے کی کوشش کی تو یہ غیرت مند قوم بلاتفریق رنگ و نسل مذہب ومسلک ان مذموم عزائم کے مقابل آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوجائے گی اور پھر امریکہ اور اسرائیل کےغلام حکمرانوں کو کوئی جائے پناہ نہیں ملے گی۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین ضلع ملیر کے صدرسید احسن عباس رضوی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایران اور حماس کے ہاتھوں بدترین اور ذلت آمیز شکست سے امریکہ اور اسرائیل کے تمام منصوبے خاک میں مل گئے ہیں، شہدائے راہ قدس نے عظیم قربانیوں کے نتیجے میں انقلاب و مقاومت اسلامی کو نئی جلا بخشی ہے، سوراخ شدہ امریکی اور اسرائیلی کشی سمندر برد ہونے کے قریب ہے، چند ناعاقبت اندیش سیاستدان، بیوروکریٹ اور صحافی اس ڈوبتی کشتی میں سواری کے خواہش مند ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں ڈیڑھ برس کے دوران ساٹھ ہزار سے زائد معصوم بچے، بزرگ، خواتین اور مرد بے دردی سے قتل کئے گئے پورے عالم بشریت کا ضمیر اس انسانیت سوز ظلم پر بیدار ہوگیا لیکن افسوس انگشت شمار ضمیر فروش صحافی، سیاستدان، حکمران اور جرنیل اب بھی ان مظلوم مسلمانوں کےخون کا سودا کرنے میں مصروف ہیں، مسلسل ذرخرید میڈیا چینلز پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جھوٹی اور من گھڑت تاویلیں پیش کی جارہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاک افواج کے ہاتھوں بھارت کی ذلت آمیز شکست اور ایران کے ہاتھوں امریکہ اور اسرائیل کی تباہ کن شکست کے بعد پوری مسلم امہ اور تمام مذاہب کے بیدارعوام عالمی استعمار کے مقابل متحد اور متفق ہیں، اس جنگ کے بعد فرقہ واریت کا جن بھی بوتل میں بند ہوچکا ہے لیکن شیطانی قوتیں ایک بار پھر وطن عزیز میں آگ اور خون کی تماشہ لگانا چاہتی ہیں۔ احسن عباس نے آخر میں کہا ہے کہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کی غالب اکثریت اسرائیل کو فرعون، نمرود، شداد و یزید کے بعد سے زیادہ قابل نفرت سمجھتے ہیں، اگر کسی حکمران نے غلطی سے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا سوچا یا ڈونلڈ ٹرمپ ابراہیم اکارڈ منصونے کا حصہ بننے کی کوشش کی تو یہ غیرت مند قوم بلاتفریق رنگ و نسل مذہب ومسلک ان مذموم عزائم کے مقابل آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوجائے گی اور پھر امریکہ اور اسرائیل کےغلام حکمرانوں کو کوئی جائے پناہ نہیں ملے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امریکہ اور اسرائیل اسرائیل کے
پڑھیں:
امریکہ: پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا بل متعارف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) ایک اہم پیش رفت میں امریکی قانون سازوں نے "پاکستان فریڈم اینڈ احتساب ایکٹ" کے نام سے ایک بل کو ایوان میں متعارف کرایا ہے، جس کا مقصد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کے ذمہ دار پاکستانی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کرنا ہے۔
اس بل کی حمایت ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کے قانون ساز مشترکہ طور پر کر رہے ہیں، جس کا اعلان ایوان کی ذیلی کمیٹی برائے جنوبی اور وسطی ایشیا کے چیئرمین اور مشی گن سے ریپبلکن پارٹی کے قانون ساز بل ہیزینگا اور کیلی فورنیا سے ڈیموکریٹ رہنما سڈنی کاملاگر-ڈوو نے مشترکہ پر کیا ہے۔
ایوان کے کئی دیگر نمائندوں نے بھی اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔(جاری ہے)
فریڈم اینڈ اکاؤنٹیبلٹی بل گلوبل میگنیٹسکی ہیومن رائٹس احتساب ایکٹ کے تحت امریکی صدر کو پابندیاں لگانے کا اختیار دیتا ہے۔ اس کے تحت واشنگٹن انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں یا بدعنوانی کے ذمہ دار افراد کو نشانہ بنانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس صورت میں اس بل کا اطلاق پاکستان کی حکومت، فوج یا سکیورٹی فورسز کے موجودہ اور سابق اعلیٰ عہدیداروں پر ہو گا۔
یہ قانون پاکستان میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے امریکی حمایت کی بھی تصدیق کرتا ہے اور جمہوری اداروں اور انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے۔
اس سے قبل جون 2024 میں انہیں امور کے حوالے سے ایوان نے ایک قرارداد 901 بھی منظور کی تھی، جس میں اس وقت کے صدر جو بائیڈن پر زور دیا گیا تھا کہ وہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالیں۔
تاہم بائیڈن انتظامیہ نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اور اب اس سلسلے میں یہ بل متعارف کروایا گیا ہے۔اس قرارداد میں پاکستان میں جمہوریت کی مضبوط حمایت کا اظہار کیا گیا تھا اور امریکی انتظامیہ پر زور دیا گیا کہ وہ انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور آزادی اظہار کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستانی حکومت کے ساتھ تعاون کرے۔
بل میں کیا ہے؟نئی قانون سازی پر بات کرتے ہوئے کانگریس کے نمائندے ہوزینگا نے کہا، "امریکہ خاموش نہیں بیٹھے گا، کیونکہ ایسے افراد جو اس وقت پاکستان کی حکومت، فوج، یا سکیورٹی فورسز میں خدمات انجام دے رہے ہیں یا پہلے خدمات انجام دے چکے ہیں، وہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتے ہیں یا اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "پاکستان فریڈم اینڈ احتساب ایکٹ پاکستان کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ برے عناصر کو جوابدہ ٹھہرایا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پاکستان میں نہ تو جمہوری عمل اور نہ ہی آزادی اظہار کو ختم کیا جائے گا۔"
کملاگر ڈوو نے زور دیا کہ "جمہوریت کو فروغ دینا اور انسانی حقوق کا تحفظ امریکی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول ہیں اور امریکی انتظامیہ کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت میں اس پہلو کو مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "جمہوری پسماندگی اور عالمی بدامنی کے وقت، امریکہ کو اندرون اور بیرون ملک ان اقدار کا دفاع کرنا چاہیے، اور ان کو نقصان پہنچانے والوں کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ مجھے پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو خطرے میں ڈالنے والوں کو سزا دینے کے لیے قانون سازی متعارف کرانے میں چیئر ہوزینگا کے ساتھ شامل ہونے پر فخر ہے۔
"ٹیکساس سے ڈیموکریٹ رہنما جولی جانسن نے مزید کہا، "آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو نقصان پہنچانے یا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب اہلکاروں کو جوابدہ ٹھہرا کر، ہم ایک مضبوط پیغام دیتے ہیں: جمہوریت پر حملہ کرنے والوں کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ عالمی سطح پر معافی نہیں پائیں گے۔"
پاکستانی امریکن کا اس بل میں اہم کردارامریکہ میں مقیم پاکستانی پبلک افیئرز کمیٹی کے سابق صدر اسد ملک کا کہنا ہے کہ "یہ قانون سازی پاکستانی عوام کو بااختیار بناتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوریت کی خلاف ورزی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے گا اور انہیں مناسب نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
"فرسٹ پاکستان گلوبل کے ڈاکٹر ملک عثمان نے تارکین وطن کی کاوشوں کے وسیع تر اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، "یہ پاکستانی تارکین وطن کی کانگریس میں انتھک وکالت اور ہماری کمیونٹیز میں نچلی سطح پر متحرک ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ تاریخی بل حقیقی آزادی اور پاکستانی جمہوریت کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کے ساتھ، حقوق کی آزادی کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔"
بل کو ایوان کی خارجہ امور اور عدلیہ کی دونوں کمیٹیوں کو نظرثانی کے لیے بھیجا گیا ہے۔