لاہور میں برکھا رت کے دنوں میں اس شہر میں 70 برس پہلے کی ان بارشوں کا خیال آرہا ہے جن کے بارے میں بہت سے قصے میں نے پڑھ رکھے ہیں۔ ان سے شہر اور اس کے مکینوں کی زندگی کے مختلف رنگ سامنے آتے ہیں۔ اس بارش کے راوی ناموران ادب ہیں، یہ سلسلہ ناصر کاظمی سے خالدہ حسین تک پھیلا ہے۔
سب سے پہلے ناصر کاظمی کی ڈائری سے رجوع کرتے ہیں جس میں 6 اکتوبر 1955 کے دن کا احوال یوں قلمبند ہوا ہے:
’لاہور میں غیر معمولی بارش۔ دفتر سے آکر گھر سے نکلا ہی تھا کہ سیلاب پرانی انارکلی کے تھانے تک آپہنچا، گھر گیا تو پانی دروازے تک آچکا تھا، ایسا سیلاب لاہور میں کبھی نہ دیکھا تھا، رات کو کھانا کھا کر لیٹا ہی تھا کہ انتظار حسین اور سعید محمود پانی میں بھیگتے ہوئے گھر آئے اور مجھے تانگے میں بٹھا کر باہر لے گئے۔
’دشت سے چل کے تا نگر پہنچا
اب کے سیلاب اپنے گھر پہنچا‘
یہ اس شاعر کا بیان ہے جو بپھرے ہوئے پانی کی لپیٹ میں تھا اب ذرا لاہور سے دور ایک شاعر سید ضمیر جعفری کی پریشانی کا عالم ملاحظہ کیجیے جنہوں نے اپنی ڈائری میں 6 اکتوبر 1955 کے اندراج میں یہ الفاظ رقم کیے:
’راوی میں خوفناک سیلاب آگیا، وسطی پنجاب کے کئی اضلاع زیر آب ہو گئے، لاہور شہر کے ایک چوتھائی حصے میں پانچ پانچ فٹ گہرا پانی گھس چکا ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس ملک کی تاریخ میں اتنا ہولناک سیلاب کبھی نہیں آیا، بڑی پریشان کن خبریں چلی آرہی ہیں۔ ملک بہت بڑی ابتلا سے دوچار ہو گیا ہے۔ اللہ رحم کرے۔‘
ناصر کاظمی کے مجموعے ’دیوان‘ کی ایک غزل کا مقطع اس سیلاب کے بارے میں ہے اور اس کے نیچے 1955 کا سن بھی درج ہے:
اب کے تو اس دیس میں یوں آیا سیلاب
کب کی کھڑی حویلیاں پل میں ہو گئیں ڈھیر
دو تخلیق کاروں کی نگارشات سے گزر کر اب تاریخ کے استاد اور ماہر آثار قدیمہ پروفیسر محمد شجاع الدین (1918-1965) کی کتاب ’تاریخ لاہور‘ سے رجوع کرتے ہیں جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے، مقالات کے اس مجموعے کو معروف محقق افضل حق قرشی نے مرتب کیا تھا۔
اس تصنیف میں 1955 میں دریائے راوی کے بے قابو ہونے اور اس کی تلاطم خیز موجوں کے مال روڈ پر پہنچنے کا احوال ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریزوں کے دور میں کوئی ہولناک سیلاب راوی میں نہ آیا لیکن آزادی کے بعد راوی نے بھی گویا آزادی کا اعلان کیا اور اس کا پانی ستمبر 1947 میں کناروں سے چھلک کر یکی دروازے کے باہر سرکلر روڈ تک آن پہنچا تھا۔ ستمبر 1950 میں سیلاب نے پھر تباہی پھیر دی جس کے بعد بقول پروفیسر محمد شجاع الدین ’دریا کے کنارے کنارے داروغہ والا سے ڈھولن والا تک بند تعمیر کیا گیا۔ اس بند کی تعمیر نے دریا کی نواحی بستیوں کے ان لوگوں کو جو سیلاب کے ڈر سے پریشان ہو کر مکانات کی فروخت کا انتظام کر رہے تھے مطمئن کردیا۔‘
اس کے بعد چند سال برسات میں دریا کی سرکش موجیں اپنی حد میں رہیں یہاں تک کہ 1955 کی برسات بھی خیریت سے گزر گئی لیکن اکتوبر میں دریائے راوی اس طرح جھوم کے اٹھا کہ جل تھل ایک ہو گیا اور صورت حال ڈاکٹر خورشید رضوی کے اس مصرعے کے مصداق ہوگئی:
’ابر گلیوں میں گرجتا ہوا پانی لایا‘
پروفیسر محمد شجاع الدین نے لکھا: ’اس دفعہ 1950 کے مقابلے میں دگنا پانی تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بند ناکارہ ثابت ہوا اور سیلاب کا پانی مال روڈ پر بڑے ڈاک خانے تک آگیا۔‘
’تاریخ لاہور‘ میں داروغہ والا کے تذکرے سے اس بستی میں 73 سال سے مقیم محمد سلیم الرحمان کی نظم کا خیال آتا ہے۔ ذرا دیکھیے تو سہی شاعر سیلاب کو ظاہر کی آنکھ سے دیکھ کر کس تخلیقی آب وتاب سے اس کی ہولناکی بیان کرتا ہے:
ہرے، غرقاب کھیتوں پر بچھی ہے صاف ویرانی
شفق کی ماتمی سرخی، درختوں کی سیہ پوشی
ابھرتی موج کے آہنگ میں پنہاں ہیں انجانی
امنگوں کی کسیلی کروٹیں، یادوں کی سرگوشی
دبے پاؤں یہاں پانی کا چڑھنا اور غرانا
افق پر کوندتی بجلی کی گنگ اور اجنبی ہیبت
ہر اک شے خوف کی زنجیر میں جکڑی ہوئی عبرت
ہرا ہوتا ہوا اک زخم ہے دریا کا در آنا
یہ آب تند جس نے آتشیں اور سنگ خارا کی
چٹانیں چیر کر قائم کیا ہے بحر سے رشتہ
جدھر کا رخ کرے، اس کا وہی سیدھا صحیح رستہ
ہر اک عنصر سے پیدا ہے یہاں بے غور سفاکی
یہی بے دید از خود رفتگی رستہ دکھاتی ہے
پتا چلنے نہیں دیتی، بناتی یا مٹاتی ہے
1955 کے سیلاب بلا سے سنت نگر اور کرشن نگر کے متاثر ہونے کا حوالہ کئی لکھاریوں نے دیا ہے۔
حسن عابدی شاعر کی حیثیت سے بعد میں معروف ہوئے پہلے انہیں ترقی پسند تحریک کے مخلص کارکن اور لائق صحافی کے طور جانا گیا۔ ان کا لاجواب شعر ملاحظہ کر لیجیے تو بات آگے بڑھاتے ہیں:
کچھ عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے
ہائے زنداں میں بھی کیا لوگ تھے ہم سے پہلے
1955 میں سیلاب کے دنوں میں وہ آفاق اخبار میں کام کرتے تھے جہاں رات کی شفٹ کے انچارج مقبول احمد تھے۔ ریڈیو سے خبریں لینے کے ماہر۔ حسن عابدی کے بقول ’ان کا محبوب مشغلہ دنیا بھر سے ریڈیو کی خبریں سننا اور نوٹ کرنا تھا۔‘
وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ سنت نگر میں رہتے تھے، ان کی دفتر سے غیر حاضری سے حسن عابدی مشوش ہوئے اور پانی اترنے کے بعد اپنے ساتھی ضیاالاسلام انصاری کے ہمراہ ان کی خیر خبر لینے ان کے ہاں گئے تو یہ جانا کہ پانی کی یلغار کے بعد بھی بزرگ صحافی ریڈیو دوستی سے دستبردار نہ ہوئے تھے اورگھر کی دوسری منزل پر ٹھکانہ کرکے ریڈیو سے خبریں کاغذ پر اتارتے رہے۔ انہوں نے کاغذوں کا ایک پلندہ صحافی دوستوں کے سامنے دھر کر اپنی کارگزاری کے بارے میں بتایا۔
سیلاب اور سنت نگر کے تعلق سے ایک کہانی حمید اختر نے بیان کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سبط حسن دوسروں کو مصیبت میں دیکھ کر اپنی جان جوکھم میں ڈال سکتے تھے۔ ان دنوں وہ نقی بلڈنگ میں رہتے تھے اور حمید اختر کی رہائش سنت نگر میں تھی۔ وہ امروز اخبار کے دفتر میں ڈیوٹی پر تھے جب انہیں سنت نگر اور کرشن نگر کے زیرِ آب آنے کی اطلاع ملی۔ ان کو گھر میں موجود اپنی بہن اور بھتیجی کے بارے میں فکر لاحق ہوئی، پانی پنجاب یونیورسٹی تک آگیا تھا، دیو سماج روڈ پر جہاں سے گزر کر وہ گھر جاتے تھے وہاں چھ سات فٹ اونچا پانی تھا۔ اسی علاقے میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کا گھر بھی پانی میں گھرا تھا اور وہ اوپر کی منزل میں قید ہو کر رہ گئے تھے۔
حمید اختر اور سبط حسن رات گئے پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھے رہے، وقفے وقفے سے زمزمہ توپ کے پاس سیلابی پانی کا جائزہ لینے جاتے اور اتار کے آثار نہ دیکھ کر مایوس پلٹ آتے۔ حمید اختر نے رات سبط حسن کے فلیٹ میں گزاری، پریشانی میں دونوں سو نہ سکے۔ صبح ہونے پر پانی اترنے کے بجائے اور چڑھ گیا تو حمید اختر کی پریشانی بڑھ گئی۔ اس صورت حال میں سبط حسن نے انقلابی قدم اٹھایا اور تیر کر مصیبت زدوں کے پاس جانے کی ٹھانی۔ اس انسان دوست مہم جوئی کو حمید اختر نے ’آشنائیاں کیا کیا‘ میں کچھ یوں بیان کیا ہے:
’میں نے انہیں بہت روکا، اس لیے نہیں کہ اس میں کوئی خطرہ تھا وہ بہت اچھے تیراک تھے، مگر ان کی نفاست طبع کی وجہ سے مجھے معلوم تھا کہ اس گندے اور غلیظ پانی میں سے گزر کر جانا ان کے لیے کس قدر مشکل ہوگا، دریا کے پانی کے ساتھ علاقے کی ساری غلاظت، حشرات الارض، سانپ بچھو وغیرہ بھی بکثرت موجود تھے، مگر سبط حسن اس پانی میں سے گزر کر نہ صرف میرے گھر گئے بلکہ وہاں کچھ دیر رکنے کے بعد اس سے آگے کرشن نگر میں عائشہ جمال (ہاجرہ مسرور کی بڑی بہن) کے ہاں بھی گئے اور دو گھنٹے بعد واپس آکر ہم لوگوں کو گھر والوں کی خیریت سے آگاہ کیا۔ اس شام میں گورنمنٹ کالج سے ہوتا ہوا گھوڑا اسپتال جاکر وہاں سے کشتی میں سوار ہو کر گھر پہنچا تھا۔‘
خالدہ حسین کے ناول ’کاغذی گھاٹ‘ میں لاہور کی برسات کا بڑا مؤثر بیان ہے جس کے بعد اس میں سیلاب داخل ہوتا ہے۔ آسمان پر گھر کر آنے والے بادل گرجنے کے بعد برستے ہیں تو ’اس مینہ میں بوندیں نہیں بس پانی کی چادر سی بہہ نکلتی ہے۔‘
خالدہ حسین کے ناول میں سیلاب، اس کے بارے میں لوگوں کا رویہ اور پھر اس کے گزر جانے پر زندگی کا پرانے ڈھب پر آجانا، ان سب پہلوؤں کو سمیٹا گیا ہے۔
’پانی راوی کے آس پاس کی بستیوں سے ہوتا کرشن نگر تک تو بڑے آرام سے پہنچ جاتا اور پہنچتا بھی کیسے۔ پورے پورے مکان، بعض اوقات دو منزلہ ڈوب جاتے، لوگ چھتوں پر پناہ لیتے اور سڑکوں پر کشتیاں چلنے لگتیں۔ اور لوگوں کو اس طوفان نوح سے نکالنے کی سبیل کی جاتی مگر اس عالم میں بھی لڑکے ’تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا‘ گاتے کشتیاں چلاتے۔ افروز کا گھر عین سیلابی علاقے میں تھا۔ وہ سیلاب میں گھر کی چھت پر بیٹھی طویل خطوط میں سیلاب نامہ لکھتی رہی جو پانی اترنے کے بعد ڈاک میں اسے ملے۔ سو راوی کا پانی ہر سال ان لوگوں کے سامان تباہ کر کے چلا جاتا۔ یہ پھر سے اپنے بھیگے سامان دھوپوں میں خشک کرتے، تمام گھر درست کرکے اپنے شب و روز میں مگن ہو جاتے۔‘
سیلاب کے بارے میں مذکورہ بالا حوالوں میں آپ نے یہ نوٹ کیا ہوگا کہ لوگ اپنے معمولات زندگی برقرار رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ناصر کاظمی کے لیے گھر سے پیدل نکلنے کا راستہ مسدود ہے تو ان کے دوست تانگے کا انتظام کرتے ہیں اور یہ دونوں دوست دو دن پہلے ناصر کاظمی کے مسکن سے رات ڈیڑھ بجے بارش میں بھیگتے سائیکلوں پر اپنے گھروں کو روانہ ہوئے تھے۔
اس طرح مقبول احمد پانی کے قیدی ہیں لیکن ریڈیو سن رہے ہیں اور خبریں بناتے چلے جا رہے ہیں۔
’کاغذی گھاٹ‘ میں نوجوان گیت گاتے کشتیاں چلاتے ہیں اور افروز خطوط نویسی میں منہمک نظر آتی ہے۔
محمد سلیم الرحمان کا کڑا درد آگے چل کر نظم کی صورت میں ڈھلتا ہے۔
اس آشوب میں دوسرا خوبصورت پہلو انسانی رابطے پر یقین اور دوسروں کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑنا تھا۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں وہ صحافی جنہیں اپنے صحافی بھائی کی خیریت نیک مطلوب ہے وہ اس کے گھر کا رخ کرتے ہیں اور ادھر سبط حسن سیلابی پانی میں تیرنے کا کشٹ اٹھا کر درماندہ حال لوگوں کے پاس پہنچتے ہیں۔ ناصر کاظمی کے دوستوں کو ان کے بغیر سبھا جمانا منظور نہیں۔ ضمیر جعفری طوفان کے مرکز سے دور ہیں لیکن ان کا دل مصیبت کے ماروں کے ساتھ دھڑک رہا ہے۔ کسی کے دکھ درد میں شرکت کا ارفع وصف ہی ایسے المیوں کو روک سکتا ہے جن کے آج ہر سو چرچے میں بے حسی اپنے عروج پر ہے اور لگتا ہے ہم سب پریم چند کے افسانے ’کفن‘ کے گھیسو اور مادھو بن چکے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
wenews سیلاب لاہور محمودالحسن ناصر کاظمی وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سیلاب لاہور محمودالحسن ناصر کاظمی وی نیوز ناصر کاظمی کے کے بارے میں میں سیلاب کرتے ہیں پانی میں سیلاب کے کے ساتھ ہیں اور میں بھی کے بعد اور اس
پڑھیں:
ٹرمپ کا سیلاب زدہ ٹیکساس کا دورہ‘ صحافی کے سوال پر سیخ پا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹیکساس میں سیلاب آنے کے ایک ہفتے بعد تباہی کا معاینہ کرنے پہنچ گئے۔ ان کا دورہ اس وقت متنازع بن گیا جب انہوں نے ایک صحافی کے سوال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے انتہائی شیطان صفت شخص قرار دے دیا۔ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کرفل میں قائم ایمرجنسی آپریشنز سینٹر میں صدر ٹرمپ سیلاب زدہ علاقوں کا جائزہ لے رہے تھے اور مقامی حکام و امدادی اہلکاروں سے ملاقات کر رہے تھے۔ اس دوران ایک صحافی نے صدر سے پوچھا کہ آیا اگر بروقت انتباہی اقدامات کیے جاتے تو کیا جانیں بچائی جا سکتی تھیں؟ اس پر صدر ٹرمپ نے پہلے کہاکہ میرے خیال میں سب نے صورتحال کے مطابق شاندار کام کیا۔ تاہم فوراً بعد صدر نے سوال کرنے والے رپورٹر پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ صرف ایک برا انسان ہی ایسا سوال پوچھ سکتا ہے اور صرف شیطان صفت شخص ایسا سوال اٹھا سکتا ہے۔ اس تلخ جملے کے فوراً بعد صدر نے اپنے حامی میڈیا ادارے ریل امریکا وائس کے نمائندے سے سوال لیا اور مسکراتے ہوئے اس کی تعریف کی۔ واضح رہے کہ ٹیکساس میں آئے سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران اب تک کم از کم 129 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 170 سے زائد افراد لاپتا ہیں۔ یہ حادثہ ٹیکساس کے ہل کنٹری علاقے میں پیش آیا، جب طوفانی بارش کے بعد شدید سیلاب نے پورے علاقے کو لپیٹ میں لے لیا۔