Express News:
2025-07-12@01:56:23 GMT

ثالثی قانون اور جرگہ سسٹم

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

ثالثی ایک کم خرچ موثر طریقہ کار ہے جس پر عمل سے ملکی عدالتوں پر بھی مقدمات کا بوجھ کم ہوگا اور عام لوگوں کی پریشانیوں میں بھی کمی واقع ہوگی۔ لوگ عدالتی معاملات کے اخراجات سے بھی محفوظ رہیں گے اور ان کے معاملات ثالثی کے ذریعے جلد طے پا جایا کریں گے۔ اسی لیے بعض قانون دانوں کا موقف ہے کہ حکومت نئے ثالثی قانون کا جلد نفاذ یقینی بنائے جس کے ذریعے تنازعات کے حل کے معاشی فوائد بھی اہم ثابت ہوں گے۔

وفاقی سیکریٹری قانون نے بھی کہا ہے کہ عدالتوں سے مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے ثالثی ہی بروقت حل ہے۔ انھوں نے وزارت انصاف کے انٹرنیشنل میڈی ایشن اینڈ آربٹریشن سینٹر (آئی ایم اے سی) اور اے ڈی آر او ڈی آر انٹرنیشنل کے اشتراک سے 6 روزہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ایکریڈسٹیڈ میڈی ایشن پروگرام میں ثالثی کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ ملک کی عدالتوں پر بہت بڑا بوجھ ہے وہ صرف ثالثی کے ذریعے ہی حل ہونے کا واحد راستہ ہے۔

وفاقی وزیر برائے امورکشمیر،گلگت بلتستان اور سیفران امیر مقام کی زیر صدارت اجلاس میں ضم شدہ اضلاع میں جرگہ نظام کی بحالی کے سلسلے میں اعلیٰ سطح اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ عمائدین کو مشاورت میں شامل اور سسٹم کو آئین سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے۔

اس اہم اجلاس میں گورنر کے پی سمیت اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔ امیر مقام نے اجلاس میں کہا کہ جرگہ نظام میں عمائدین کے علاوہ قانونی ماہرین کو بھی مشاورت میں شامل اور عدالتی اور آئینی ڈھانچے سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ جرگہ سسٹم سے پولیس پر انحصار کم اور نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی ضروری ہے۔ اجلاس میں اس سلسلے میں ذیلی کمیٹی تشکیل دینے پر بھی اتفاق ہوا جب کہ آیندہ اجلاس میں مزید فیصلے متوقع ہیں۔

ملک بھر میں نچلی عدالتوں پر مختلف اہم اور معمولی تنازعات کے مقدمات کا بوجھ ہے اور ایسے لاکھوں ہی مقدمات سالوں سے سماعت اور فیصلوں کے منتظر ہیں اور ان مقدمات کی پیروی سینئر وکیلوں سے زیادہ جونیئر وکلا کر رہے ہیں جو ان کی کمائی کا واحد ذریعہ ہیں، اس لیے وہ مختلف تاخیری حربے استعمال کر کے مقدمات کو طول دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایسے مقدمات کے نچلی عدالتوں میں جلد فیصلے آنا شروع ہو جائیں تو عدالت آنے والے سائلین کی مقدمات کے جلد فیصلوں سے جان چھوٹ جائے گی اور مقدمات کو طوالت دینے والوں کی کمائی ختم ہو جائے گی۔ مقدمات کو طویل کرانے میں عدالتی عملہ بھی ملوث ہوتا ہے کیونکہ عدالتی عملے کو بھی مقدمے طوالت اختیارکرنے پر دونوں پارٹیوں سے پیسے ملتے ہیں۔ اس لیے مختلف وجوہات پر تاریخ پر تاریخ ملنے سے لوگ پریشان ہوں تو ہوں ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور دونوں کی کمائی جاری رہتی ہے۔

سینئر وکلا قتل و دیگر اہم مقدمات کی پیروی کرتے ہیں اور معمولی تنازعات و معاملات میں نہیں پڑتے جو جونیئر وکلا لے لیتے ہیں۔ بے روزگاری کے باعث جونیئر وکیلوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور سینئر وکلا کی تعداد جونیئرز سے کم ہے اس لیے وہ دباؤ میں رہتے ہیں ۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق نچلی عدالتوں میں ہزاروں جونیئر وکیل رجسٹرڈ تک نہیں ہیں مگر وہ عدالتوں میں پیش بھی ہوتے ہیں اور ان کا روزگار ٹھیک چل رہا ہے۔ سینئر وکیل لاکھوں روپے فیس لے کر اہم کیس لڑتے ہیں اور ہزاروں روپے فیس لے کر مقدمات لڑنے والے جونیئر وکلا نچلی عدالتوں میں پیروی کرتے ہیں۔

قانون دانوں کے مطابق ثالثی قانون کا نفاذ جلد یقینی بنانا چاہیے اور وفاقی وزیروں اور گورنر کے پی کے مطابق آئین کے مطابق ضم شدہ اضلاع میں جرگہ نظام ضروری ہے۔ ثالثی نظام اور جرگہ سسٹم کی اہمیت اعلیٰ سطح پر تسلیم بھی کی جا رہی ہے مگر حکومت اس طرف توجہ نہیں دے رہی کیونکہ وہ عدالتوں میں زیر سماعت سیاسی مقدمات میں پھنسی ہوئی ہے اور سیاسی فیصلے اعلیٰ عدلیہ اور لاکھوں دیگر مقدمات نچلی عدالتوں کے فیصلوں سے ہی طے ہونے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے ضلعی نظام حکومت میں یوسیز کو اہمیت حاصل تھی اور ہر یوسی میں پنچایت کمیٹی ہوتی تھی جس کے معاملات وفاقی وزارت بلدیات دیکھتی تھی اور 8 سالوں کی ضلعی حکومتوں میں یوسیز کی پنچایت کمیٹیوں نے معمولی نوعیت، طلاق و ازدواجی اور باہمی تنازعات لاکھوں کی تعداد میں نمٹائے اور پنچایت کمیٹیوں کے فیصلے سے مطمئن نہ ہونے والے ہی نچلی عدالتوں سے رجوع کرتے تھے اور نچلی عدالتوں میں مقدمات کی تعداد بھی کم تھی کیونکہ چھوٹے تنازعات یوسیز میں حل ہو جاتے تھے۔

اندرون ملک اب بھی قبائلی جرگوں میں فیصلے ہو رہے ہیں جہاں قبائلی جھگڑوں میں ہلاکتوں ہی کے مقدمات چلتے ہیں اور قبائلی سردار اور بااثر عمائدین تمام پارٹیوں کے اطمینان کے بعد فیصلے کرتے ہیں جو فیصلے ماننے کی پارٹیاں پابند ہوتی ہیں جہاں ذمے داروں پر بھاری جرمانے و دیگر فیصلے کیے جاتے ہیں جس سے قبائلی جھگڑوں اور خونریزی میں کمی آتی ہے مگر علاقہ پولیس جرگوں کے فیصلوں سے خوش نہیں ہوتی کیونکہ پولیس کی کمائی بند ہو جاتی ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ قتل و جھگڑوں کے فیصلے جرگوں میں ہوں۔ پولیس اپنی غیر قانونی پکڑ دھکڑ، جھوٹے مقدمات کے اندراج اور غیر متعلقہ گرفتاریوں سے بڑی رقم بطور رشوت لینے کی عادی ہے۔

تقریباً 38 سال قبل میرے آبائی شہر شکار پور میں ایک ڈسٹرکٹ سیشن جج اقبال حسین رضوی تعینات تھے جو فجر کی نماز کے بعد اپنی عدالت میں آ کر بیٹھ جاتے تھے اور باہمی جھگڑوں میں ملوث مقدمات کے فریقوں سے جھگڑوں کی معلومات حاصل کراتے انھیں سمجھاتے کہ مقدمات میں خواری اور پریشانی ہی ہوتی ہے۔

اس لیے باہمی تنازعات عدالتوں سے باہر ہی طے کر لیا کریں تاکہ ان کا مالی نقصان، وقت کا ضیاع نہ ہو اور انھوں نے لوگوں کو سمجھا کر ان میں صلح کرائی اور مقدمات واپس کرائے تھے مگر آج کے نچلی سطح کے ججز ایسے نہیں ہیں جن سے فیصلے سالوں میں اس لیے ہوتے کہ فیصلوں میں تاخیر پر ان سے کوئی جواب طلبی نہیں ہوتی اور مقدمات طول پکڑتے ہیں اس لیے اب یہاں تک کہا جاتا ہے کہ وکیل کے بجائے جج کر لیں۔ عدلیہ اور حکومت چاہے تو ثالثی اور جرگوں کے ذریعے عدالتوں سے بہت بڑا بوجھ کم کرا سکتی ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عدالتوں سے اجلاس میں مقدمات کے کے ذریعے کی کمائی کی تعداد کے مطابق ہیں اور اس لیے اور ان ہے اور

پڑھیں:

برطانیہ میں پوسٹ آفس کا ہورائزن اسکینڈل بے نقاب، دہائیوں پر محیط ناانصافی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہورائزن اسکینڈل برطانیہ کے پوسٹ آفس کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جس نے نہ صرف سینکڑوں معصوم ملازمین کی زندگیاں تباہ کیں بلکہ پورے نظام انصاف اور ٹیکنالوجی پر سوالیہ نشان لگا دیا۔

1999 میں جاپانی کمپنی فوجتسو کا تیار کردہ کمپیوٹر سسٹم ’ہورائزن‘ برطانیہ بھر کے پوسٹ آفسز میں متعارف کرایا گیا۔ اس سسٹم میں ایسی خامیاں تھیں جو پوسٹ ماسٹروں کے کھاتوں میں غلط طور پر مالی خسارے ظاہر کرتی تھیں۔ لیکن اس خرابی کو تکنیکی مسئلہ ماننے کے بجائے پوسٹ آفس نے ملازمین پر فراڈ، چوری اور بدعنوانی کے الزامات عائد کیے۔

اس سسٹم کی وجہ سے 900 سے زائد افراد کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا گیا، کئی افراد کو نوکری سے نکال دیا گیا، 236 کو جیل بھیج دیا گیا، کچھ نے بدنامی اور دباؤ کے باعث خودکشی کر لی، جبکہ درجنوں خاندان مالی طور پر تباہ ہو گئے۔ حیران کن طور پر انتظامیہ اور فوجتسو کو سسٹم کی خرابی کا علم تھا لیکن انہوں نے سچ چھپایا اور مظلوموں کو مجرم بنا دیا۔

ایک طویل قانونی جنگ کے بعد عدالت نے متاثرین کی بے گناہی تسلیم کی اور 2021 میں اس معاملے کی سرکاری سطح پر انکوائری کا آغاز ہوا۔ حالیہ رپورٹ میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کمپنی اور انتظامیہ دونوں نے دانستہ سچ چھپایا۔ حکومت نے متاثرہ افراد کو ایک ارب پاؤنڈ سے زائد کا معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے اور بیشتر افراد کو مقدمات سے بری بھی کر دیا گیا ہے۔

اس اسکینڈل پر بننے والی ڈرامہ سیریز ’Mr. Bates vs The Post Office‘ نے عالمی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کیا اور حکومت کو انصاف فراہم کرنے پر مجبور کیا۔ یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ جب سچ کو دبایا جاتا ہے اور نظام غلطی تسلیم کرنے سے انکار کر دے، تو اس کے نتائج صرف چند افراد نہیں بلکہ پوری قوم بھگتتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اندراجِ مقدمہ سے انکار یا تاخیر نہیں کی جا سکتی، سپریم کورٹ آف پاکستان
  • کسٹمز آکشن سسٹم کے ذریعے اسمگلڈ گاڑیوں کو قانونی حیثیت دینے کا انکشاف
  • ایف بی آر کا ای انوائسنگ سسٹم ٹیکس دہندگان کیلیے وبال جان بن گیا
  • چینی کمپنی نے مچھر ایئرڈیفنس سسٹم متعارف کروادیا
  • یوسف رضا گیلانی ٹڈاپ کرپشن اسکینڈل کے مزید 9 مقدمات سے بری
  • ملک ریاض کو عدالتوں میں سنگین مقدمات کا سامنا، اشتہاری قرار، ریڈ وارنٹ جاری
  • سسٹم میں رہ کر نہیں توڑ کر پاکستان کو بچائیں
  • برطانیہ میں پوسٹ آفس کا ہورائزن اسکینڈل بے نقاب، دہائیوں پر محیط ناانصافی
  • برطانیہ کا ہورائزن اسکینڈل