اسلام ٹائمز: تل ابیب عرصہ دراز سے مغربی ایشیا خطے میں نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہے تاکہ اس طرح عالمی برادری میں اپنی شدید گوشہ نشینی کا ازالہ کر سکے اور خود کو درپیش خطرات کم کر سکے۔ اسرائیل واضح طور پر عرب حکومتوں سے تعلقات معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کے بڑے شہروں میں ایسے بینر دکھائی دیتے ہیں جن میں نیتن یاہو اور ٹرمپ کے ساتھ مغربی ایشیائی ممالک شام، لبنان، فلسطین، مصر، اردن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور عمان کے سربراہان کی تصاویر نظر آتی ہیں۔ ایسے ہی ایک بینر میں دعوی کیا گیا ہے کہ "نئے مشرق وسطی کی تشکیل کا وقت آن پہنچا ہے!"۔ اسی طرح ایک اور بینر پر لکھا ہے "ایک وقت جنگ کا تھا، ایک وقت مفاہمت کا اور اب ابراہیم معاہدے کا وقت ہے"۔ تحریر: علی حریت
شام کے نام نہاد صدر ابومحمد الجولانی نے پیر 7 جولائی کے دن متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی کا دورہ کیا اور اس ملک کے صدر شیخ محمد بن زاید سے ملاقات کی۔ لیکن قصہ صرف یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ اسی وقت غاصب صیہونی رژیم کی قومی سلامتی کونسل کا سربراہ صخی ہینگبی بھی وہاں موجود تھا۔ شامات علاقے کا آزاد اخبار "الجمہوریہ" منگل 8 جولائی کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ ان دونوں افراد (جولانی اور ہینگبی) نے ابوظہبی میں خفیہ ملاقات کی ہے۔ اس اخبار نے اپنے باخبر ذرائع کے بقول دعوی کیا کہ یہ ملاقات "اس نوعیت کی پہلی ملاقات" نہیں تھی۔ اس خبر کی اشاعت پر صیہونی رژیم نے سراسیمہ ہو کر اعلان کیا کہ ہینگبی نے متحدہ عرب امارات کا دورہ ہی نہیں کیا بلکہ وہ نیتن یاہو اور اسرائیلی وفد کے ہمراہ واشنگٹن گیا ہوا ہے۔
یاد رہے ان دنوں نیتن یاہو امریکہ گیا ہوا تھا تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ سے حماس کے ساتھ جنگ بندی مذاکرات اور ایران مخالف اقدامات کے بارے میں بات چیت کرے۔ اسے اس بات کی کوئی توقع نہیں تھی کہ سرکاری طور پر تعلقات استوار ہونے سے پہلے ایک اعلی سطحی صیہونی عہدیدار کی شام کے صدر سے ملاقات فاش ہو جائے گی۔ اس سے پہلے بھی ہنگبی اسرائیلی پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں اس بارے میں اشارہ کر چکا تھا۔ اسرائیلی اخبار اسرائیل ہیوم نے اس کا یہ بیان منظرعام پر لایا تھا۔ ہنگبی نے پارلیمنٹ میں کہا تھا: "شام اور لبنان ابراہیم معاہدے میں شمولیت کے خواہاں ہیں اور اس وقت براہ راست اور روزانہ کی بنیاد پر ان سے سیاسی اور سیکورٹی امور کے بارے میں گفتگو جاری ہے"۔ ہنگبی نے مزید کہا کہ اگر شام کے ساتھ تعلقات معمول پر آ جاتے ہیں تو ہم بفر زون سے اسرائیل کی پسماندگی کا "شاید جائزہ لیں"۔
گوشہ نشینی سے نکلنے کی تگ و دو
تل ابیب عرصہ دراز سے مغربی ایشیا خطے میں نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہے تاکہ اس طرح عالمی برادری میں اپنی شدید گوشہ نشینی کا ازالہ کر سکے اور خود کو درپیش خطرات کم کر سکے۔ اسرائیل واضح طور پر عرب حکومتوں سے تعلقات معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کے بڑے شہروں میں ایسے بینر دکھائی دیتے ہیں جن میں نیتن یاہو اور ٹرمپ کے ساتھ مغربی ایشیائی ممالک شام، لبنان، فلسطین، مصر، اردن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور عمان کے سربراہان کی تصاویر نظر آتی ہیں۔ ایسے ہی ایک بینر میں دعوی کیا گیا ہے کہ "نئے مشرق وسطی کی تشکیل کا وقت آن پہنچا ہے!"۔ اسی طرح ایک اور بینر پر لکھا ہے "ایک وقت جنگ کا تھا، ایک وقت مفاہمت کا اور اب ابراہیم معاہدے کا وقت ہے"۔
انحصار اور خوف کا امتزاج
شام پر حکمفرما جولانی رژیم نے ابتدا میں شک و تردید کے ہمراہ اسرائیل سے رابطہ قائم کیا۔ ابومحمد الجولانی نے فروری 2025ء میں گولان ہائٹس سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے بارے میں بات کرنا ابھی بہت جلدی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ھیئت تحریر الشام کے موقف میں نرمی آتی گئی اور جون 2025ء میں جولانی نے اسرائیل کے شام کے "مشترکہ دشمن" کی بات کی اور آپس میں سیکورٹی تعاون کے لیے باہمی تناو ختم کرنے پر زور دیا۔ البتہ اس کا رویہ اب بھی محتاطانہ ہے۔ اس نے کہا ہے کہ کسی بھی معاہدے کے تحت تل ابیب کو شام میں فوجی کاروائی کا حق نہیں دیا جائے گا۔ اسی طرح جولانی نے اسرائیل سے شام کے علاقوں سے فوجی انخلاء کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ بھی شام پر ابراہیم معاہدے میں شمولیت کے لیے دباو ڈال رہا ہے۔
تقریباً دو ہفتے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے شام پر امریکی پابندیاں مکمل طور پر ختم کر دی تھیں اور دمشق اور تل ابیب میں تعلقات معمول پر لانے کو شرط قرار دیا تھا۔ حال ہی میں امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ ھیئت تحریر الشام کا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ ترکی میں امریکی سفیر اور شام کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی تھامس براک نے بھی اسرائیل اور جولانی میں ثالثی کا کردار ادا کیا ہے اور انہیں ایکدوسرے پر حملہ ور نہ ہونے کے معاہدے پر دستخط کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ دوسری طرف تل ابیب نے شام کے خلاف سخت رویہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گیدعون سعر نے امریکہ کی جانب سے شام پر پابندیاں ختم کرنے کے اعلان کے ایک ہی دن بعد کہا کہ اسرائیل شام اور لبنان سے تعلقات معمول پر لانے کا خواہاں ہے لیکن گولان ہائٹس سے ہر گز دستبردار نہیں ہو گا۔
ھیئت تحریرالشام کی فوجی کمزوری
اسرائیل اور شام میں تعلقات پر نظر رکھنے والے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ دمشق اسرائیل کے فوجی اقدامات کے مقابلے میں بہت کمزور ہے اور یہ کمزوری اسرائیل کی جانب سے شام کے فوجی اڈے اور ذخائر تباہ کیے جانے کے بعد مزید شدید ہو گئی ہے۔ یاد رہے صدر بشار اسد حکومت کی سرنگونی کے فوراً بعد تل ابیب نے شام پر شدید فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جس میں شام آرمی کے تمام اہم مراکز اور فوجی ڈپو تباہ کر دیے گئے تھے۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیلی جنگی طیاروں نے اس دوران شام پر 480 فضائی حملے انجام دیے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق المزہ، حما اور حمص ایئربیسز سمیت طرطوس اور لاذقیہ کی فوجی بندرگاہیں بھی ان حملوں میں تباہ ہو گئی تھیں جبکہ بڑی تعداد میں میزائل، ٹینک اور جنگی کشتیاں بھی تباہ ہوئی تھیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: تعلقات معمول پر لانے متحدہ عرب امارات ابراہیم معاہدے نیتن یاہو سے تعلقات جولانی نے ایک وقت تل ابیب کے ساتھ کا وقت کر سکے شام کے
پڑھیں:
بھارت خفیہ پراکسیز کے ذریعے پاکستان میں مداخلت کر رہا ہے، سپیکر پنجاب اسمبلی
ملک محمد احمد خان کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ہم نے کلبھوشن یادیو اور جہلم ریلوے سٹیشنز سے بھارتی جاسوسوں کو پکڑا، یہی ثبوت ہیں جو ہم نے دنیا کے سامنے پیش کیے، انڈیا نے بغیر ثبوتوں کے پاکستان پر الزامات لگائے، 150 دن گزر گئے، مگر بھارت کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ اسلام ٹائمز۔ سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی دراندازی اور دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے مؤقف کو ثبوتوں سے ثابت کیا گیا ہے، بلوچستان میں بھارت پیسے دے کر لوگوں کو خریدتا ہے اور دہشتگردی کے مقاصد حاصل کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے مختلف پروکسیز کے ذریعے پاکستان میں مداخلت کی، ہم نے کلبھوشن یادیو اور جہلم ریلوے سٹیشنز سے بھارتی جاسوسوں کو پکڑا، یہی ثبوت ہیں جو ہم نے دنیا کے سامنے پیش کیے، انڈیا نے بغیر ثبوتوں کے پاکستان پر الزامات لگائے، 150 دن گزر گئے، مگر بھارت کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ ملک محمد احمد خان نے کہا کہ بھارت کی جنگی سوچ اور مودی کی الیکشن پالیسی خطرناک ہے، جنگ کس کو اچھی لگتی ہے؟ خون، بارود اور تڑپتی لاشیں کوئی پسند نہیں کرتا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان نے ہمیشہ بھارتی مذموم عزائم کی شدید مذمت کی ہے۔
سپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھاکہ پاکستان نے افغان مہاجرین کو طویل عرصے تک پناہ دی، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان نے ایک لاکھ سے زائد شہداء کی قربانیاں دیں، اے پی ایس سکول، کوئٹہ، لاہور سمیت کئی سانحات قوم کو آج بھی یاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پراکسی وار کے نتائج اچھے نہیں ہوتے، بھارت کو بھی اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے، پاکستان کی ملٹری انتہائی پروفیشنل ہے اور کسی کی برتری تسلیم نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ جو میرے شہریوں کو مارتے ہیں، عمارتوں کو جلاتے ہیں، وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں، ٹی ایل پی پر پابندی درست فیصلہ ہے۔ ملک محمد احمد خان نے کہا کہ دہشتگرد تنظیموں کیساتھ کوئی بات چیت نہیں ہونی چاہیے، افغانستان کیساتھ مذاکرات نتیجہ خیز ہونے کی دعا ہے، ہم نے دنیا کے سامنے ٹھوس ثبوت رکھے، خالی الزامات نہیں لگائے، دنیا آج سب کچھ دیکھ رہی ہے، سچ چھپ نہیں سکتا۔