Jasarat News:
2025-11-03@02:42:38 GMT

غز وہ ٔ خیبر

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

چودہ سو برس قبل مدینہ منورہ کے شمال میں 100میل دور ایک شہر خیبر واقع تھا۔ یہاںقلعے اور کھیتیاں کثیر تعداد میں تھیں اور یہاں یہودی آباد تھے۔ رسول اکرمؐ جب جنگ احزاب کے نتیجے میں قریش مکہ کو سبق سکھانے سے فارغ ہوئے تو انھوں نے خیبر کے یہودیوں اور نجد کے قبائل سے بھی نمٹنا ضروری سمجھا تاکہ پورا خطہ امن وسلامتی کا گہوارہ بن جائے اور اسلام کے علمبردار اطمینان وسکون اور یکسوئی سے اللہ کا پیغام ساری دنیا کے انسانوں تک پہچانے میں مصروف ہوسکیں۔

رسول اکرمؐ کی نگاہ انتخاب سب سے پہلے خیبر پر پڑی کیونکہ یہاں کے لوگ سازشوں اور قبائل کو لڑانے بھڑانے کا خوب کام کرتے تھے۔ یہ اہل خیبر ہی تھے جنھوں نے جنگ خندق میں مشرکین کے تمام گروہوں کو مسلمانوں پر چڑھائی کرنے کے لیے ابھارا، پھر بنوقریضہ کو اسلامی ریاست مدینہ سے غداری پر آمادہ کیا تھا۔ یہ لوگ منافقین یعنی بنو غطفان اور بدووں سے مکمل رابطے میں تھے۔ اسی دوران اہل خیبر خود بھی مسلمانوں سے بڑی جنگ کرنے کی تیاری کرتے رہے تھے۔ ان کی مختلف کارروائیاں مسلمانوں کے لیے مسائل پیدا کر رہی تھیں۔ انھوں نے رسول اکرمؐ کو شہید کرنے کا منصوبہ بھی تیار کیا۔
مسلمان ان فتنہ پروروں کی سرکوبی کے لیے مختلف چھوٹی مہمات ترتیب دیتے رہے تھے تاہم بڑی مہم اس لیے شروع نہیں کررہے تھے کہ ابھی سب سے بڑے دشمن گروہ قریش سے نمٹنا تھا۔ رسول اکرمؐ نے حدیبیہ سے واپسی پرذی الحج کا پورا مہینہ اور محرم کے ابتدائی چند روز مدینہ میں گزارے، پھر اللہ کے حکم سے اپنے لشکر میں لوگوں کو خوب چھان پھٹک کر شامل کیا اور کسی منافق کو قریب بھی نہیں پھٹکنے نہ دیا۔ صرف وہی 1400 افراد شریک سفر ہوئے جنھوں نے حدیبیہ میں درخت کے نیچے بیعت رضوان کی تھی۔ اس کے بعد خیبر کی طرف چل پڑے۔ پیچھے سے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے اہل خیبر کو فوراً اطلاع کردی کہ ’’اب محمدؐ نے تمہاری طرف رخ کیا ہے لہذا چوکنا ہوجائو، تیاری کرلو اور دیکھنا ڈرنا نہیں کیونکہ تمہاری تعداد اور تمہارا سازوسامان زیادہ ہے اور محمدؐ کے رفقا بہت تھوڑے اور تہی دست ہیں اور ان کے پاس ہتھیار بھی بس تھوڑے ہی سے ہیں‘‘۔

اطلاع ملنے پر یہودیوں نے فوراً بنوغطفان سے مدد طلب کی اور انھیں پیشکش کی کہ اگر مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہوگیا تو خیبر کی پیداوار کا نصف انھیں دیا جائے گا۔ لالچ کے مارے بنوغطفان فوراً یہودیوں کی مدد کے لیے خیبر کی طرف بھاگ اٹھے۔ ان کا لشکر روانہ ہوا ہی تھا کہ انھیں اپنے علاقے میں کچھ شور سنائی دیا۔ انھوں نے سمجھا کہ مسلمانوں نے ان کے بال بچوں اور مویشیوں پر حملہ کردیا ہے۔ چنانچہ وہ یہودیوں کی مدد کا ارادہ ترک کرکے واپس لوٹ آئے۔ خیبر میں داخلے کے لیے دو راستے تھے۔ اول: مدینہ سے سیدھے خیبر، دوم: شام کی طرف سے۔ رسول اکرمؐ نے دوسرا راستہ اختیارکیا تاکہ مسلمانوں کا لشکر بنوغطفان اور یہودیوں کے درمیان ہو اور بنوغطفان یہودیوں کی مدد کے لیے نہ آسکیں اور یہودی علاقہ چھوڑ کر شام کی طرف نہ فرار ہوسکیں۔
یہودیوں نے لشکر اسلامی کے خیبر پہنچنے کا جو حساب کتاب لگا رکھا تھا، مسلمان اس سے بہت پہلے ان کے سروں پر پہنچ گئے۔ اہل خیبر اپنا ساز وسامان لے کر اپنے کھیتوں کی طرف روانہ ہورہے تھے کہ انھوں نے اسلامی لشکر دیکھا، وہ خوب بدحواس ہوئے، چیخیں مارتے ہوئے اپنے شہر کی طرف بھاگے کہ خدا کی قسم! محمدؐ اپنے لشکر سمیت پہنچ گئے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’اللہ اکبر، خیبر تباہ ہوا۔ اللہ اکبر خیبر تباہ ہوا۔ جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر پڑتے ہیں تو ان ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہوجاتی ہے۔

جب لشکر خیبر کے اس قدر قریب پہنچا کہ شہر نظر آنے لگا تو آپؐ نے ایک مقام پر ٹھہر کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور پھر لشکر کو بسم اللہ پڑھ کر پیش قدمی کا حکم دیا۔ لشکر رات گئے خیبر کے مزید قریب پہنچ گیا۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’میں کل جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسولؐ اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ اگلی صبح ہر کوئی تمنا کررہا تھا کہ جھنڈا اسے ہی ملے گا۔ رسول اکرمؐ نے سیدنا علیؓ کی بابت استفسار فرمایا۔ لوگوں نے کہا کہ ان کی آنکھ دکھ رہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’انھیں بلا لائو‘‘۔ سیدنا علیؓ خدمت اقدسؐ میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھ پر لگایا، آنکھ فوراً اس طرح شفایاب ہوگئی، گویا کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ اس کے بعد آپؐ نے انھیں کچھ ہدایات دے کر جھنڈا تھمادیا۔
خیبر کا علاقہ دوحصوں پر مشتمل تھا۔ پہلے حصے میں قابل ذکر پانچ قلعے تھے جبکہ دوسرے میں تین۔ ان کے علاوہ بھی کچھ مزید قلعے اور بستیاں بھی تھیں۔ جنگ پہلے حصے میں ہوئی۔ مسلمانوں نے سب سے پہلے قلعہ ناعم پر حملہ کیا۔ یہ یہودیوں کی دفاعی لائن کی حیثیت رکھتا تھا اور مرحب نامی شہ زور کا تھا۔ اسے ایک ہزار مردوں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ مرحب اپنے لشکریوں کے ساتھ اسلامی لشکر کے سامنے آکھڑا ہوا۔ سیدنا علیؓ نے اسے اسلام کی دعوت دی جو اس نے مسترد کرتے ہوئے دعوت مبارزت دی۔ سیدنا عامرؓ مرحب کے مقابل میدان میں اترے، وہ چھوٹے قد کے تھے۔ انھوں نے مرحب کی پنڈلی پر وار کیا تو تلوار کا سرا پلٹ کر ان کے اپنے گھٹنے پر آلگا۔ ان کے زخمی ہونے کے بعد سیدنا علیؓ میدان میں اترے اور انھوں نے مرحب کا خاتمہ کردیا۔ اس کے بعد فریقین کے درمیان ایک طویل لڑائی ہوئی۔

جب یہودی بھرپور مزاحمت کے باوجود مسلمانوں کو پیچھے نہ دھکیل سکے تو انھوں نے خفیہ راستوں سے آہستہ آہستہ ایک دوسرے قلعہ صعب کی طرف بھاگنا شروع کردیا۔ مسلمانوں نے قلعہ ناعم پر قبضہ کرنے کے بعد قلعہ صعب کا محاصرہ کر لیا۔ اسے تین روز تک گھیرے رکھا۔ بالآخر یہاں بھی لڑائی ہوئی اور مسلمان فاتح ہوئے۔ اگلا قلعہ زبیر پہاڑی کی چوٹی پر واقع تھا۔ یہاں سواروں اور پیادوں کو رسائی حاصل کرنے میں مشکل پیش آئی۔ اس کے محاصرے کو تین دن گزرے تو ایک یہودی نے آکر رسول اکرمؐ سے کہاکہ آپؐ ایک مہینہ بھی محاصرہ کرلیں تو کامیابی نہیں حاصل کرسکتے۔ البتہ قلعے کے لوگ پانی لینے کے لیے نیچے چشموں کا رخ کرتے ہیں، پانی بند کر دیا جائے تو یہ گھٹنے ٹیک دیں گے۔ رسول اکرمؐ نے لشکریوں کو چشموں پر قابض ہونے کا حکم دیا تو قلعے والے لڑائی پر اترآئے لیکن لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلنے پر مجبور ہوگئے۔
قلعہ زبیر سے بھاگنے والوں نے قلعہ اُبی میں پناہ لی۔ اس کا بھی محاصرہ ہوا، لڑائی ہوئی اور مسلمان فاتح ہوئے۔ یہاں سے بھاگنے والے یہودی قلعہ نزار میں اس یقین سے چھپ گئے کہ مسلمان کسی بھی صورت میں اس قلعے پر کبھی قابض نہیں ہوسکتے۔ تاہم مسلمانوں نے اسے بھی فتح کیا، اس کے بعد خیبر کا باقی علاقہ معمولی لڑائی یا پھر مذاکرات کے نتیجے میں مسلمانوںکے ہاتھ آگیا۔ باقی ماندہ یہودی سرداروں نے اس شرط پر مسلمانوں سے صلح کرلی کہ ان کی فوج کی جان بخشی کردی جائے گی، ان کے بال بچے انہی کے پاس رہیں گے یعنی انھیں لونڈی اور غلام نہیں بنایا جائے گا۔ وہ اپنے بال بچوں کو لے کر خیبر کی سرزمین سے نکل جائیں گے اور اپنے اموال، باغات، زمینیں، سونے، چاندی، گھوڑے، زرہیں، رسول اللہ کے حوالے کردیں گے، صرف اتنا کپڑا لے جائیں گے جتنا ایک انسان کی پشت اٹھاسکے۔ رسول اللہ نے فرمایا: ’’اگر تم لوگوں نے مجھ سے کچھ چھپایا تو پھر اللہ اور اس کے رسولؐ بری الذمہ ہوں گے‘‘۔

اس جنگ میں 16 مسلمان شہید ہوئے جبکہ یہودی مقتولین کی تعداد 93 تھی۔ خیبر کی فتح پر غیرمعمولی مقدار میں مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔ قیدیوں میں ایک مقتول یہودی سردار کی دلہن صفیہ سمیت بہت سی عورتیں بھی شامل تھیں۔ صفیہ اسلام قبول کرکے رسول اکرمؐ کی زوجیت میں آئیں اور ام المومنینؓ بن گئیں۔ اسی اثنا میں ایک یہودی خاتون نے زہر آلود گوشت پیش کرکے رسول اکرمؐ کو شہید کرنے کی سازش کی، آپؐ نے ایک لقمہ منہ میں ڈالا لیکن زہریلا محسوس کرکے اگل دیا۔ یہودی خاتون کو طلب کیاگیا، اس نے یہ کہتے ہوئے اقرار جرم کیا: ’’میں نے سوچا کہ اگر یہ بادشاہ ہے تو ہمیں اس سے راحت مل جائے گی اور اگر نبی ہے تو اسے خبر دیدی جائے گی۔ اس پر آپؐ نے اسے معاف کردیا۔
فتح خیبر محرم الحرام میں ہی ہوئی تاہم اس کی صحیح تاریخ کے بارے میں مورخین خاموش ہیں۔ اس فتح کے بعد اردگرد کے علاقے بھی مسلمانوں نے فتح کیے۔اس طویل مہم سے مدینہ میں واپسی صفر کے اواخر یاربیع الاول کے اوائل میں ہوئی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: یہودیوں کی رسول اکرم نے فرمایا سیدنا علی اس کے بعد اہل خیبر انھوں نے خیبر کی کے رسول اور اس کی طرف کے لیے

پڑھیں:

تجدید وتجدّْ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-9

 

4

مفتی منیب الرحمن

اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔

معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔

ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔

قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔

اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔

ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • عاشقان رسولﷺ کو غازی علم دین کے راستے کو اپنانا ہوگا، مفتی طاہر مکی
  • نیشنل لیبر فیڈریشن خیبر پختونخوا وسطی کا اجلاس
  • بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان
  • تجدید وتجدّْ
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • کشمیر کی آزادی ناگزیر، بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کا بازار گرم ہے: صدر مملکت
  • بھارت میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں پر مظالم جاری ہیں، مقبوضہ کشمیر کی آزادی وقت کی ضرورت ہے، صدر مملکت
  • کشمیر کی آزادی ناگزیر، بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کا بازار گرم ہے: صدر مملکت
  • غازی علم الدین شہید کا کارنامہ جرأت مند ی کا نشان ہے‘جماعت اہلسنت