Jasarat News:
2025-07-12@05:22:38 GMT

نوجوان اور ڈی ہومینائیزیشن

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

نوجوان اور ڈی ہومینائیزیشن

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

انسان کی سب سے بڑی پہچان اس کی انسانیت ہے۔ یہی وصف اسے جانوروں سے الگ کرتا ہے اور یہی وصف اسے اس منصب تک لے جاتا ہے جہاں وہ اشرف المخلوقات کہلاتا ہے۔ مگر افسوس، آج کے نوجوان میں یہی جوہر تیزی سے زوال پذیر ہے۔ وہ جسمانی طور پر زندہ ہے، ذہنی طور پر سرگرم، مگر روحانی اور اخلاقی طور پر خالی ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک عالمی رجحان ہے، مگر ہمارے معاشرے میں یہ ایک مہلک بحران کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

عصرِ حاضر میں نوجوانوں کے سامنے سب کچھ ہے: علم، ٹیکنالوجی، مواقع، روابط، عالمی رسائی، لیکن سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ کسی گہرے خلا کا شکار ہے۔ اسے معلوم ہے کہ وہ کیا بننا چاہتا ہے، لیکن یہ نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ یہی بحران دراصل Dehumanization یا ’’انسانیت کی تنزلی‘‘ ہے۔ اور جب یہ کیفیت اس حد کو چھونے لگے کہ انسان اپنی ذات اور دوسروں کی ذات کو محض ایک آلہ، پروڈکٹ یا کارکردگی کی اکائی سمجھے تو یہ رجحان Dehumanization کہلاتا ہے۔ یعنی ایسا اندرونی زوال جہاں انسان، انسان ہونے سے انکار تو نہیں کرتا، مگر اس کا عملی ثبوت ضرور دیتا ہے۔ یہ رویہ محض ایک نفسیاتی یا سوشیالوجیکل اصطلاح نہیں، بلکہ ایک تہذیبی زوال کی علامت ہے۔ نوجوان جب رشتوں میں گہرائی کے بجائے سہولت تلاش کرتا ہے، جب وہ دوستی کو ڈیجیٹل لائکس سے ناپتا ہے، جب وہ کسی کی تکلیف کو محض ایک meme بنا دیتا ہے، یا جب وہ رونا بھی کیمرے کے سامنے چاہتا ہے، تو سمجھ لیجیے کہ انسانیت صرف لغت کا لفظ بن کر رہ گئی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر نوجوان اس انجام تک کیوں پہنچا؟ اس کے اسباب کثیر الجہتی ہیں۔ سب سے پہلا اور سب سے اہم سبب ہے: ڈیجیٹل تسلط۔ سوشل میڈیا، گیمنگ، اور مصنوعی ذہانت کی دنیا نے نوجوان کو حقیقت سے کاٹ کر ایک مجازی، غیر جذباتی، اور وقتی مسرّت پر مبنی زندگی میں دھکیل دیا ہے۔ وہ ہر وقت کسی نہ کسی اسکرین کے سامنے ہے، مگر خود سے کٹا ہوا ہے۔ حقیقی لمس، آواز، مکالمہ اور قربت — یہ سب لفظی یادگاریں بن چکی ہیں۔ دوسرا سبب ہے تعلیمی نظام، جو انسان سازی کے بجائے ’’پرفارمر‘‘ بنانے پر مرکوز ہے۔ نصاب سے روحانیت، اخلاق، اور مقصدِ زندگی جیسے موضوعات یا تو خارج کر دیے گئے ہیں یا اختیاری بنائے گئے ہیں۔ تعلیمی ادارے اب سوچنے والے انسان نہیں، کام کرنے والے مشین نما دماغ پیدا کر رہے ہیں، جن کی سب سے بڑی خوبی ان کا نمبر، CGPA یا انگریزی لب و لہجہ ہوتا ہے، نہ کہ ان کی بصیرت یا کردار۔ تیسرا اہم سبب معاشرتی نظام کی کھوکھلاہٹ ہے۔ خاندان، جو کبھی تربیت کا پہلا ادارہ ہوا کرتا تھا، اب محض رہائش کا انتظام بن چکا ہے۔ والدین، معاشی دوڑ میں الجھے ہوئے، بچوں کی تربیت کے لیے وقت نہیں نکال پاتے، اور نتیجتاً بچے انٹرنیٹ سے جینے کا طریقہ سیکھتے ہیں، جو صرف بھاگنا سکھاتا ہے، رکنا نہیں۔

اسلام نے انسان کو صرف جسم یا عقل نہیں، بلکہ ایک مکرم، متوازن اور ذمے دار مخلوق کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’ہم نے بنی آدم کو عزت دی‘‘۔ (الاسراء: 70) رسول اکرمؐ کی سیرت ایک کامل انسان کی سیرت ہے جو معاشرت، عبادت، سیاست، عدل، محبت، رحم، تعلیم، اور کردار میں کامل توازن کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میں اخلاق کے اعلیٰ معیاروں کو مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں‘‘۔ یعنی انسانیت، نبوت کی اصل دعوت ہے۔

اسلام کا تصور انسانیت محض ایک مصلحتی اخلاقیات نہیں، بلکہ فطرت، عقل، اور وحی کا جامع امتزاج ہے۔ دینِ اسلام میں ہر عبادت، ہر تعلیم، اور ہر حکم انسان کو اس کے ربّ سے جوڑنے کے ساتھ ساتھ انسانوں سے بھی جوڑتا ہے۔ روزہ صرف بھوک برداشت کرنے کا نام نہیں، بلکہ خود پر قابو پانے کا عمل ہے؛ زکوٰۃ صرف مالی عبادت نہیں، بلکہ غربت کے خلاف سماجی بغاوت ہے؛ اور نماز صرف قیام و رکوع نہیں، بلکہ وقت کی پابندی، طہارت، اجتماعیت اور بندگی کا سبق ہے۔ لیکن جب نوجوان اسلام کو صرف رسوم میں قید پا کر اپنی داخلی بھٹک سے نجات نہیں پاتا تو وہ یا تو اس دین سے دْور ہو جاتا ہے، یا پھر دین کو بھی ڈیجیٹل انداز میں صرف ’’دکھانے‘‘ کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ اس فکری بحران کو صرف دینیات کے لیکچر، یا سوشل میڈیا پر اسلامی پوسٹیں شیئر کرنے سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں ایک ایسی فکری تحریک درکار ہے جو نوجوان کو اس کی وجودی گمشدگی کا شعور دے۔ ہمیں تعلیمی اداروں میں ’’انسان سازی‘‘ کا مضمون بحال کرنا ہوگا۔ نصاب میں اخلاقیات، فلسفہ، مکالمہ، اور روحانیت کو شامل کرنا ہوگا۔ ہمیں میڈیا کو دعوت دینی ہوگی کہ وہ صرف دکھائے نہیں، سمجھائے بھی؛ صرف اشتعال نہ پھیلائے، شعور بھی بانٹے۔

خاندانی سطح پر والدین کو بچوں کے ساتھ وقت گزارنے، ان سے بات کرنے، ان کے سوالات سننے، اور ان کی جذباتی تربیت پر توجہ دینی ہوگی۔ نوجوانوں کے لیے ایسے تربیتی مراکز قائم کرنے ہوں گے جہاں وہ سیکھ سکیں کہ انسان ہونا کیا ہے؟ جذبات کی شناخت، تعلقات کی اہمیت، قربانی، ایثار، صبر، اور مکالمہ جیسے اوصاف کو باقاعدہ سکھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے خطبوں، نصاب، کانفرنسوں، سیمینارز، اور میڈیا مباحثوں میں Dehumanization جیسے جدید موضوعات کو اسلامی تناظر کے ساتھ شامل کرنا ہوگا، تاکہ نوجوان سمجھے کہ اسلام اسے صرف آخرت کی تیاری نہیں، بلکہ دنیا میں ایک بامقصد، بامروّت اور باشعور انسان بنانا چاہتا ہے۔ اگر ہم نے اس بحران کو نظر انداز کیا، تو ہم ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہوں گے جو معلومات سے لیس ہو گی، مگر شعور سے محروم؛ جو جسمانی طور پر صحت مند ہو گی، مگر جذباتی طور پر اپاہج، جو آواز رکھتی ہو گی، مگر دل خاموش ہوں گے۔ ایسی نسل قوم کا اثاثہ نہیں، بوجھ بن جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں اب فیصلہ کرنا ہے کہ ہم صرف ترقی چاہتے ہیں یا ترقی کے ساتھ انسانیت بھی؟ ہمیں ہنر مند چاہتے ہیں یا باکردار؟ ہمیں ذہین نوجوان چاہئیں یا رحم دل اور باشعور انسان؟ کیونکہ دنیا کا ہر المیہ یہیں سے شروع ہوتا ہے، جب انسان انسان نہ رہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: محض ایک کے ساتھ

پڑھیں:

سجاول، د و بچے نہر میں نہاتے ہوئے ڈوب گئے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سجاول(نمائندہ جسارت) ضلع سجاول میں دو الگ الگ واقعات میں دو بچے ڈہوب کر جانبحق ہوگئے رپسرٹ کے مطابق گذشتہ روز سجاول بدین روڈ پر گائوں نودو بارن کا رھائشی نوجوان 22 سالہ طفیل بارن نہر میں ڈوب کر فوت ہوگیا نوجوان کو سول اسپتال لایا گیا جہاں پر ڈیوٹی ڈاکٹر نے موت کی تصدیق کردی۔

متعلقہ مضامین

  • تنہائی، ایک خاموش قاتل
  • ہمیں ان کے گھر کا پتا معلوم نہ تھا، رابطہ نہ ہوسکا، حمیرا اصغر کے چچا کا بیان
  • ہمیں پولیس اسٹیٹ سے نکل کر آئینی ریاست کی طرف جانا ہوگا، سپریم کورٹ
  • ایمان و عمل صالح کے امتزاج سے انسان خوشحالی حاصل کرسکتا ہے، مولانا اصغر علی
  • انسانی زندگی میں فلسفے کا کردار اور اس کی تاریخی اہمیت
  • بلوچستان کے نوجوان کا مزدوری سے افسری تک کا سفر نوجوانوں کے لیے مشعل راہ
  • کراچی، ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ سے نوجوان جاں بحق
  • سجاول، د و بچے نہر میں نہاتے ہوئے ڈوب گئے
  • فلمی کردار جو ناظرین کی زندگیوں میں رچ بس گئے