اداکارہ تنہائی سے مری، خودکشی کی یا قتل ہوئی؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
میں دوستوں کو مغربی معاشروں میں مرتی ہوئی انسانی اقدار کی کہانیاں سنایا کرتا تھا۔ پہلے کراچی میں اداکارہ عائشہ خان کی موت ہوئی اور اس پر لکھا۔ اس واقعہ کا ایک ہفتہ بعد ہی پتہ چل گیا تھا۔ اب اداکارہ حمیرا علی کی موت بھی تنہائی میں ہوئی۔ اس کے بارے پہلے کہا گیا کہ اس کی موت ایک ماہ قبل ہوئی۔ پھر خوفناک حد تک ایس ایس پی جنوبی مہروز علی نے کہا کہ، “اب تک ہونے والی تحقیقات کی روشنی میں امکان ظاہر ہوا ہے کہ حمیرا اصغر کی لاش ممکنہ طور پر 6 ماہ سے زائد پرانی لگتی ہے۔’’اس سے بھی بڑا خطرناک معمہ بعد میں یہ نکلا کہ لاش کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پولیس کی ابتدائی رپورٹ سے پتہ چلا کہ یہ لاش تو 9 ماہ پرانی ہے۔پوسٹ مارٹم سے بھی پہلے ایک خبر یہ بھی سامنے آئی تھی کہ لاش پر تشدد کے نشانات تھے اور فلیٹ کو اندر سے کنڈی بھی لگی ہوئی تھی اور پولیس دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئی تھی۔‘‘ اس سے بھی بڑی حیران کن یہ خبر بھی نکلی تھی کہ مالک مکان کرایہ لینے کے لیئے پولیس لے کر آیا تھا جس کے بعد کرایہ ملنے کی بجائے اس کی 9ماہ پرانی لاش ملی تھی، جس سے یہ ظاہر ہوا تھا کہ جسم کے سب سے آخر میں ڈی کمپوز ہونے والے اعضا یعنی سر کا پچھلا حصہ اور گھٹنے بھی گل چکے تھے۔ ایک ہاتھ بھی گل سڑ کر علیحدہ ہو گیا تھا۔ اداکارہ حمیرا اصغر کی موت کا معاملہ اتنا سیدھا اور سادہ نہیں جتنا رپورٹ ہوا ہے۔ اس المناک واقعہ کی سخت اور کڑی تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ اس جواں سالہ لڑکی کے ساتھ کوئی ظلم ہوا، اس نے خود کشی کی یا وہ ’’قتل‘‘ہوئی، جیسا بھی ہوا اب اسے انصاف ملنا چایئے۔ابتدا سے یہی کہا جاتا رہا کہ اداکارہ عائشہ خان اور حمیرا علی، کی اموات کی نوعیت ایک جیسی ہے کہ دونوں اداکارائیں اپنے فلیٹوں میں تنہا رہ رہی تھیں اور ان کا اپنے رشتہ داروں سے بہت کم رابطہ ہوتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ بھائی، بہن اور والد حمیرا کی لاش لینے سے کیوں انکاری ہوئے؟
کسی دشمن کی موت پر بھی ایسی سنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا، جبکہ وہ تو ایک بہن اور ایک بیٹی تھی، جس کو مرنے کے بعد تو معاف کیا جا سکتا تھا۔ اب طرح طرح سے غیرت کے نام پر ان ظالم والدین کا بھی دفاع کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے شو بزنس کی چکا چوند دنیا میں جانے سے روکا تھا اور جب وہ نہیں رکی تھی تو انہوں نے اس سے قطع تعلق کر لیا تھا۔پہلے سانحہ سوات کا اثر کئی روز تک دل اور روح پر چھایا رہا کہ 15چھوٹے بڑے انسانی نفوس کس بے بسی کے عالم میں موت کو سامنے دیکھ کر مدد کے لئے چیختے چلاتے رہے مگر بالآخر بے یارومددگار موت کے منہ چلے گئے اور کوئی انسان انہیں بچانے کے لیئے آگے نہ بڑھا۔ اس واقعہ سے ایک روز قبل بدچلنی کے الزام پر ایک بیٹے نے اپنی ماں کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ اسی روز سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں ایک خاوند ’’غیرت نامی بے غیرتی‘‘میں اپنی بیوی پر بری طرح سے تشدد کرتا نظر آیا۔ اب جب سے یہ واقعہ پڑھا ہے تب سے 48 گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا یے، حرام ہے کہ ایک پل بھی آنکھ لگی ہو۔آخر ہماری غیرت عورت یا بیٹی کے نام پر ہی کیوں جاگتی ہے کہ جب یہی کام اگر بیٹا کرتا ہے تو اسے ہم آمدنی کا قابل فخر زریعہ کیوں محسوس کرتے ہیں؟ اب ہمارا معاشرہ اس قتل میں انصاف دلانے کی بجائے بے شرمی سے طرح طرح کی تعویلات پیش کر رہا ہے۔ ایک بیٹی کی تنہائی میں پراسرار موت کیا ہوئی، لوگ اس پر افسوس کرنے کی بجائے اس واقعے کو استعمال کر کے اپنے اپنے نظریات کی مارکیٹنگ میں مصروف ہو گئے ہیں کہ دیکھو یہ کیا ہو گیا، ایسی زندگی کا یہی نتیجہ نکلنا تھا، والدین کی نافرمانی عبرت کا سامان ہو گیا اور فلاں ہو گیا ڈھمکان ہو گیا وغیرہ وغیرہ۔ اس بیٹی کے پیشے اور ان کے اپنے خاندان سے تعلق کی نوعیت وغیرہ کو بنیاد بنا کر ہر ایک اپنا سودا بیچنے میں لگ گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ نظریاتی گِدھوں کو ایک لاش نوچنے کو مل گئی ہے۔
کچھ ان کی موت کی نوعیت کو بنیاد بنا کر بیانیئے گھڑ رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ تنہا رہنا بھی ہر کسی کا حق ہے جیسا کہ خاندان میں رہنا حق یے۔یہ ضرور ہے کہ ہر دو طرح کے طرز زیست کے اپنے اپنے مثبت اور منفی پہلو یا اثرات ہوتے ہیں۔ خدا کا کچھ خوف کرو لوگو، جب یہی کام بیٹے کرتے ہیں تو کیوں خاموش رہتے ہو، کیا تمھارا زور کمزور عورت اور صرف محصوم بیٹیوں پر چلتا ہے جن کو اسلام نے بلند ترین رتبہ دیا ہے؟ہمارا معاشرہ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر کا نمونہ بنا ہوا ہے، نہ ہی ہم مغرب کے فلسفے کو سمجھ پائے ہیں اور نہ ہی مذہب کو مکمل طور پر اپنانے میں کامیاب ہونے ہیں، کسی کو بے بسی کی اس موت پر خود اپنی بیٹیاں کیوں یاد نہیں آئی ہیں اور ان کی چیخیں کیوں نہیں نکل رہی ہیں؟ عنقریب بہت جلد ہمارے شہروں میں اور مدرسوں کے ساتھ ’’اولڈ ہومز‘‘بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ بہتر تو یہی ہے کہ یونیورسٹیز میں اب ایسے کورسز متعارف کرا دیئے جائیں جہاں سے ہمیں پیشہ ور تربیت یافتہ اولڈ کیئررز میسر آ سکیں۔ ایمبولینس ڈرائیور زبیر بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ فلیٹ پر پہنچے تو اس وقت تک پولیس دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو چکی تھی۔ زبیر بلوچ کہتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ ’’سٹور روم جیسے ایک کمرے میں فرش پر قالین کے اوپر ایک عورت کی لاش پڑی ہوئی تھی جس نے نیلے رنگ کی پتلون اور پنک رنگ کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ گھر میں بجلی نہیں تھی۔ دوسری طرف سے کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں۔ شاید اسی وجہ سے بدبو باہر نہیں گئی۔
اللہ پاک اس بیٹی کا سفر آخرت آسان فرمائے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہوئی تھی کی موت ہو گیا
پڑھیں:
ہماری پُرزور کوشش کے بعد بھی بانی پی ٹی آئی تک رسائی نہیں مل رہی: عمر ایوب
فائل فوٹوتحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب نے کہا ہے کہ ہماری پُرزور کوشش کے بعد بھی بانی پی ٹی آئی تک رسائی نہیں مل رہی، جیل سپرنٹنڈنٹ عدالت کا حکم بھی نہیں مان رہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ ہم بانی پی ٹی آئی کے سپاہی ہیں تو ہمیں چالیس سال کی قیدیں سنائی گئیں، فیصل آباد اور سرگودھا کی عدالتیں الگ الگ فیصلے سنا رہی ہیں۔
عمر ایوب نے کہا کہ سابق آڈیٹر جنرل نے رپورٹ لکھی جس پر صدر زرداری نے دستخط کیے، رپورٹ میں 366 ارب روپے کی بدعنوانی لکھی گئی تھی، نئے آڈیٹر جنرل نے کہا کہ نہیں 10 کھرب روپے کی بدعنوانی ہوئی ہے۔
ذرائع کے مطابق جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل اب اڈیالہ جیل کے بجائے انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی میں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بدعنوانیاں ایک سال میں ہوئی ہیں، آڈیٹر جنرل کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ ٹائپنگ غلطی ہے، اس سے اور بڑی ڈکیتی کیا ہوسکتی ہے؟
عمر ایوب نے کہا کہ روٹی جو مہنگی ہوئی وہ صرف سیلاب کی وجہ سے نہیں بلکہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہوئی، پنجاب نے کہا کہ کے پی کی طرف ایک کلو آٹا بھی نہیں جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں کوئی امداد کرنے جائے تو اس پر ایف آئی آر ہو جاتی ہے، کہتے ہیں کہ امدادی تھیلے پر مریم نواز یا شہباز شریف کی تصویر کیوں نہیں لگائی۔