فوجی عدالتوں سے ملنے والی سزائیں ہائیکورٹس میں چیلنج کی جاسکتی ہیں، پشاورہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
پشاور ہائیکورٹ نے ہفتے کے روز فیصلہ سنایا ہے کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے افراد متعلقہ ہائیکورٹس میں رِٹ پٹیشن دائر کرنے کے مجاز ہیں، اور اس حوالے سے وفاقی حکومت کے اعتراضات کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل: جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان کا اختلافی نوٹ جاری
میڈیا رپورٹ کے مطابق جسٹس وقار احمد اور جسٹس صادق علی میمن پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی سزاؤں کو ہائیکورٹس میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
یہ فیصلہ مردان کے رہائشی عدنان اور دیگر کی جانب سے دائر کردہ رِٹ پٹیشن پر سنایا گیا، جن کا مؤقف تھا کہ ان کا 9 مئی 2023 کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین کی گرفتاری کے بعد ہونے والے مظاہروں میں عدم شمولیت کے باوجود ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی، اور بعد ازاں انہیں فوجی عدالت کے سپرد کر دیا گیا، جبکہ دیگر شریک ملزمان کا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوا۔
دورانِ سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل نے پٹیشن کے قابلِ سماعت ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ درخواستگزاروں کے لیے ایک متبادل اپیل کا فورم موجود تھا، جس سے وہ مقررہ وقت میں رجوع نہ کر سکے، لہٰذا یہ رِٹ پٹیشن مقررہ مدت گزرنے کے باعث ناقابلِ سماعت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ملٹری کورٹس سے رہائی پانے والے مجرمان کی رحم کی درخواستیں سامنے آگئیں
اس پر درخواستگزاروں کے وکیل بیرسٹر امیراﷲ چمکنی نے مؤقف اپنایا کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے افراد ہائیکورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں، جیسا کہ سپریم کورٹ نے اپنے مختصر حکم میں تسلیم کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے تاحال آرمی ایکٹ میں ایسی کوئی ترمیم نہیں کی جس سے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں باقاعدہ اپیل کا فورم قائم کیا جائے، اس لیے اپیل کی مدت کا آغاز بھی انہی ترامیم کے بعد ہی ممکن ہوگا۔
وکیل کا کہنا تھا کہ درخواستگزاروں کو ان کے خلاف الزامات اور سزا کی وجوہات سے مکمل لاعلم رکھا گیا، جس کی وجہ سے وہ بروقت اپیل دائر نہیں کر سکے۔ جب انہیں آگاہ کیا گیا تو تب تک اپیل کا وقت گزر چکا تھا۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد قرار دیا کہ وہ آئینی دائرہ اختیار استعمال کر سکتی ہے اور اپنی آئینی ذمہ داریوں سے آنکھ نہیں چرا سکتی۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ جب متبادل فورم مؤثر نہ رہے یا دستیاب ہی نہ ہو، تو رِٹ پٹیشن دائر کرنا ایک جائز قانونی راستہ ہے۔
عدالت نے بریگیڈیئر علی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے عدالتی نگرانی کا اصول پہلے سے قائم ہے۔ سپریم کورٹ کے اُس بینچ نے بھی، جس نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو برقرار رکھا تھا، اپنے مختصر حکم میں واضح کیا تھا کہ سزایافتگان ہائیکورٹس سے رجوع کر سکتے ہیں، اور یہ ان کا آئینی حق ہے۔
عدالت نے اس کیس سے متعلق ایک اور درخواست کو بھی نمٹا دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ درخواستگزاروں کو ان کے مقدمے سے متعلق کوئی دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، جن میں چارج شیٹ اور آرمی چیف کی جانب سے دیے گئے فیصلوں کی نقول شامل تھیں۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر آج کی سماعت کا دلچسپ احوال
عدالت نے قرار دیا کہ دفاع کے حق میں درخواست گزاروں کو ان تمام دستاویزات تک رسائی حاصل ہونی چاہیے اور وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ تمام متعلقہ مواد کی مصدقہ نقول فراہم کرے۔
عدالت نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ آرمی چیف نے فوجی عدالتوں کا ریکارڈ ملزمان سے چھپانے کی کوئی ہدایت جاری کی تھی۔ تاہم عدالت نے تسلیم کیا کہ آرمی چیف کی جانب سے جاری کیے گئے فیصلے عام نہیں کیے جا سکتے، البتہ باقی ریکارڈ درخواست گزاروں کو مہیا کیا جانا چاہیے۔
یہ فیصلہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل اور ان کے آئینی حقوق سے متعلق جاری قانونی بحث میں ایک اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
9 مئی پشاور ہائیکورٹ جسٹس صادق علی میمن جسٹس وقار احمد سپریم کورٹ فوجی عدالت ملٹری کورٹس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پشاور ہائیکورٹ جسٹس صادق علی میمن سپریم کورٹ فوجی عدالت ملٹری کورٹس کہ فوجی عدالتوں وفاقی حکومت سپریم کورٹ کی جانب سے ر ٹ پٹیشن عدالت نے کہا کہ تھا کہ یہ بھی
پڑھیں:
وینزویلا کے اندر حملے زیر غور نہیں ہیں‘ ٹرمپ کی تردید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وینزویلا کے اندر فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کے فیصلے کی تردید کرتے ہوئے میڈیا کی ان خبروں کی تردید کردی ہے کہ انہوں نے حملے کی منظوری دی تھی۔ اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری اینا کیلی سے جب اس رپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اخبار نے جن ذرائع کا حوالہ دیا ہے وہ نہیں جانتیں کہ وہ کس بارے میں بات کر رہے ہیں اور ٹرمپ کی طرف سے کوئی بھی اعلان آئے گا۔ میامی ہیرالڈ نے جمعہ کے روز اطلاع دی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ نے وینزویلا کے اندر فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ کہ حملے کسی بھی وقت ہوسکتے ہیں۔وال اسٹریٹ جرنل کی طرف سے بھی رپورٹ کردہ منصوبہ بند حملوں کا مقصد منشیات کے کارٹیل کے زیر استعمال فوجی تنصیبات کو تباہ کرنا ہے۔ ان تنصیبات کے بارے میں واشنگٹن کا کہنا ہے کہ یہ وینزویلا کے صدر نکولاس مادورو کے زیر کنٹرول ہیں اور ان کی حکومت کے سینئر ارکان چلاتے ہیں۔ اہداف کا مقصد کارٹیل کی قیادت کو منقطع کرنا بھی ہے۔ امریکی حکام کا خیال ہے کہ کارٹیل سالانہ تقریباً 500 ٹن کوکین برآمد کرتا ہے جسے یورپ اور امریکا کے درمیان پھیلایا جاتا ہے۔ واشنگٹن نے مادورو کی گرفتاری کی اطلاع کے لیے اپنے انعام کو دگنا کر کے 5 کروڑ ڈالر کر دیا ہے جو تاریخ کا سب سے بڑا انعام ہے۔ یہ فی الحال وزیر داخلہ ڈیوسڈاڈو کابیلو سمیت اپنے کئی اعلیٰ معاونین کی گرفتاری کے لیے ڈھائی کروڑ ڈالر تک کے انعامات کی پیشکش بھی کر رہا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کارٹیل کی کارروائیاں چلا رہے ہیں۔ امریکی منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات کا سامنا کرنے والی حکومت کی دیگر اہم شخصیات میں وزیر دفاع ولادیمیر پیڈرینو لوپیز بھی شامل ہیں۔