پاک امریکا تجارتی معاہدہ پاکستانی معیشت کے لیے کتنا اہم ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
پاکستان اور امریکا کے درمیان حالیہ تجارتی معاہدوں کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ حالیہ صورت حال کے مطابق پاکستانی وفد نے سیکریٹری تجارت جاوید پال کی قیادت میں واشنگٹن میں 4 روزہ مذاکرات کامیابی سے مکمل کیے جس کے نتیجے میں ایک مفاہمتی معاہدہ طے پایا۔
یہ بھی پڑھیں: تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے پاکستانی وفد امریکا پہنچ رہا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
یہ معاہدہ پاکستانی برآمدات، خصوصاً ٹیکسٹائل اور زرعی مصنوعات پر امریکی محصولات میں نرمی سے متعلق ہے اور 9 جولائی 2025 سے قبل اسے حتمی شکل دیے جانے کی توقع ہے۔ اس معاہدے سے پاکستانی مصنوعات پر 29 فیصد اضافی ٹیرف کا خطرہ ٹل سکتا ہے جو پاکستانی معیشت کے لیے اہم ہے۔ مذکورہ ٹیرف کی شرح جی ایس پی پلس نظام کے متبادل کے طور پر لاگو کی گئی تھی۔
گزشتہ ماہ جون میں پاکستانی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک کے درمیان ورچوئل میٹنگ میں ایک ہفتے تک معاہدہ مکمل کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔ ماہرین معیشت کے مطابق اس معاہدے سے نہ صرف تجارت بڑھے گی بلکہ کان کنی، توانائی اور انفراسٹرکچر جیسے شعبوں میں امریکی سرمایہ کاری کے مواقع بھی کھلیں گے۔
دوطرفہ معاہدے میں زیرو ٹیرف، کرپٹو تعاون اور نایاب معدنیات جیسے امور بھی شامل ہیں جو دوطرفہ معاشی شراکت داری کو مضبوط کریں گے۔ تاہم اس معاہدے کا باضابطہ اعلان اس وقت ہوگا جب امریکا اپنے دیگر تجارتی شراکت داروں کے ساتھ مذاکرات مکمل کرلے گا۔
یہ معاہدہ پاکستان کے لیے اہم ہے کیونکہ سنہ 2024 میں پاکستان نے امریکا کو 5.
سینیئر ماہر معاشیات ڈاکٹر وقار احمد نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کو بہت مثبت پیشرفت سمجھتے ہیں اور ان تجارتی مذاکرات سے پاکستان کو فائدہ ملے گا۔
مزید پڑھیے: پاکستان کی امریکا کو زیرو ٹیرف پر مبنی دو طرفہ تجارتی معاہدے کی تجویز
مذاکرات کی موجودہ صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ درآمدی اور برآمدی آئٹمز جن پر ٹیرف کی نئی شرح کا اطلاق ہو گا ان کی نشاندہی ہو گئی ہے۔ امریکا کی پالیسی تو یہ رہی ہے کہ آپ ہماری شرائط مانیں یا چھوڑ دیں لیکن پاکستان اس انتظار میں ہے کہ امریکا ہمارے جیسے دیگر ممالک مثلاً بنگلہ دیش اور ویت نام وغیرہ کو خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبے میں کیا ریٹ دیتا ہے کیونکہ امریکا کو کی جانے والی پاکستانی برآمدات میں زیادہ حصّہ ٹیکسٹائل کا ہے۔
ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ اگر ان ممالک کو ہم سے کم ٹیرف ریٹ ملا تو ہم اس سلسلے میں بات کریں گے۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان کو چین اور آسیان ممالک سے 5 فیصد کم ریٹ ہی مِل رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستانی ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات امریکا میں چین کی نسبت 5 فیصد کم مہنگی ہوں گی۔ دوسرا یہ کہ دنیا بھر کے ممالک کی امریکا کے ساتھ تجارت متاثر ہونے سے پاکستان کے لیے تجارت بڑھانے کا موقع بن رہا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور بھارت کو بتا دیا تھا جنگ نہ روکنے پر امریکا آپ سے تجارت نہیں کرےگا، ڈونلڈ ٹرمپ
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ امریکا اگر ہمارے کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو مشینری اور کئی دیگر اشیا کی ذیل میں جو چیزیں پاکستان آئیں گی تو پاکستان میں امریکا سے دیگر مشینری درآمدات پر بھی اُسی شرح کا اطلاق ہو گا جس سے پاکستان کو فائدہ ملے گا۔
ڈاکٹر وقار احمد نے بتایا کہ اِن مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں چین پر بھی دباؤ بڑھے گا۔ مثال کے طور پر اس دفعہ حکومت نے چینی سولر پینل پر دس فیصد ڈیوٹی عائد کی ہے اب چین اگر پاکستان کو سولر پینل برآمدات جاری رکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے ہو گا کہ وہ اپنی قیمتیں کم کرے ورنہ پاکستانی مارکیٹ کسی اور ملک کو جا سکتی ہے۔ مجموعی طور پر پاک امریکا تجارتی مذاکرات ایک مثبت پیش رفت ہے۔
صدر ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدے کے نتائج کا اعلان ایک ساتھ کر سکتے ہیں، ڈاکٹر ساجد امینمعاشی تھنک ٹینک ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ساجد امین نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے ساتھ تجارتی معاہدہ ایک مثبت پیشرفت اور پاکستان کے حق میں ہے۔
ڈاکٹر ساجد امین نے کہا کہ باقی ممالک کی نسبت امریکا پاکستانی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے اور پاکستان نے امریکا کی جانب سے عائد کیے جانے والے ٹیرفس پر لچک کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ ہم امریکی ٹیرفس کو ایڈجسٹ کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا اس وقت بھارت کے ساتھ بھی تجارتی مذاکرات کر رہا ہے اور امریکی صدر دونوں ملکوں کے ساتھ تجارتی معاہدات کے نتائج کا اعلان ایک ساتھ کر سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے دونوں ملکوں کی جنگ رکوانے کے لیے تجارتی معاہدات کے استعمال کا ذکر کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: ٹیرف وار: کیا چین براستہ پاکستان امریکا سے تجارت کر سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ چین اور آسیان ممالک سے اگر پاکستان پر 5 فیصد کم ٹیرفس کا اطلاق کیا جاتا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ مذکورہ ممالک کی برآمدات بہت مختلف قسم کی ہیں اور وہ برآمدات میں ہمارے مدّمقابل نہیں لیکن پاکستان کی تجارتی معاہدات میں امریکا کے ساتھ بات چیت ایک مثبت پیشرفت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک امریکا تجارت پاک امریکا تجارتی مذاکرات پاک امریکا تجارتی معاہدہذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک امریکا تجارت پاک امریکا تجارتی مذاکرات پاک امریکا تجارتی معاہدہ پاک امریکا تجارتی پاک امریکا تجارت ڈاکٹر وقار احمد معاہدہ پاکستان تجارتی مذاکرات پاکستانی معیشت کے ساتھ تجارت پاکستان اور پاکستان کو سے پاکستان معاہدہ پاک پاکستان ا امریکا کے کہ امریکا اس معاہدے نے کہا کہ امریکا ا برا مدات انہوں نے سکتا ہے کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
لبنان دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہے، جوزف عون
اپنی ایک تقریر میں لبنانی صدر کا کہنا تھا کہ ہم نے جنگ کا زمانہ دیکھا اور ہم جانتے ہیں کہ اس راستے کے انتخاب نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ آج ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ مذاکرات اور سفارتکاری کی زبان اپنانے کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بیروت، لبنانی صدر "جوزف عون" نے قومی مفادات کے تحفظ کے لئے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں اسرائیل کے ساتھ بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔ اس وقت لبنان کے پاس مذاکرات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات اس وقت کئے جاتے ہیں جب دوسرا فریق، دوست یا اتحادی کی بجائے دشمن ہو۔ دوست کے ساتھ بات چیت کے لئے ثالثی یا معاہدے کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن دشمن کے ساتھ مذاکرات، افہام و تفہیم اور امن کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے لبنان کو درپیش گزشتہ چیلنجز کے نتائج کی جانب اشارہ کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ ہم نے جنگ کا زمانہ دیکھا اور ہم جانتے ہیں کہ اس راستے کے انتخاب نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ آج ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ مذاکرات اور سفارت کاری کی زبان اپنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایک پیشہ ور سیاستدان نہیں بلکہ ملک کی خدمت کرنے والے ایک عام آدمی ہیں۔ بعض لوگ لبنان کو ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں، حالانکہ لبنان ہے تو ہم ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے كہ اسرائیلی وزیر جنگ نے لبنان کے صدر جوزف عون پر جنگ بندی كے وعدوں پر عمل درآمد میں تاخیر کا الزام عائد کیا، حالانکہ صیہونی رژیم خود اسی معاہدے میں طے ہونے والی شرائط میں سے کسی ایک پر بھی عمل پیرا نہیں۔ دوسری جانب جوزف عون نے بھی جمعے کے روز اسرائیل پر یہ الزام عائد کیا کہ تل ابیب نے مذاکرات کی دعوت کے جواب میں، اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان سرحدی کشیدگی کئی ہفتوں سے جاری ہے، 2024ء کے آخر میں جنگ بندی کے اعلان کے باوجود، جنوبی لبنان پر روزانہ كی بنیاد پر صیہونی فضائی حملے جاری ہیں۔ اس صورت حال كے ساتھ ساتھ، امریکہ نے لبنانی حکومت پر حزب الله کو غیر مسلح کرنے کے لئے اپنا دباؤ بڑھا دیا ہے، جس کی حزب الله اور اس کے اتحادیوں نے سخت مخالفت کی۔ قبل ازیں صیہونی وزیر جنگ "یسرائیل کاٹس" نے خبردار کیا کہ اسرائیل، مستقبل میں حزب الله کے خلاف اپنے حملے تیز کر سکتا ہے۔