Jasarat News:
2025-09-18@15:58:00 GMT

نوجوان اور ڈی ہومینائیزیشن

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

نوجوان اور ڈی ہومینائیزیشن

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

انسان کی سب سے بڑی پہچان اس کی انسانیت ہے۔ یہی وصف اسے جانوروں سے الگ کرتا ہے اور یہی وصف اسے اس منصب تک لے جاتا ہے جہاں وہ اشرف المخلوقات کہلاتا ہے۔ مگر افسوس، آج کے نوجوان میں یہی جوہر تیزی سے زوال پذیر ہے۔ وہ جسمانی طور پر زندہ ہے، ذہنی طور پر سرگرم، مگر روحانی اور اخلاقی طور پر خالی ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک عالمی رجحان ہے، مگر ہمارے معاشرے میں یہ ایک مہلک بحران کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

عصرِ حاضر میں نوجوانوں کے سامنے سب کچھ ہے: علم، ٹیکنالوجی، مواقع، روابط، عالمی رسائی، لیکن سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ کسی گہرے خلا کا شکار ہے۔ اسے معلوم ہے کہ وہ کیا بننا چاہتا ہے، لیکن یہ نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ یہی بحران دراصل Dehumanization یا ’’انسانیت کی تنزلی‘‘ ہے۔ اور جب یہ کیفیت اس حد کو چھونے لگے کہ انسان اپنی ذات اور دوسروں کی ذات کو محض ایک آلہ، پروڈکٹ یا کارکردگی کی اکائی سمجھے تو یہ رجحان Dehumanization کہلاتا ہے۔ یعنی ایسا اندرونی زوال جہاں انسان، انسان ہونے سے انکار تو نہیں کرتا، مگر اس کا عملی ثبوت ضرور دیتا ہے۔ یہ رویہ محض ایک نفسیاتی یا سوشیالوجیکل اصطلاح نہیں، بلکہ ایک تہذیبی زوال کی علامت ہے۔ نوجوان جب رشتوں میں گہرائی کے بجائے سہولت تلاش کرتا ہے، جب وہ دوستی کو ڈیجیٹل لائکس سے ناپتا ہے، جب وہ کسی کی تکلیف کو محض ایک meme بنا دیتا ہے، یا جب وہ رونا بھی کیمرے کے سامنے چاہتا ہے، تو سمجھ لیجیے کہ انسانیت صرف لغت کا لفظ بن کر رہ گئی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر نوجوان اس انجام تک کیوں پہنچا؟ اس کے اسباب کثیر الجہتی ہیں۔ سب سے پہلا اور سب سے اہم سبب ہے: ڈیجیٹل تسلط۔ سوشل میڈیا، گیمنگ، اور مصنوعی ذہانت کی دنیا نے نوجوان کو حقیقت سے کاٹ کر ایک مجازی، غیر جذباتی، اور وقتی مسرّت پر مبنی زندگی میں دھکیل دیا ہے۔ وہ ہر وقت کسی نہ کسی اسکرین کے سامنے ہے، مگر خود سے کٹا ہوا ہے۔ حقیقی لمس، آواز، مکالمہ اور قربت — یہ سب لفظی یادگاریں بن چکی ہیں۔ دوسرا سبب ہے تعلیمی نظام، جو انسان سازی کے بجائے ’’پرفارمر‘‘ بنانے پر مرکوز ہے۔ نصاب سے روحانیت، اخلاق، اور مقصدِ زندگی جیسے موضوعات یا تو خارج کر دیے گئے ہیں یا اختیاری بنائے گئے ہیں۔ تعلیمی ادارے اب سوچنے والے انسان نہیں، کام کرنے والے مشین نما دماغ پیدا کر رہے ہیں، جن کی سب سے بڑی خوبی ان کا نمبر، CGPA یا انگریزی لب و لہجہ ہوتا ہے، نہ کہ ان کی بصیرت یا کردار۔ تیسرا اہم سبب معاشرتی نظام کی کھوکھلاہٹ ہے۔ خاندان، جو کبھی تربیت کا پہلا ادارہ ہوا کرتا تھا، اب محض رہائش کا انتظام بن چکا ہے۔ والدین، معاشی دوڑ میں الجھے ہوئے، بچوں کی تربیت کے لیے وقت نہیں نکال پاتے، اور نتیجتاً بچے انٹرنیٹ سے جینے کا طریقہ سیکھتے ہیں، جو صرف بھاگنا سکھاتا ہے، رکنا نہیں۔

اسلام نے انسان کو صرف جسم یا عقل نہیں، بلکہ ایک مکرم، متوازن اور ذمے دار مخلوق کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’ہم نے بنی آدم کو عزت دی‘‘۔ (الاسراء: 70) رسول اکرمؐ کی سیرت ایک کامل انسان کی سیرت ہے جو معاشرت، عبادت، سیاست، عدل، محبت، رحم، تعلیم، اور کردار میں کامل توازن کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میں اخلاق کے اعلیٰ معیاروں کو مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں‘‘۔ یعنی انسانیت، نبوت کی اصل دعوت ہے۔

اسلام کا تصور انسانیت محض ایک مصلحتی اخلاقیات نہیں، بلکہ فطرت، عقل، اور وحی کا جامع امتزاج ہے۔ دینِ اسلام میں ہر عبادت، ہر تعلیم، اور ہر حکم انسان کو اس کے ربّ سے جوڑنے کے ساتھ ساتھ انسانوں سے بھی جوڑتا ہے۔ روزہ صرف بھوک برداشت کرنے کا نام نہیں، بلکہ خود پر قابو پانے کا عمل ہے؛ زکوٰۃ صرف مالی عبادت نہیں، بلکہ غربت کے خلاف سماجی بغاوت ہے؛ اور نماز صرف قیام و رکوع نہیں، بلکہ وقت کی پابندی، طہارت، اجتماعیت اور بندگی کا سبق ہے۔ لیکن جب نوجوان اسلام کو صرف رسوم میں قید پا کر اپنی داخلی بھٹک سے نجات نہیں پاتا تو وہ یا تو اس دین سے دْور ہو جاتا ہے، یا پھر دین کو بھی ڈیجیٹل انداز میں صرف ’’دکھانے‘‘ کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ اس فکری بحران کو صرف دینیات کے لیکچر، یا سوشل میڈیا پر اسلامی پوسٹیں شیئر کرنے سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں ایک ایسی فکری تحریک درکار ہے جو نوجوان کو اس کی وجودی گمشدگی کا شعور دے۔ ہمیں تعلیمی اداروں میں ’’انسان سازی‘‘ کا مضمون بحال کرنا ہوگا۔ نصاب میں اخلاقیات، فلسفہ، مکالمہ، اور روحانیت کو شامل کرنا ہوگا۔ ہمیں میڈیا کو دعوت دینی ہوگی کہ وہ صرف دکھائے نہیں، سمجھائے بھی؛ صرف اشتعال نہ پھیلائے، شعور بھی بانٹے۔

خاندانی سطح پر والدین کو بچوں کے ساتھ وقت گزارنے، ان سے بات کرنے، ان کے سوالات سننے، اور ان کی جذباتی تربیت پر توجہ دینی ہوگی۔ نوجوانوں کے لیے ایسے تربیتی مراکز قائم کرنے ہوں گے جہاں وہ سیکھ سکیں کہ انسان ہونا کیا ہے؟ جذبات کی شناخت، تعلقات کی اہمیت، قربانی، ایثار، صبر، اور مکالمہ جیسے اوصاف کو باقاعدہ سکھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے خطبوں، نصاب، کانفرنسوں، سیمینارز، اور میڈیا مباحثوں میں Dehumanization جیسے جدید موضوعات کو اسلامی تناظر کے ساتھ شامل کرنا ہوگا، تاکہ نوجوان سمجھے کہ اسلام اسے صرف آخرت کی تیاری نہیں، بلکہ دنیا میں ایک بامقصد، بامروّت اور باشعور انسان بنانا چاہتا ہے۔ اگر ہم نے اس بحران کو نظر انداز کیا، تو ہم ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہوں گے جو معلومات سے لیس ہو گی، مگر شعور سے محروم؛ جو جسمانی طور پر صحت مند ہو گی، مگر جذباتی طور پر اپاہج، جو آواز رکھتی ہو گی، مگر دل خاموش ہوں گے۔ ایسی نسل قوم کا اثاثہ نہیں، بوجھ بن جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں اب فیصلہ کرنا ہے کہ ہم صرف ترقی چاہتے ہیں یا ترقی کے ساتھ انسانیت بھی؟ ہمیں ہنر مند چاہتے ہیں یا باکردار؟ ہمیں ذہین نوجوان چاہئیں یا رحم دل اور باشعور انسان؟ کیونکہ دنیا کا ہر المیہ یہیں سے شروع ہوتا ہے، جب انسان انسان نہ رہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: محض ایک کے ساتھ

پڑھیں:

انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟

انسان کو سمجھنا ہمیشہ سے ایک معمہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں پہلے بھی لوگوں نے انسانی فطرت کو مختلف خانوں میں بانٹنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں: کتے انسانوں کے دوست کتنے ہزار سال پہلے بنے؟

شخصیت کو 4 بنیادی اقسام میں تقسیم کرنے کا ایسا ہی ایک قدیم نظریہ جسے ’4 مزاج‘ یا (فور ہیومرز) کہا جاتا ہے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے یونان میں متعارف ہوا لیکن اس کی گونج آج بھی جدید نفسیات میں سنائی دیتی ہے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس نظریے نے صدیوں تک نہ صرف طب، خوراک اور طرز زندگی کو متاثر کیا بلکہ انسان کے جذبات اور رویوں کو سمجھنے کا ایک مستقل ذریعہ بھی بن گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ سائنسی لحاظ سے اس کی بنیادیں اب غلط تسلیم کی جا چکی ہیں لیکن اس نظریے کی جھلک آج کے ماڈرن نفسیاتی ماڈلز میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

یونانی فلسفی ایمپیدوکلیز نے 4 عناصر زمین، پانی، ہوا اور آگ کو کائنات کی بنیاد قرار دیا اور بعد ازاں طبیب ہپوکریٹس نے اس سے متاثر ہوکر انسانی جسم کے اندر 4 مائعات کا نظریہ پیش کیا جو مندرجہ ذیل ہے۔

خون (Sanguine): خوش مزاج اور پُرجوش

بلغم (Phlegmatic): ٹھنڈے مزاج اور نرم طبیعت

پیلا صفرا (Choleric): غصیلا اور ضدی

سیاہ صفرا (Melancholic): افسردہ اور گہری سوچ رکھنے والا

مزید پڑھیے: 3 ہزار سال قبل یورپی باشندوں کی رنگت کیسی ہوتی تھی؟

ان مزاجوں کو جسم کی حرارت اور نمی کے ساتھ جوڑا گیا جیسے گرم و خشک مزاج والے چولیرک (Choleric) سمجھے گئے جبکہ سرد و مرطوب لوگ فلیگمیٹک (Phlegmatic) کہلائے۔

یہ نظام قرون وسطیٰ اور شیکسپیئر کے دور میں بھی رائج تھا۔ مثلاً شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے’دی ٹیمنگ آف دی شریو‘ میں کردار کیتھرین کے بگڑے رویے کو ’پیلے صفرے‘ کی زیادتی سے جوڑا گیا اور علاج کے طور پر اسے گرم کھانوں سے دور رکھا گیا۔

قدیم نظریہ، جدید عکس

19ویں صدی میں جسمانی تحقیق، خوردبین کی ایجاد اور جدید طب کے باعث 4 مزاجوں کا نظریہ سائنسی طور پر متروک ہو گیا لیکن اس کے اثرات باقی رہے۔

سنہ 1950 کی دہائی میں معروف ماہر نفسیات ہینس آیزنک نے شخصیت کے 2 بنیادی پہلو متعارف کرائے جن میں ایکسٹروورژن (باہر کی جانب رجحان) اور نیوروٹسزم (جذباتی بےچینی) شامل تھے۔

انہوں نے پایا کہ ان 2 عناصر کو مختلف انداز میں ملا کر جو 4 اقسام بنتی ہیں وہ حیرت انگیز طور پر قدیم مزاجوں سے میل کھاتی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں

زیادہ نیوروٹک + زیادہ ایکسٹروورٹ = چولیرک

زیادہ نیوروٹک + کم ایکسٹروورٹ = میلینکولک

کم نیوروٹک + زیادہ ایکسٹروورٹ = سینگوئن

کم نیوروٹک + کم ایکسٹروورٹ = فلیگمیٹک

یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ انسانی شخصیت میں کچھ مستقل پیٹرن موجود ہیں اب چاہے انہیں مزاج کہیں یا جدید سائنسی اصطلاحات۔

شخصیت کو زمرہ بنانا: فائدہ یا فریب؟

جدید ماڈل جیسے کہ ’بگ فائیو‘ جو شخصیت کی 5 بنیادی جہتوں (اوپننس، کانشسنیس، ایکسٹروورژن، اگری ایبلنس، نیوروٹسزم) پر مشتمل ہے۔ اب زیادہ سائنسی طور پر مستند سمجھے جاتے ہیں لیکن ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ ’کٹیگریز بنانے کی انسانی خواہش اب بھی موجود ہے جیسا کہ میئرز برگز یا آن لائن کوئزز سے ظاہر ہے۔

مزید پڑھیں: جرمنی کا صدیوں پرانا شاہ بلوط کا درخت پریمیوں کا پیغام رساں کیسے بنا؟

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ نظام بعض اوقات انسانی پیچیدگی کو بہت حد تک سادہ کر دیتے ہیں۔ درحقیقت زیادہ تر لوگ شخصیتی پیمائش میں اوسط کے قریب ہوتے ہیں اور کٹیگری سسٹم ان اختلافات کو مکمل طور پر نہیں سمجھا سکتا۔

لیکن جیسے شیکسپیئر ’چولیرک‘ اور ’سینگوئن‘ کرداروں سے محظوظ ہوتا تھا ویسے ہی آج کا انسان ’ٹائپ اے‘، ’ای این ٹی جے‘ یا ’ورگو‘ جیسی درجہ بندیوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔

ماہر نفسیات پامیلا رٹلج کہتی ہیں کہ انسانی فطرت میں درجہ بندی کی خواہش فطری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں دنیا کو سمجھنے، سیکھنے اور اس سے تعامل کرنے میں مدد دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اظہار محبت کے خفیہ اشارے: کیا ایموجیز صدیوں پرانے کوڈ ورڈز کا تسلسل ہیں؟

پامیلا کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ ہزاروں سال پرانا ہے لیکن آج بھی ہماری سوچ میں زندہ ہے۔

بہرحال 4 مزاجوں کا یہ قدیم نظریہ آج اگرچہ سائنسی طور پر مستند نہیں رہا لیکن یہ اس انسانی فطرت کی عکاسی ضرور کرتا ہے جو ہر دور میں خود کو، دوسروں کو اور دنیا کو سمجھنے کے لیے چیزوں کو خانوں میں بانٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ خواہ زبان بدلے یا نظریہ انسان کا یہ تجسس اور تلاش اور خود فہمی کی یہ جستجو آج بھی جاری ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

4 مزاج انسانی فطرت چار مزاج یونانی فلسفی ایمپیدوکلیز

متعلقہ مضامین

  • انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • لازوال عشق
  • ’کسی انسان کی اتنی تذلیل نہیں کی جاسکتی‘، ہوٹل میں خاتون کے رقص کی ویڈیو وائرل
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • بے حیائی پر مبنی پروگرامات کی تشہیر قابل مذمت ، ان کا مقصد ن نوجوان نسل کو گمراہ کرنا ہے‘ جاوید قصوری
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • کوویڈ کے دوران بابا نے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں دھمکیاں موصول ہوئیں: تارا محمود