یوکرین اسلحہ کی فراہمی بحال، ٹرمپ کا ہنگامی امدادی پیکج جاری
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
امریکا نے یوکرین کو اسلحہ کی ترسیل دوبارہ شروع کر دی ہے، جسے پینٹاگون کی طرف سے عارضی طور پر روک دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:روس کا یوکرین پر اب تک کا سب سے بڑا فضائی حملہ، 728 ڈرون اور 13 میزائل فائر
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اب 155 ملی میٹر آرٹلری شیلز اور جدید GMLRS راکٹ یوکرین کو فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اس اقدام کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی پہلی بار اپنی صدارتی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے 300 ملین ڈالر مالیت کے ہتھیار براہِ راست پینٹاگون کے ذخائر سے یوکرین بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انٹرنیشنل میڈیا رپورٹ کے مطابق اس نئے پیکج میں پیٹریاٹ میزائل سسٹمز اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے راکٹس شامل ہو سکتے ہیں۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حالیہ دنوں میں پینٹاگون نے ذخائر کی کمی کے باعث کچھ اسلحہ کی ترسیل روک دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:‘یوکرین کے بارے میں بکواس کر رہا ہے‘، ٹرمپ روسی صدر پر برہم، مزید ہتھیار بھیجنے کا اعلان
وزیرِ دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے مبینہ طور پر یہ فیصلہ صدر ٹرمپ سے مشورہ کیے بغیر کیا تھا، جس پر صدر نے اندرونی طور پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے کہا کہ اسلحے کی فراہمی میں کوئی ’وقفہ‘ نہیں تھا بلکہ صرف حکمت عملی کا جائزہ لیا گیا تھا تاکہ امداد امریکی دفاعی ترجیحات سے ہم آہنگ ہو۔
سیکرٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے بھی وضاحت دی کہ اس معاملے کو ’غلط انداز میں پیش کیا گیا‘۔
صدر ٹرمپ نے اس سے قبل انتخابی مہم کے دوران صدر جو بائیڈن کی یوکرین کو بغیر شرائط دی جانے والی امداد پر تنقید کرتے ہوئے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو ’دنیا کا سب سے بڑا سیلز مین‘ قرار دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:شمالی کوریا یوکرین کیخلاف روس کی مدد کے لیے 20 ہزار فوجی بھیج رہا ہے، یوکرینی انٹیلجنس رپورٹ
یوکرین کے لیے اسلحہ کی سپلائی اس لیے بھی اہم سمجھی جا رہی ہے کیونکہ یوکرینی افواج روسی دباؤ کا سامنا کر رہی ہیں اور نئے بھرتی ہونے والے سپاہیوں کی کمی کا شکار ہیں۔
دوسری جانب روس مسلسل مغربی ہتھیاروں کی فراہمی کی مذمت کرتا رہا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے گزشتہ ماہ ایک بار پھر دوٹوک الفاظ میں کہا کہ مغربی ممالک جو یوکرین کو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں، وہ دراصل جنگ میں براہِ راست فریق بن چکے ہیں۔
امریکی جرمن تھنک ٹینک ’کئیل انسٹیٹیوٹ‘ کے مطابق امریکا اب تک یوکرین کو تقریباً 115 ارب ڈالر کی فوجی اور مالی امداد دے چکا ہے۔
تازہ ترین فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ، اگرچہ امداد کے طریقہ کار پر نظرثانی کر رہی ہے، لیکن یوکرین کی فوجی ضروریات پوری کرنے کے لیے اب بھی سرگرم ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا پیوٹن ٹرمپ انتظامیہ روس زیلنسکی یوکرین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا پیوٹن ٹرمپ انتظامیہ زیلنسکی یوکرین یوکرین کو اسلحہ کی کے لیے
پڑھیں:
معاہدہ ہوگیا، امریکا اور چین کے درمیان ایک سال سے جاری ٹک ٹاک کی لڑائی ختم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا اور چین کے درمیان ٹک ٹاک پر جاری ایک سال سے زائد پرانا تنازع بالآخر ختم ہوگیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو اعلان کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت ٹک ٹاک امریکا میں کام جاری رکھے گا۔ اس معاہدے کے مطابق ایپ کے امریکی اثاثے چینی کمپنی بائٹ ڈانس سے لے کر امریکی مالکان کو منتقل کیے جائیں گے، جس سے یہ طویل تنازع ختم ہونے کی امید ہے۔
یہ پیش رفت نہ صرف ٹک ٹاک کے 170 ملین امریکی صارفین کے لیے اہم ہے بلکہ امریکا اور چین، دنیا کی دو بڑی معیشتوں، کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی کو کم کرنے کی بھی ایک بڑی کوشش ہے۔
ٹرمپ نے کہا، “ہمارے پاس ٹک ٹاک پر ایک معاہدہ ہے، بڑی کمپنیاں اسے خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔” تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ انہوں نے اس معاہدے کو دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند قرار دیا اور کہا کہ اس سے اربوں ڈالر محفوظ رہیں گے۔ ٹرمپ نے مزید کہا، “بچے اسے بہت چاہتے ہیں۔ والدین مجھے فون کرکے کہتے ہیں کہ وہ اسے اپنے بچوں کے لیے چاہتے ہیں، اپنے لیے نہیں۔”
تاہم اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ریپبلکن اکثریتی کانگریس کی منظوری ضروری ہو سکتی ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جس نے 2024 میں بائیڈن دورِ حکومت میں ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت ٹک ٹاک کے امریکی اثاثے بیچنے کا تقاضا کیا گیا تھا۔ اس قانون کی بنیاد یہ خدشہ تھا کہ امریکی صارفین کا ڈیٹا چینی حکومت کے ہاتھ لگ سکتا ہے اور اسے جاسوسی یا اثرورسوخ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد میں ہچکچاہٹ دکھائی اور تین بار ڈیڈ لائن میں توسیع کی تاکہ صارفین اور سیاسی روابط ناراض نہ ہوں۔ ٹرمپ نے یہ کریڈٹ بھی لیا کہ ٹک ٹاک نے گزشتہ سال ان کی انتخابی کامیابی میں مدد دی۔ ان کے ذاتی اکاؤنٹ پر 15 ملین فالوورز ہیں جبکہ وائٹ ہاؤس نے بھی حال ہی میں اپنا سرکاری ٹک ٹاک اکاؤنٹ لانچ کیا ہے۔