اسرائیلی عدالت، فوج اور آبادکار؛ فلسطینیوں کو بےدخل کرنے کی مشترکہ حکمت عملی
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
جون کے آخر میں اسرائیلی فوجیوں نے محمد یوسف کے ہاتھ پیچھے باندھ کر اُسے مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے مسافر یطا کے قریب ایک فوجی کیمپ میں گھسیٹ کر لے گئے۔ محمد کے ساتھ اُس کی والدہ، بیوی اور دو بہنیں بھی تھیں، جنہیں مسلح اسرائیلی آبادکاروں کے خلاف احتجاج کرنے پر ان کی زمین سے گرفتار کیا گیا۔
یہ آبادکار اکثر فلسطینی زمین پر اپنے مویشی چراتے ہیں تاکہ اپنی بالادستی قائم کر سکیں اور غیرقانونی بستیوں کی بنیاد ڈال سکیں۔ محمد یوسف نے جب مسلح آبادکاروں کو اپنی زمین پر دیکھا تو اپنی کھیتی باڑی بچانے کی کوشش کی، مگر سزا اسے اور اُس کے خاندان کو ملی۔
فوجی کیمپ میں اُنہیں شدید گرمی میں گھنٹوں کھلے آسمان تلے رکھا گیا، اگلے دن اگرچہ اُنہیں رہا کر دیا گیا، مگر محمد اور اُس کا خاندان بےبس اور غیرمحفوظ محسوس کر رہا ہے۔ ’پولیس، فوج اور آبادکار اکثر اکٹھے حملہ کرتے ہیں، ہم کیا کریں۔‘
زمین چھیننے کا جوازاب صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے، اسرائیلی حکومت نے 17 جون کو اسرائیلی عدالتِ عالیہ میں ایک خط جمع کروایا جس میں فوج نے مسافر یطا کی کم از کم 12 دیہات کو مسمار کرنے اور وہاں کے باسیوں کو نکالنے کی درخواست کی، فوج کا مؤقف ہے کہ یہ علاقہ فوجی مشقوں کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
تاہم اسرائیلی سول سوسائٹی ادارے کیرم نووت کی 2015 کی ایک تحقیق کے مطابق، یہ محض فلسطینی زمین پر قبضے کا بہانہ ہے، رپورٹ کے مطابق 1967 سے اب تک اسرائیل نے مغربی کنارے کے تقریباً ایک تہائی حصے کو فوجی علاقہ قرار دیا ہے، لیکن ان میں سے 80 فیصد میں کبھی کوئی مشق نہیں ہوئی۔
تحقیق کے مطابق یہ حکمت عملی فلسطینیوں کو اُن کی زمین سے بےدخل کرنے اور آبادکاروں کو زمین منتقل کرنے کی غرض سے اپنائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ محمد یوسف کو خدشہ ہے کہ اُس کا گاؤں بھی اسی انجام سے دوچار ہو گا۔
’ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ اب کیا ہوگا۔ اگر ہمیں نکال دیا گیا تو ہم کہاں جائیں گے۔‘
غیرمنصفانہ عدالتی نظام’فائرنگ زون 918‘ کے نام سے معروف اس علاقے میں فلسطینیوں کے انخلا کا خطرہ برسوں سے منڈلا رہا ہے، 1999 میں یہاں کے باشندوں کو پہلی بار انخلا کا نوٹس دیا گیا تھا، حالانکہ یہ دیہات اسرائیل کے قیام سے بہت پہلے سے آباد ہیں۔
مقامی وکلا نے عدالتی جنگ کے ذریعے انخلا کو روکنے کی کوشش کی، 2000 میں عدالت نے انہیں وقتی طور پر واپس آنے کی اجازت دی مگر 2022 میں عدالت نے یہ کہتے ہوئے کہ یہاں کے رہائشی ’مستقل باشندے‘ نہیں 8 دیہات کو خالی کرانے کا حکم دے دیا۔
وکیل نیٹا امر شف نے بتایا کہ انہوں نے عدالت میں قدیم اوزار، تصاویر اور دیگر شواہد پیش کیے، مگر عدالت نے سب مسترد کر دیا۔
مکانات کی مسماری میں تیزی2023 کے اوائل میں وکلا نے فوجی مشقوں کے دوران کم از کم دیہات مسمار نہ کرنے کی درخواست دی، مگر حالیہ دنوں میں فوج اور حکومت نے اس عمل کو تیز کر دیا ہے، 18 جون کو اسرائیلی سول پلاننگ بیورو نے ’فائرنگ زون 918‘ میں زیر التوا تمام فلسطینی تعمیراتی درخواستیں مسترد کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ فیصلہ ’نسلی صفائی‘ کو آسان بنانے کے لیے کیا گیا ہے، اب وکلا کو سپریم کورٹ میں دوبارہ اپیل کرنا ہو گی، جس کا فیصلہ چند مہینوں میں متوقع ہے۔
ادھر، اسرائیلی آبادکاروں اور فوج کی جانب سے مقامی فلسطینیوں پر حملے بڑھتے جا رہے ہیں، انسانی حقوق کی تنظیم ’الحق‘ کے محقق سامی حورانی کے مطابق، فوج نے درجنوں گاڑیاں ضبط کر لی ہیں، کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور آبادکاروں کو فلسطینیوں کو بےدخل کرنے میں مدد دی جا رہی ہے۔
’ہم مکمل محاصرے کی حالت میں ہیں، اور کسی بھی وقت بڑے پیمانے پر مسماری کا خدشہ ہے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آبادکاروں اسرائیل انخلا تصاویر سول پلاننگ بیورو سول سوسائٹی فلسطینی زمین فلسطینیوں فوجی مشقوں قدیم اوزار کیرم نووت مسافر یطا مغربی کنارے مویشی وکلا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آبادکاروں اسرائیل انخلا تصاویر سول پلاننگ بیورو سول سوسائٹی فلسطینی زمین فلسطینیوں فوجی مشقوں قدیم اوزار مسافر یطا مویشی وکلا کے مطابق کر دیا
پڑھیں:
پاکستان اور افغان طالبان جنگ بندی جاری رکھنے پر متفق، مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ جاری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی برقرار رکھنے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ مذاکرات کے بعد دونوں فریقوں کا مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا، جو ترک وزارتِ خارجہ کی جانب سے منظرِ عام پر لایا گیا۔
اعلامیے کے مطابق ترکیہ اور قطر کی مشترکہ ثالثی میں 25 سے 30 اکتوبر تک استنبول میں مذاکرات منعقد ہوئے، جن کا مقصد دوحہ میں 18 اور 19 اکتوبر کو طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کو مزید مضبوط اور مؤثر بنانا تھا۔
دونوں فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اس کے نفاذ کے قواعد و ضوابط آئندہ اجلاس میں، جو 6 نومبر کو استنبول میں ہوگا، طے کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ فریقین نے ایک مشترکہ مانیٹرنگ اور تصدیقی نظام قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے، جو جنگ بندی کی کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں ذمہ دار فریق پر جرمانہ عائد کرنے کا اختیار رکھے گا۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ترکیہ اور قطر نے پاکستان اور افغان طالبان کے مثبت اور تعمیری رویے کو سراہا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ خطے میں امن، استحکام اور تعاون کے فروغ کے لیے اپنا کردار جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ترکیہ کی درخواست پر پاکستان نے افغانستان کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی تاکہ امن عمل کو آگے بڑھایا جاسکے۔