“بلاوجہ” الگ رہنے والی اہلیہ کو کفالت کا حق نہیں،بھارتی ہائی کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پریاگ راج: بھارتی الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک حکم جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو عورت بغیر کسی معقول وجہ کے اپنے شوہر اور سسرال والوں سے الگ رہنے کا انتخاب کرتی ہے، وہ کفالت کی حقدار نہیں ہے۔جمعہ کو ہائی کورٹ نے میرٹھ فیملی کورٹ کے شوہر اور بیوی کے درمیان جھگڑے میں بیوی کو ماہانہ کفالت دینے کے حکم کو پلٹ دیا۔
میرٹھ کے ایک رہائشی وپل اگروال کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے، جس نے فیملی کورٹ کے حکم کو چیلنج کیا تھا، جسٹس سبھاش چندر شرما نے یہ حکم دیا کہ اگر کوئی عورت بغیر کسی معقول وجہ کے شوہر سے دور رہتی ہے تو وہ کفالت کا دعوی نہیں کر سکتی۔اطلاعات کے مطابق اگروال کے وکیل رجت ایرن نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مو ¿کل کی بیوی نشا اگروال اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ ازدواجی گھر چھوڑ کر اپنے والدین کے گھر چلی گئی ہیں۔ بار بار کی درخواستوں اور ثالثی کی کوششوں کے باوجود، اس نے مبینہ طور پر واپس آنے سے انکار کر دیا۔
وکیل نے مزید دلیل دی کہ اہلیہ نے فیملی کورٹ میں سی آر پی سی کی دفعہ 125 کے تحت کفالت کا مقدمہ دائر کیا، جس میں خود اس کے الگ رہنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ملی۔اس کے باوجود، عدالت نے اسے خالصتاً ہمدردی کی بنیاد پر 8000 روپے ماہانہ دیا، جو اس نے دعویٰ کیا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 125(4) کی خلاف ورزی ہے۔ دلیل کے بعد ہائی کورٹ نے کہا کہ فیملی کورٹ کا حکم مینٹی ننس قانون کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ اس کے بعد اس نے 17 فروری کے حکم کو منسوخ کر دیا اور میرٹھ فیملی کورٹ کو اس معاملے پر دوبارہ غور کرنے کی ہدایت دی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فیملی کورٹ ہائی کورٹ
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ کا اہم فیصلہ: سابقہ میاں بیوی کے درمیان پلاٹ کی مشترکہ ملکیت برقرار، مہر اور زائد نان نفقہ کا دعویٰ مسترد
اسلام آباد(محمد ابراہیم عباسی )اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابقہ میاں بیوی کے درمیان جائیداد، مہر اور نان نفقہ کے تنازع پر فیملی کورٹ اور اپیلیٹ کورٹ کے فیصلوں کو برقرار رکھتے ہوئے تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ جسٹس ارباب محمد طاہر نے فریقین کی درخواستوں پر سماعت کی اور فیصلہ سناتے ہوئے سیدہ بنت زہرہ اور محمد اسماعیل کی درخواستیں خارج کر دیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ فیملی کورٹ اور اپیلیٹ کورٹ کے فیصلے مکمل طور پر قانون کے مطابق ہیں اور ان میں مداخلت کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ فیصلہ میں واضح کیا گیا کہ آئین کے تحت ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار محدود ہے اور یہ عدالت صرف اس وقت مداخلت کر سکتی ہے جب نچلی عدالتوں کے فیصلے قانون یا انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی پر مبنی ہوں۔
سیدہ بنت زہرہ نے فیملی کورٹ میں اپنے سابق شوہر محمد اسماعیل کے خلاف پچاس ہزار روپے ماہانہ نان نفقہ، پانچ لاکھ روپے بطور مہر اور اسلام آباد کے علاقے بی سترہ میں واقع پلاٹ کا دعویٰ دائر کیا تھا۔ خاتون نے نکاح نامے کے مخصوص کالمز اور ایک اقرار نامے کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ مذکورہ پلاٹ پر تعمیر ہونے والا گھر میاں بیوی کی مشترکہ ملکیت قرار پایا تھا۔
فیملی کورٹ نے تین ماہ کے لیے بیس ہزار روپے ماہانہ نان نفقہ کی ادائیگی کا حکم دیا، تاہم پانچ لاکھ روپے مہر کا دعویٰ مسترد کر دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ مہر کا دعویٰ ٹھوس شواہد سے ثابت نہیں ہوا، خصوصاً مدعیہ کے بھائی کی جانب سے تھانہ صدر راولپنڈی میں درج ایف آئی آر میں سونے کے زیورات اور دیگر اشیاء چھیننے کا الزام بھی شامل تھا، جو دعویٰ کو مشکوک بناتا ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ نکاح نامہ اور اقرار نامہ ایک سول معاہدہ ہیں اور ان کی شرائط دونوں فریقین پر برابر لاگو ہوتی ہیں۔ اسی بنیاد پر فیصلہ دیا گیا کہ اسلام آباد کے سیکٹر بی سترہ میں واقع مذکورہ جائیداد میاں بیوی کی مشترکہ ملکیت رہے گی۔
بعد ازاں دونوں فریقین نے فیملی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی، تاہم اپیلیٹ کورٹ نے بھی وہ اپیلیں خارج کر دیں۔ ہائیکورٹ نے بھی اس مؤقف کو تسلیم کیا کہ تحریری درخواست کو اپیل یا نظرثانی کا متبادل نہیں بنایا جا سکتا، اور شواہد کی بنیاد پر دیے گئے فیصلے ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں چیلنج نہیں کیے جا سکتے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ پلاٹ کی مشترکہ ملکیت سے متعلق دیا گیا فیصلہ بالکل درست اور قانون کے مطابق ہے، جبکہ نان نفقہ اور مہر سے متعلق شواہد کی روشنی میں نچلی عدالتوں کے فیصلے مکمل طور پر قابلِ اعتماد ہیں۔