لیاری کی تمام مخدوش عمارتیں خالی کرانے کا فیصلہ، گرینڈ آپریشن کا بھی امکان
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
کراچی:
لیاری میں پانچ منزلہ عمارت منہدم ہونے کے واقعے کے بعد اب انتظامیہ ٹاؤن کی تمام مخدوش عمارتوں کو فوری طور پر خالی کرانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ گرینڈ آپریشن کا بھی امکان ہے۔
ٹاون میونسپل کارپوریشن لیاری کے میونسپل افسر حماد این ڈی خان نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت سندھ نے لیاری میں تمام مخدوش عمارتوں کو خالی کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مخدوش عمارتیں خالی اور منہدم کرنے کے حوالے سے آپریشن کا فیصلہ پیر کو وزیراعلی سندھ کی صدارت میں اعلی سطح کے اجلاس میں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ تمام مخدوش عمارتوں کو مرحلہ وار خالی کرایا جائے گا اور انہیں مسمار کردیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ مخدوش عمارتوں کے رہائشیوں کو متبادل رہائش دینے کی پالیسی سندھ حکومت مرتب کرے گی۔
انہوں نے بتایا کہ بغدادی میں گرنے والی اور خالی کرائی گئی تین عمارتوں کے متاثرین کے لیے کمیونٹی سینٹراور ہوٹلوں میں رہائش کا انتظام کیا گیا یے لیکن متاثرین اپنے رشتے داروں کے ہاں چلے گئے ہیں۔
میونسپل افسر نے کہا کہ کچھ متاثرین یہاں موحود ہیں جن کے کھانے ہینے کے انتظامات ٹی ایم سی لیاری کررہی یے۔ انہوں نے بتایا کہ ریسیکو آپریشن اتوار کو مکمل ہوگا۔لیاری میں غیر قانونی تعمیرات میں ملوث تمام افراد کے خلاف مقدمات قانون کے تحت درج کیے جائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انہوں نے بتایا کہ مخدوش عمارتوں کا فیصلہ
پڑھیں:
کراچی لیاری سانحہ: چیئرمین آباد کا اظہار افسوس، خستہ حال عمارتوں پر فوری کارروائی کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے چیئرمین محمد حسن بخشی نے کراچی کے علاقے لیاری بغدادی میں 8 منزلہ مخدوش عمارت کے منہدم ہونے سے 5 سے زائد افراد کی ہلاکت اور درجنوں کے زخمی ہونے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
آباد کے چیئرمین نے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ زخمیوں کو فوری اور مکمل طبی امداد فراہم کی جائے اور ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کے لیے ریسکیو ٹیموں کو بھرپور وسائل فراہم کیے جائیں۔
محمد حسن بخشی نے کہا کہ یہ افسوسناک سانحہ شہر میں موجود درجنوں دیگر مخدوش عمارتوں کی سنگین صورتحال کی طرف ایک بار پھر توجہ دلاتا ہے، اگر ان عمارتوں کی بروقت مرمت یا رہائشیوں کی منتقلی نہ کی گئی تو مستقبل میں ایسے مزید دلخراش حادثات رونما ہو سکتے ہیں۔
چیئرمین آباد نے کہا کہ آباد کے ممبران اس آزمائش کی گھڑی میں متاثرین کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ متاثرہ خاندانوں کی مالی، نفسیاتی اور رہائشی بحالی کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے تاکہ وہ اس سانحے کے اثرات سے نمٹ سکیں۔
انہوں نے کراچی میں عمارتوں کو تین زمروں میں تقسیم کرتے ہوئے وضاحت کی کہ پہلی قسم وہ عمارتیں ہیں جو آباد کے ممبر بلڈرز کے ذریعے قواعد و ضوابط کے مطابق تعمیر کی گئی ہیں، دوسری وہ عمارتیں ہیں جو 50 سال یا اس سے پہلے تعمیر ہوئیں اور اب خستہ حالی کا شکار ہو چکی ہیں جبکہ تیسری وہ عمارتیں ہیں جو بغیر نقشے کی منظوری، ناقص تعمیراتی مٹیریل اور غیر تربیت یافتہ افراد کے ذریعے غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہیں، یہی عمارتیں انسانی جانوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات میں نہ صرف ناقص مٹیریل استعمال ہوتا ہے بلکہ ان میں کوئی مستند انجینئر یا ٹیکنیکل اسٹاف شامل نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ان کا گرنا وقت کا مسئلہ بن چکا ہے، آباد متعدد بار ان خطرناک تعمیرات کے خلاف آواز بلند کرتا رہا ہے، مگر حکومتی سطح پر مؤثر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔
چیئرمین آباد نے سندھ حکومت کو پیشکش کی کہ وہ ان خستہ حال عمارتوں کی جگہ عالمی معیار کی کثیرالمنزلہ، محفوظ اور پائیدار رہائشی عمارتیں تعمیر کرنے کے لیے تیار ہیں، جن میں وہاں کے موجودہ رہائشیوں کو بغیر کسی قیمت کے منتقل کیا جائے گا۔
انہوں نے سندھ اسمبلی سے اپیل کی کہ وہ فوری قانون سازی کرے تاکہ اس منصوبے کو قانونی تحفظ حاصل ہو اور آباد اس پر عملدرآمد شروع کر سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ حکومت مخدوش عمارتوں کے جامع سروے، متاثرہ رہائشیوں کی فوری انخلا اور آباد کی جانب سے پیش کردہ بحالی منصوبے پر سنجیدگی سے غور کرے تاکہ مستقبل میں انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔