ایمان و عمل صالح کے امتزاج سے انسان خوشحالی حاصل کرسکتا ہے، مولانا اصغر علی
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) الحرمین اسلامک انسٹیٹیوٹ مٹھی تھر پارکر کے سرپرست اعلیٰ فضیلة الشیخ مولانا اصغر علی سمیجو نے کہا ہے کہ ایمان واعمال سے فقط آخرت ہی نہیں بلکہ اللہ تعالی نے دنیا میں بھی عمدہ اور پاکیزہ زندگی نصیب کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ ایمان، یعنی اللہ پر اسکے رسولوں پر اسکے فرشتوں پراس کی طرف سے نازل شدہ کتابوں پر قیامت کے دن پر اچھی اور بری تقدیر پر اس طرح پختہ یقین رکھنا جس طرح اللہ نے اپنی کتاب میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامین میں بیان فرمایا ہے اور اسی پختہ ایمان کی بنیاد پر اعمال صالحہ کی عمارت کھڑی ہوتی
ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامع محمدی مسجد اہلحدیث قلعہ دروازہ حیدرآباد میں ”ایمان و عمل صالح “کے عنوان پر دنیاوی و آخروی فوائد وبرکات کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔مولانا اصغر علی سمیجو نے مزید کہاکہ اعمال صالحہ سے مراد شریعت کے سارے احکامات میں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اعمال کو بجا لانے کا حکم دیا ان میں اسی طرح اطاعت کرنا اور خالص اللہ کی رضا کے لیے بجا لانا اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے ہم مسلمان بازآجائیں ۔ایمان و عمل صالح دونوں کے امتزاج سے انسان دنیا میں اطمینان اور خوشحالی حاصل کرتا ہے اور آخرت میں جنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایمان اور نیک اعمال انسان کے دل کو سکون اور اطمینان بخشتے ہیں، اس سے ذہنی انتشار اور بے چینی دور ہوتی ہے،ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے انسان زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کرتا ہے اور خوشحال رہتا ہے۔ایمان اور عمل صالح رکھنے والے لوگوں کی اللہ ہر مشکل میں مدد کرتا ہے،ایمان اور عمل صالح کرنے والے افراد کو اللہ جنت میں داخل کرے گا جبکہ ایمان انسان کو نیک اعمال کرنے کی تحریک دیتا ہے اور عمل صالح ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔انہوںنے کہا کہ دنیا میں ایمان اور عمل صالح کے ذریعے انسان اطمینان اور خوشحالی حاصل کرتا ہے اور آخرت میں جنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایمان اور عمل صالح کرتا ہے ہے اور
پڑھیں:
انسانی زندگی میں فلسفے کا کردار اور اس کی تاریخی اہمیت
فلسفہ انسانی شعور کی گہرائیوں میں اترنے کائنات، انسان اور زندگی کے بنیادی سوالات کے جوابات تلاش کرنے کا علم ہے۔ یہ ایک ایسا علم ہے جو نہ صرف عقل و منطق کو بروئے کار لاتا ہے بلکہ اخلاق، وجود، علم، سیاست، مذہب اور فنون جیسے شعبوں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ فلسفہ محض خیالی قیاسات نہیں بلکہ انسانی رویوں، اقدار، روایات، معاشرتی ڈھانچوں اور علمی ترقی کے لیے ایک مضبوط فکری بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ فلسفے کا انسانی زندگی میں کیا کردار ہے ؟فلسفہ انسان کو اپنی ذات کے شعور کی طرف مائل کرتا ہے ، یہ انسان کے اندر سوال پیدا کرتا ہے کہ’’میں کون ہوں؟‘‘، ’’میری اصل کیا ہے؟‘‘ اور ’’مجھے کن راستوں پر چلنا ہے؟‘‘ یہ سوالات فرد کی شخصیت میں گہرائی، سنجیدگی اور خودی کا شعور پیدا کرتے ہیں۔
فلسفے کا دوسرا مقصد انسان کے اخلاقی معیار کی تشکیل ہے۔اخلاقیات یا علمِ اخلاق فلسفے کی ایک اہم شاخ ہے جو اچھے اور برے، صحیح اور غلط کی تمیز میں مدد دیتی ہے۔ زندگی میں فیصلے کرتے وقت فلسفیانہ سوچ انسان کو انصاف، ہمدردی اور حق پسندی کی طرف مائل کرتی ہے اور یہ کہ فلسفہ انسان کی عقلی اور تنقیدی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے ۔جس کی وجہ سے انسان محض تقلید ہی نہیں کرتا بلکہ دلائل، شواہد اور استدلال کی روش اپناتا ہے۔ یہ تنقیدی سوچ معاشرے میں سچ اور جھوٹ، حقیقت اور فریب کے درمیان فرق کرنے میں مدد دیتی ہے۔
فلسفہ معاشرتی فہم اور اصلاح کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ معاشرتی ڈھانچوں، قوانین، ریاست، عدل و انصاف اور آزادی جیسے موضوعات کا گہرائی سے مطالعہ کرتا ہے۔ افلاطون، ارسطو، ہیگل، اور ابن خلدون جیسے فلسفیوں نے معاشرتی اور سیاسی نظریات پیش کیے جو آج بھی دنیا بھر کے نظاموں میں اثرانداز ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی جڑیں فلسفے میں پیوستہ ہیں۔ طبیعیات، حیاتیات، منطق، اور ریاضیات کے ابتدائی تصورات فلسفیوں نے ہی پیش کیے تھے۔ دیکارٹ، کانٹ، اور برکلے جیسے فلسفیوں کے افکار سائنسی طریقہ کار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
فلسفے کی تاریخی اہمیت:فلسفے کی بنیادیں قدیم یونان میں رکھی گئیں۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو نے اخلاقیات، سیاست، منطق اور علمیات کے ایسے تصورات پیش کیے جو صدیوں تک مغربی فکر پر غالب رہے۔8ویں سے 12ویں صدی عیسوی کے درمیان مسلم دنیا میں فلسفے نے زبردست ترقی کی۔ فارابی، ابن سینا، ابن رشد، الکندی اور الغزالی جیسے فلسفیوں نے یونانی فلسفے کو اسلامی فکر سے ہم آہنگ کیا اور نئی فکری راہیں کھولیں۔
یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے دور میں فلسفہ سائنسی ترقی، انسانی آزادی، اور عقلی تحریک کا بنیادی ذریعہ بنا۔ جدید مغربی فلسفہ ڈیکارٹ، ہیوم، کانٹ، اور ہیگل جیسے مفکرین کی بدولت ارتقا پذیر ہوا۔مارکس، نطشے، سارتر، فوکو اور ڈیریدا جیسے فلسفیوں نے جدید معاشروں کے مسائل، اقتدار، شناخت، اور وجود کے نئے پہلوئوں کو اجاگر کیا۔ وجودیت (Existentialism)، ردتشکیلیت (Deconstruction) اور تنقیدی نظریات (Critical Theories) نے انسانی زندگی کے نئے امکانات کو نمایاں کیا۔
فلسفہ انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے کیونکہ یہ ہمیں سوچنے، سمجھنے اور خود کو دریافت کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ فلسفہ صرف ماضی کی دانش نہیں، بلکہ حال کی بصیرت اور مستقبل کی رہنمائی بھی ہے۔ اگرچہ عام انسان شاید فلسفے کے دقیق مباحث میں نہ اترے، مگر اس کی روزمرہ زندگی، فیصلوں،رویوں اور اقدار میں فلسفے کے اثرات نمایاں طور پر ہوتے ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ فلسفہ انسانی تہذیب کی روح ہے۔یہاں ایک فکری سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب علم کی پیاس بجھانے کے لئے دنیا میں عظیم جامعات نہیں تھیں تب انسان کے فلسفیانہ مسائل کی نوعیت کیا تھی ؟یہ سوال ہماری توجہ انسانی شعور کی سطح کی بلندی یا پستی کے بارے میں سوچنے اور تعبیرات پر دھیان کی طرف راغب کرتا ہے کہ تب انسان کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات کہاں تلاش کئے جاتے تھے ، تو ہم ان سوالات کی نوعیت، دائرے اور اس دور کی زندگی پر غور کرتے ہیں کہ اظہار کے ذرائع کیا تھے اور اس دور کی زندگی کا تعلق اپنے ماحول سے کس قدر توانا یا کمزور تھا ۔جب انسان کچھ خود شناس ہوا تو کائنات ، زمین و آسمان،بارش، زلزلوں ،چاند ،سورج اورموت و حیات کو سمجھنے کی جستجو کن مظاہر کی روشنی میں کرتا تھا۔چونکہ ان دنوں سائنسی اور منطقی بنیادوں کا ظہور تو نہیں ہوا تھا۔شاید ان سب کے ادراک کے لئے ہی اس نے ماورائی قوتوں ، دیوی ،دیوتاں یا روحانی عناصر کا فرضی تصورقائم کر لیا۔
اس دور میں فلسفہ یا مذہب بھی شاید جادوئی روایتوں سے جڑے ہوئے تھے !بارش کیوں اور کیسے ہوتی ہے؟سورج کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے ؟اور موت کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ انسان نے جب پہلی بار خود کوشعور کی روشی میں محسوس کیا تو سب سے پہلے اپنے ہی بارے خود سے سوال کیا میں کون ہوں ؟ میں کہاں سے آیا ہوں ؟ میری آخری منزل کونسی ہے؟
پھر جب انسان نے قبیلوں اور گروہوں کی صورت میں رہنا شروع کیا تو جھوٹ، سچ ،عدل وانصاف اور وفا و بے وفائی کے سوال اس کے روبرو کھڑے ہوگئے ،جو معاشرتی زندگی کا لازمہ تھے۔ان سب میں خوف اور حیرت بنیادی محرکات تھے اور یہ حیرت ہی تھی جس سے فلسفہ پیدا ہوا۔ حیرت اور خوف کے ابتدائی فلسفیانہ اور مذہبی بیانیئے کو جنم دیا۔یوں بغیر اداروں کے نسل در نسل ، کہانیوں شاعری اور ضرب الامثال اور قبائلی سیانوں کے ذریعے علم منتقل ہونا شروع ہوگیا۔ابتدا میں فلسفہ عام طور پر علامتی انداز میں ظہور پذیر ہوا‘ ہندووید، مصری دیو مالا اوریونانی اساطیر کا بھی اس میں بہت عمل دخل ہے۔
اداروں یا جامعات سے پہلے فلسفہ تحریر ی شکل میں نہیں تھا بلکہ تجربات ،عقائد،روایاتواور حکمت کی آمیزش کے طور پر موجود تھا۔یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ انسانی تاریخ سے بھی کہنہ علم ہے اور انسان کی بصیرت آفروزی میں اس کا کردار کلیدی ہے ۔اس کے مفاہیم مقاصد ،ماہیت، دائرہ کار اور اظہار کے وسیلے ابتدا سے اب تک تغیر سے جڑے ہوئے ہیں اور فلسفے کی اسی جہت کی وجہ سے اہل علم اسے سائنس سے تعبیر کرنے میں کوئی قباحت نہیں گردانتے ۔