ایرانی میزائلوں سے تل ابیب اور دیگر شہروں میں تباہی کی مزید تفصیلات سامنے آ گئیں
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
تل ابیب میں 5 مختلف مقامات پر 480 عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ رامات گان میں 3 علاقوں میں 237 عمارتیں متاثر ہوئیں، جن میں سے 10 کو شدید نقصان پہنچا۔ بات یام میں سپاہ پاسداران انقلاب کے صرف ایک میزائل سے 78 عمارتیں متاثر ہوئیں، جن میں سے 22 مکمل طور پر گرانے کے لیے نشان زد ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل میں ایرانی میزائل حملوں سے ہونے تباہی کی مزید تفصیلات سامنے آ گئی۔ تسنیم نیوز کے عبرانی ڈیسک کے مطابق تل ابیب میں 5 مختلف مقامات پر 480 عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ رامات گان میں 3 علاقوں میں 237 عمارتیں متاثر ہوئیں، جن میں سے 10 کو شدید نقصان پہنچا۔ بات یام میں سپاہ پاسداران انقلاب کے صرف ایک میزائل سے 78 عمارتیں متاثر ہوئیں، جن میں سے 22 مکمل طور پر گرانے کے لیے نشان زد ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ تصادم کے خاتمے کے تقریباً ایک ہفتے بعد، بہت سے شہری اپنے گھروں کو واپس لوٹے تو ایرانی میزائلوں کے زیریں ڈھانچوں اور گھروں کو پہنچنے والے تباہی کے مناظر دیکھ کر حیران رہ گئے یہاں تک کہ شہری علاقوں میں بھی۔ اگرچہ حملوں کے زیادہ تر ہدف فوجی اور انٹیلی جنس کے اہداف تھے، لیکن آباد علاقوں کے قریب ہونے کی وجہ سے شہری املاک، گاڑیوں اور گھروں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔
اخبار ہآرٹز کے نامہ نگار نے متاثرہ علاقوں کی کیفیت کو یوں بیان کیا: "12 دنوں کی لڑائی کے دوران، ایک مستقل معمول بن گیا تھا کہ حملوں کے بعد ہر جگہ افراتفری، سڑکوں پر پانی، بکھرے ہوئے فائر ہوز، الارم، ہوا میں گرد اور ہر طرف بھاگتے ہوئے لوگ۔ 12 گھنٹے بعد تلاش اور شناخت کا عمل ختم، پھر ایک پرسکون معمول شروع ہوتا، عمارتوں کے سامنے محافظ کھڑے ہوتے، اور حیران رہائشی اپنے سامنے تباہی کو دیکھتے۔ کبھی کبھار، عمارت کا کوئی اور حصہ شیشہ یا کنکریٹ گر جاتا۔" رامات گان میں ایک خاندان کو اپنی گاڑی کی طرف بھاگتے دیکھا گیا جو ملبے کے نیچے دب گئی تھی، صرف یہ جاننے کے لیے کہ بچانے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ پورے اسرائیل میں تباہی کا دائرہ وسیع ہے، ہزاروں عمارتیں متاثر ہوئیں، دروازوں اور کھڑکیوں میں معمولی نقصان سے لے کر مکمل عمارتوں کے گرنے تک۔ لیکن ایک چیز مشترک ہے، بے گھر رہائشی، ٹوٹی ہوئی یادیں، اور وہ صدمہ جو ان کے ساتھ کئی سالوں تک رہے گا۔
عبرانی میڈیا کے نئے اعداد و شمار کے مطابق تل ابیب کے 5 علاقوں میں 480 عمارتیں متاثر ہوئی ہیں، رامات گان میں 237 متاثرہ عمارتیں ہیں، جن میں سے 10 کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ بات یام میں صرف ایک میزائل سے 78 عماتیں متاثر ہوئیں، جن میں سے 22 کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے کونکہ میزائل کے دھماکے کی لہر نے عمارتوں کو بنیاد سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کی ٹیکس اتھارٹی نے تقریباً 33,000 متاثرہ عمارتوں کے لیے مالی امداد کی درخواستیں وصول کی ہیں، جبکہ 4,450 درخواستیں نجی املاک کے نقصان کے معاوضے کے لیے دائر کی گئی ہیں جبکہ 4,119 درخواستیں متاثرہ گاڑیوں کے معاوضے کے لیے دائر کی گئی ہیں۔
پورے اسرائیل میں حکام غیر مستحکم عمارتوں کو جلد از جلد کبھی کبھار چند دنوں میں گرانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ گرنے کے خطرات کو روکا جا سکے۔ لیکن اس رفتار کے پیچھے صدمے اور خوف کی یادوں کو دلوں سے مٹانے کی کوشش بھی چھپی ہوئی ہے۔ بہت سے معاملات میں رہائشیوں کو اپنا سامان نکالنے کے لیے بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔ بات یام میں ایک خاندان کی مدد کرنے والے شخص نے بتایا: "کیبنٹ، ہوم فرنٹ کمانڈ، میونسپلٹی اور پولیس کے ساتھ ایک ہفتے کی دوڑ دھوپ کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ ہمارے پاس سامان نکالنے کے لیے ڈھائی گھنٹے ہیں۔ پھر وقت کم کر دیا گیا۔ آخر میں ہمارے پاس 15 منٹ اور 2 بیگ تھے۔ یہ معلوم نہیں کہ ہم دوبارہ کچھ لینے کے لیے واپس جا سکیں گے۔"
ہوم فرنٹ کمانڈ کے اہلکاروں نے اعتراف کیا: "متاثرہ علاقوں میں نقصان کا دائرہ ہماری توقعات کے مطابق ہے۔ ہمارے تربیتی مراکز ایسی ہی صورتحال کی مشق کرتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ نئی عمارتیں زیادہ مضبوط ہیں، لیکن تباہی سے محفوظ نہیں۔ ادھر IDF کے ایک اعلی افسر نے وضاحت کی: "دھماکے اور دباؤ کی لہروں کا اثر جگہ جگہ مختلف ہوتا ہے۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ عمارت کا ڈھانچہ توانائی کو جذب کر کے گرنے سے روکتا ہے یا نقصان قریب کی عمارت تک پہنچ جاتا ہے اور تباہی کا دائرہ بڑھ جاتا ہے۔" ان کے مطابق، تل ابیب اور رامات گان میں، جہاں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی، میزائلوں نے براہ راست عمارتوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ سڑکوں پر گرے لیکن دباؤ کی لہروں نے ارد گرد کی تمام عمارتوں کو تباہ کر دیا۔
ہوم فرنٹ کمانڈ کے ایک اور افسر نے کہا: "یہ کسی پورے شہری ماحول کی تباہی جیسا لگتا ہے۔ یہ وہی نتائج ہیں جو ہم نے لبنان میں پیدا کیے تھے لیکن یہاں، لبنان کے برعکس، ہلاکتوں کی تعداد کم تھی، کیونکہ شہریوں کے پاس محفوظ پناہ گاہوں تک رسائی تھی۔" جمعرات، 19 جون کو، جب ایک ایرانی میزائل تیسری بار رامات گان میں گرا، تو "رشونیم" محلے کے ایک رہائشی ران ماس نے سوچا کہ میزائل اس کے گھر کے بالکل سامنے گرا ہے۔ وہ قریبی پناہ گاہ میں تھا اور اسے اپنے پیروں تلے زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ 36 سالہ ماس نے کہا: "ہم نے فاصلے پر دھماکوں کی آوازیں سنی، لیکن جب میزائل اتنے قریب سے ٹکرایا تو اسے نظر انداز کرنا ناممکن تھا۔ یہ میرے گھر سے تقریباً 300 میٹر کے فاصلے پر گرا، لیکن اس قسم کے ایرانی میزائل نے پورے محلے کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔"
جب وہ پناہ گاہ سے باہر آیا تو اس نے دیکھا کہ دکان کی تمام کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، شٹر ٹوٹے ہوئے ہیں اور اسے فوراً احساس ہوا کہ اس کا گھر محفوظ نہیں ہے۔ پہلے تو مشرق کی طرف کھڑکیاں برقرار دکھائی دیتی تھیں، لیکن جب وہ اپارٹمنٹ کے قریب پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ صرف وہی کھڑکیاں رہ گئی ہیں۔ باقی تمام کھڑکیاں اڑا دی گئی تھیں، دروازے ہوا میں اڑ گئے تھے، اور سامنے کا دروازہ اکھڑ چکا تھا۔ حکام کی سفارش پر، ماس ایک انخلاء کے مرکز اور وہاں سے تل ابیب کے نیو زیڈک محلے کے ایک ہوٹل میں منتقل ہو گیا۔ تب سے، وہ اپارٹمنٹ کی تزئین و آرائش شروع کرنے کی کوشش کرنے کے لیے ہر چند دنوں بعد واپس آ رہا ہے۔ رامات گان میونسپلٹی نے اطلاع دی ہے کہ ماس کے رہنے والے علاقے میں مزید 107 عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ رمت گان میں مجموعی طور پر 257 عمارتوں کو نقصان پہنچا، جن میں سے 10 کو خطرناک سمجھا جاتا ہے جنہیں مسمار کیے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عمارتوں کو نقصان پہنچا عمارتیں متاثر ہوئیں عمارتیں متاثر ہوئی ایرانی میزائل جن میں سے 10 کو رامات گان میں بات یام میں علاقوں میں کے مطابق جاتا ہے تل ابیب کے ایک کے لیے
پڑھیں:
سیلاب
نجمہ کی عمر تقریباً 25 سال ہوگی۔ وہ کم عمری میں چار بچوں کی ماں بن گئی۔ اس کی بیوہ ماں کراچی کے معروف علاقے پی ای سی ایچ ایس میں گھروں میں کام کرتی تھی۔ پی ای سی ایچ ایس کی ایک معزز خاتون استاد نے نجمہ کو اپنے ساتھ اپنے اسکول لے جانا شروع کیا، یوں اس نے میٹرک پاس کر لیا۔ ماں نے اپنے بھتیجے سے نجمہ کی شادی کردی، یوں وہ کراچی سے اپنے گاؤں جلال پور پیر والا میں منتقل ہوگئی تھی۔
نجمہ کا شوہر کا کوئی مستقل روزگار نہیں تھا اور بیوی پر تشدد کرنے میں زیادہ وقت گزارتا ہے۔ پی ای سی ایچ ایس کی معزز استانی اپنی شاگرد نجمہ کی گاہے بگاہے مدد کرتی رہتی تھی۔ اسے مزید تعلیم کا شوق تھا مگر شوہر کی مرضی نہ ہونے اور گھریلو مصروفیات کی بناء پر اس کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ نجمہ کا آخری ایس ایم ایس یہ ملا تھا کہ اس کا گاؤں سیلابی پانی میں ڈوب گیا ہے اور گھرکا سامان سیلابی پانی ساتھ لے گیا ہے اور کوئی مدد کو نہیں آرہا ہے، پھر نجمہ اور اس کے بچوں پر کیا گزری کوئی نہیں جانتا۔
نجمہ ہی نہیں بلکہ ہزاروں افراد سیلابی سانحہ سے گزرے۔ ایک عورت نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے چھوٹی سی لکڑی کی کشتی بنالی، عورت ڈوب گئی، امدادی کارکنوں نے بچوں کو بچا لیا۔ ایک شخص اپنی پانچ سالہ بچی کو کندھے پر بٹھائے کئی گھنٹے تک ایک درخت کی ٹہنی سے لٹکا رہا، امدادی کارکن اس کی مدد کو پہنچ گئے۔
جلال پور پیر والا ملتان کی ایک تحصیل ہے۔یہ ملتان شہر سے 98 کلومیٹر فاصلہ پر ہے اور ملتان سے جلال پور پیر والا آنے میں ایک گھنٹہ سے زائد کا وقت لگتا ہے۔ اس کا دوسرا قریبی شہر بہاولپور ہے جو 69.5 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور یہاں تک آنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔ جلال پور پیر والا کی آبادی 6 لاکھ 8 ہزار افراد اور 15 یونین کونسلز ہیں۔ لوگوں کا روزگار زراعت اور زرعی اشیاء کی تجارت ہے۔ یہاںکے بہت سے افراد نے روزگار کے لیے خلیجی ممالک کا رخ کیا اور زیادہ تعلیم یافتہ افراد امریکا اور کینیڈا بھی منتقل ہوئے۔
2023کی مردم شماری کے مطابق جلال پور پیر والا تحصیل کا مکمل رقبہ 978 مربع کلومیٹر اور خواندگی کی شرح 48 فیصد ہے جب کہ عورتوں میں خواندگی کا تناسب 28.60 فیصد ہے۔ ان اعداد و شمار کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 3 لاکھ4 ہزار 65 افراد میں سے 1 لاکھ 75 ہزار 919 خواتین ناخواندہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یونانی بادشاہ اسکندر اعظم اور اس کے لشکر نے اس علاقے میں قیام کیا تھا مگر بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ جلال پور پیر والا کا نام یہاں کے معروف بزرگ جلال الدین سرخ پوش بخاری کے نام پر رکھا گیا تھا، یوں یہ ایک تاریخی شہر کہلاتا ہے۔
یہ سی پیک کے منصوبہ کے تحت تعمیر ہونے والے موٹروے کے انتہائی نزدیک ہے مگر حقیقی طور پر اس پورے علاقے کو سی پیک کے کسی بھی منصوبے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ جلال پور پیر والا کا جغرافیائی محل وقوع بہت اہم ہے۔ جنوبی پنجاب اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ چار دریا اس علاقے سے گزرتے ہیں جن میں مشرق میں دریائے ستلج، شمال مشرق میں دریائے راوی، مغرب میں دریائے چناب اور دریائے سندھ بہتا ہے۔ دریائے ستلج اور دریائے چناب پیر والا کے خان بیلہ کے مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں اور وہاں سے 27 کلومیٹر دور دریائے چناب کا پانی ہیڈ پنجند میں دوسرے دریا سے مل جاتا ہے۔
گلوبل وارمنگ پر تحقیق کرنے والے ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ پاکستان کے عوام اگلے کئی برسوں تک ماحولیاتی تباہ کاریوں کا شکار رہے گا۔ اس سال پہلے گلگت بلتستان میں تباہ کن بارشیں ہوئیں۔ اس کے ساتھ کوہِ ہندو کش کے پہاڑی سلسلے میں گلیشیئر پگھلنے کا سلسلہ شروع ہوا، یوں گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں زبردست تباہی آئی۔ گلیشیئرز اور بارشوں کا پانی دریائے سندھ میں شامل ہوا۔ خیبر پختون خوا میں طوفانی بارشوں نے ریکارڈ تباہی مچائی۔ بونیر میں جو تباہی مچائی، یہ ایک انسانی المیے میں تبدیل ہوگئی۔
سیاحتی مقام سوات میں بارش نے الگ تباہی مچائی۔ بھارتی ریاست ہماچل پردیش اور مقبوضہ کشمیر میں زبردست بارشوں نے دریائے راوی ، چناب اور جہلم میں طغیابی پیدا کی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کی ریاستوں پنجاب، ہریانہ، مدہیہ پردیش اور یو پی میں طوفانی بارشوں نے وہاں تعمیرکیے گئے تین ڈیموں کو تباہ کیا اور سیکڑوں بستیوں کو بھی اجاڑ دیا۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریا راوی، بیاس اور ستلج کا پانی بھارت کے حصے میں چلا گیا تھا مگر جب بھارت نے طوفانی بارشوں کے پانی کو راوی، بیاس اور ستلج میں منتقل کردیا اور اس پانی سے لاہور، سیالکوٹ، گجرات سے لے کر جنوبی پنجاب میں تباہی مچنا شروع ہوئی تو اس پانی نے پہلے ملتان شہر کے کچے کے علاقے میں تباہی مچائی۔ پھر ملتان کی مختلف تحصیلوں شجاع آباد، شیر شاہ، جلال پور پیروالا میں تباہی مچا دی۔ ملتان کے نوجوان صحافی جودت ندیم سید نے شجاع آباد جلال پور پیروالا کے تفصیلی دورے کے بعد لکھا ہے کہ اس پورے علاقے میں سیلابی پانی کی تباہی سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ اس علاقے سے ملنے والی رپورٹوں کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ ہزاروں افراد ایک ہفتہ سے زیادہ عرصہ تک پانی میں گھرے رہے۔
اس پورے علاقے میں سرکاری کشتیوں کی قلت تھی۔ کچھ لوگ پرائیویٹ کشتیاں چلانے لگے۔ ان پرائیویٹ کشتی والوں نے غریب لوگوں سے منہ مانگی رقم طلب کی ۔ جن لوگوں نے یہ رقم ادا کی، و ہ اپنے مویشیوں سمیت محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے اور جن لوگوں کے پاس پیسے نہیں تھے وہ پانی میں گھرے رہ گئے۔ ٹی وی چینلز کے اسکرین پر ان غریب مردوں اور عورتوں کی فریاد سنائی دی جاتی رہی۔ پھر یہ شکایت عام تھی کہ خیموں میں آباد خواتین کے لیے بیت الخلاء کی سہولتیں موجود نہیں تھیں۔
بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ شیر خوار بچوں کو دودھ فراہم نہیں کیا گیا۔ کشتیوں کی کمی کی وجہ سے کئی حادثات رونما ہوئے۔ عام لوگوں میں عدم اعتماد اور نظم و ضبط کے فقدان کی بناء پر مشکل سے دستیاب ہونے والی کشتی میں ضرورت سے زیادہ افراد سوار ہونے سے کشتی الٹ گئی۔ ان حادثات میں کئی جانیں ضایع ہوئیں۔ انتظامیہ کے افسران کا کہنا ہے کہ سیلاب میں گھرے ہوئے علاقوں میں گھرے ہوئے بعض افراد آخری وقت تک گھر چھوڑنے کو تیار نہیں ہوئے، جس کی بناء پر اپنے گاؤں میں وہ لوگ تنہا رہ گئے۔
اس بناء پر ان افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں دیر ہوئی، مگر متاثرہ افراد کا یہ مؤقف ہے کہ ان کے سامان اور مال مویشیوں کو چوری ہونے کی بہت وارداتیں ہوئیں۔ عجیب بات ہے کہ چوروں کی کشتیاں آرام سے سیلابی پانی میں سفر کرتی رہیں اور غریب لوگ بے بسی کا شکار رہے۔ ان علاقوں کا دورہ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان علاقوں کے منتخب اراکین ووٹروں سے دور رہے، اگر منتخب اراکین اور ان کے کارکن عوام کو متحرک کرتے اور لوگوں کو یقین دلایا جاتا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ دیں، ان کا سامان اور مال مویشی چوری نہیں ہوںگے تو انتظامیہ کے کاموں میں آسانی ہوجاتی۔
پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے جب پیر والا کا دورہ کیا اور ان کے علم میں پرائیویٹ کشتی مالکان کی لوٹ مارکے واقعات لائے گئے تو انھوں نے یہ حکم دیا کہ تمام پرائیویٹ کشتیاں ضلع انتظامیہ کی نگرانی میں دی جائیں تاکہ غریب افراد اپنے تباہ ہونے والے گھروں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہوسکیں۔ پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب کی نگرانی میں امدادی سرگرمیوں میں تیزی آئی مگر پھر بھی ہزاروں افراد اونچے مقامات اور موٹروے پر امداد کی منتظر تھے۔
سیلاب نے جنوبی پنجاب میں زبردست تباہی مچائی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کا شکار ان علاقوں میں ہر سال سیلاب آسکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے جو ایک اچھا اقدام ہے مگر اس ایمرجنسی میں ایسی منصوبہ بندی ہونی چاہیے جس سے آیندہ اس علاقے کا مستقبل محفوظ ہوجائے اور پھر کسی نجمہ کے خواب بکھر نہ پائیں۔