ایس آئی ایف سی کا دوسرا سال: شفاف معیشت، زیرو ٹالرنس پالیسی کے نفاذ پر خصوصی رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
اسلام آباد:
ایس آئی ایف سی کے دوسرے سال میں کرپشن، اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کے تحت سخت اور فیصلہ کن اقدامات کیے گئے۔
سیمنٹ، تمباکو، کھاد اور چینی کی صنعتوں میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا نفاذ کیا گیا۔
ایف بی آر کی رواں مالی سال کے دوران 8.45 ٹریلین روپے ٹیکس وصولی ہوئی، جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 27 فیصد اضافہ ہے۔
ایس آئی ایف سی کی بدولت صرف مارچ میں 1.
انسداد اسمگلنگ مہم میں 23 ملین لیٹر ایرانی تیل، 10,447 میٹرک ٹن کھاد اور 3,547 ٹن گندم و آٹا ضبط کیا گیا۔ ذخیرہ اندوزی کے خلاف مؤثر کارروائیاں، ہزاروں میٹرک ٹن کھاد، گھی اور چینی برآمد کی گئی۔
ایس آئی ایف سی کی سہولت کاری سے زیرو ٹالرنس پالیسی کے تحت پاکستان کی معیشت شفافیت، اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایس آئی ایف سی
پڑھیں:
سول ہسپتال کوئٹہ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سول ہسپتال کوئٹہ کے آڈٹ کے دوران ادویات کے ریکارڈ میں انحراف اور 537 روپے کے آکیسجن سلینڈر کیلئے 40 ہزار ادا کرنے سمیت دیگر بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سنڈیمن پرووینشل (سول) ہسپتال کوئٹہ میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں اور سنگین انتظامی بدنظمی کا انکشاف ہوا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت اجلاس میں پیش کی گئی اسپیشل آڈٹ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2017 تا 2022 کے دوران اسپتال انتظامیہ نے 3 کروڑ روپے مالیت کی ادویات خریدیں، لیکن سپلائی آرڈرز اور بلز میں شدید تضاد پایا گیا۔ ریکارڈ کے مطابق آرڈر ایک کمپنی کو جاری کیا گیا، جبکہ ادائیگی کسی دوسری کمپنی کو کی گئی۔ اس کے علاوہ اسٹاک رجسٹر اور معائنہ کی رپورٹس بھی موجود نہیں ہیں۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ مالی سال 2019-20 کے دوران سول ہسپتال کے مرکزی اسٹور سے دو کروڑ 28 لاکھ روپے مالیت کی ادویات غائب ہو گئیں۔ اس سنگین غفلت پر مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابقہ فارماسسٹ نے بیماری کے باعث بروقت انٹریاں درج نہیں کیں۔ تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ فارماسسٹ کی جانب سے آج تک مکمل ریکارڈ جمع نہیں کرایا گیا۔ اس کے علاوہ آکسیجن سلنڈرز کی زائد نرخوں پر خریداری سے حکومتی خزانے کو ساڑھے 13 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ معاہدے کے تحت سلنڈرز کی قیمت 537 روپے مقرر تھی، لیکن وبائی دور میں مارکیٹ سے 40 ہزار روپے فی سلنڈر کے ناقابل یقین نرخ پر خریداری کی گئی۔ مزید یہ کہ تمام کوٹیشنز ایک ہی تحریر میں تیار کی گئی تھیں، جس سے شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ کمیٹی نے ان تمام معاملات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور ذمہ دار افسران کی شناخت اور غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کارروائی اور انکوائری کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔