ٓ معلومات ملتے ہی جلد از جلد مقدمہ کا درج کرنا ڈیوٹی افسر کی قانونی ذمہ داری ہے‘سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 جولائی2025ء)سپریم کورٹ نے پولیس رویے کے حوالے سے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ معلومات ملتے ہی جلد از جلد مقدمہ کا درج کرنا ڈیوٹی افسر کی قانونی ذمہ داری ہے۔ پولیس افسر مقدمہ کے اندراج سے انکار یا تاخیر نہیں کرسکتا۔ تاخیر کے ملزم اور مدعی پر اثرات ہوتے ہیں۔ تاخیر سے شواہد ضائع اور بے گناہ افراد کو شامل کرنے کا موقع ملتا ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق پولیس کا ایف آئی آر درج نہ کرنا آئینی خلاف ورزی ہے۔ پولیس کا تاخیر سے ایف آئی آر درج کرنا انصاف کی نفی ہے۔ سندھ میں ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کا رجحان تشویشناک ہے۔ ایف آئی آر میں تاخیر کمزور، غریب اور پسماندہ طبقے کے ساتھ ظلم ہے۔ پولیس طاقتور طبقے کی خدمت کر رہی ہے، عوام کی نہیں۔(جاری ہے)
جسٹس اطہر من اللہ نے پولیس رویے کے خلاف 30 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا، جس میں عدالت نے قتل کے ملزم سیتا رام کی بریت کی اپیل منظور کر لی۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ پراسیکیوشن ملزم کے خلاف شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی۔سپریم کورٹ نے کہاہے کہ قابل دست اندازی جرم میں مقدمہ کا اندراج لازم ہے۔ سندھ میں اکثر مقدمات کے اندراج میں تاخیر دیکھی گئی ہے۔ مقدمات کا اندراج اور تفتیش ایگزیکٹو عمل ہیں۔ مقدمات کا اندراج اور تفتیش فوجداری نظام کا اہم اور بنیادی جزو ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ پولیس فورس اور پولیس اسٹیشن عوام کی خدمت کے لیے ہیں۔ مقدمے میں آئی جی سندھ اور پراسیکیوٹر جنرل کی جانب سے رپورٹ بھی جمع کروائی گئی۔ جس میں دی گئی وجوہات میں ثقافتی طریقوں، شکایت کنندگان کی مصالحت کی کوششوں،مذہبی عقائد قانون کے مطابق نہیں۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس اسٹیٹ کا تاثر خطرناک ہے، ہمیں آئینی ریاست کی طرف جانا ہے۔ ہر پولیس افسر آئین کا سختی سے پابند ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں تمام صوبوں کے آئی جیز کو قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرلز ایس او پیز بنائیں اور عوامی اعتماد بحال کریں۔واضح رہے کہ سیتا رام پر چندر کمار کو 2018 میں قتل کرنے کا الزام تھا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ مدعی کے بروقت اطلاع کے باوجود مقدمہ 2 دن کی تاخیر سے درج ہوا۔ ایس ایچ او نے تسلیم کیا کہ اطلاع روزنامچہ میں تو درج کی، لیکن ایف آئی آر نہیں کی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سپریم کورٹ نے ایف ا ئی ا ر فیصلے میں میں کہا
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے ماہانہ خرچہ 25 ہزار مقرر کرنے کے فیصلے کیخلاف اپیل مسترد کردی
سپریم کورٹ میں مختلف فیملی میٹرز کے دوران چیف پاکستان نے اہم ریمارکس دیے جب کہ سپریم کورٹ نے ماہانہ خرچہ 25 ہزار مقرر کرنے کے فیصلے کیخلاف اپیل مسترد کردی۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ فیملی میٹرز میں معاوضوں کی ادائیگی کی اپیلیں سپریم کورٹ میں نہیں آنی چاہیے، نچلی عدالتیں معاوضہ طے کردیں معاملہ ختم ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاوضوں کی ادائیگیوں کی رقم میں سپریم کورٹ نہیں پڑے گی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ چھوٹے بچے کیلئے پچیس ہزار ماہانہ خرچہ بہت ذیادہ ہے، اس پرجسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ اپ کا اپنا بچہ ہے تو پچیس ہزار کچھ ذیادہ نہیں۔
عدالت نے ماہانہ خرچہ پچیس ہزار مقرر کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل مسترد کردی، چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔