لیاری میں عمارت گرنے میں ایس بی سی اے اور ضلعی انتظامیہ کی نااہلی سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
کراچی کے علاقے لیاری بغدادی میں 5 منزلہ عمارت کے گرنے میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) اور ضلعی انتظامیہ کی نااہلی سامنے آگئی۔
جیو نیوز نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی دستاویزات حاصل کرلیں، جس میں انکشاف کیا گیا کہ 1974 میں بنی یہ عمارت 2022 تک تین منزلہ تھی، 2022 میں تین منزلہ عمارت کو خطرناک قرار دیا گیا۔
عمارت کی مالکن کے بھتیجے نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے خاندان کے افراد چوتھی منزل پر رہتے تھے، خاتون کو تشویش ناک حالت میں نکالا گیا ہے، بیٹا انتقال کر گیا، تین رشتہ دار اب بھی پھنسے ہوئے ہیں۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا کہنا ہے کہ عمارت کی تیسری منزل کو گرا کر بنیادوں کی مرمت کرنے کا کہا گیا، بقیہ عمارت کی مرمت لائسنس یافتہ انجینئر کی سربراہی میں کروانے کا کہا گیا، عمارت کی تیسری منزل کو توڑنے کے بجائے مزید دو منزلیں تعمیر کی گئیں، 2025 تک دستاویزات میں عمارت کو 3 منزلہ ہی دکھایا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس بی سی اے اور ویجیلنس کمیٹی نے غیر قانونی فلورز تعمیرات کے خلاف کوئی رپورٹ نہیں دی، عمارت کی کمزور بنیاد کے باوجود غیر قانونی طور پر بنائے گئے فلورز کو گرانے کے لیے بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: عمارت کی
پڑھیں:
منعم ظفر کا لیاری میں منہدم عمارت کا دورہ، متاثرہ خاندانوں کو متبادل جگہ دینے کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے لیاری کے علاقے بغدادی میں گرنے والی پانچ منزلہ عمارت کے مقام کا دورہ کیا اور صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے افسوسناک واقعے میں 8 قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور متاثرہ خاندانوں سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔
منعم ظفر خان نے واقعے کو سندھ حکومت اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) کی مجرمانہ نااہلی اور بدانتظامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہر میں غیر قانونی تعمیرات بے لگام ہو چکی ہیں اور اس کا خمیازہ عوام کو جان و مال کی قربانی دے کر بھگتنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ متاثرہ خاندانوں کو فوری طور پر 6 ماہ کا کرایہ فراہم کیا جائے اور انہیں متبادل رہائش بھی دی جائے، یہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے اور اس طرح کے حادثات سے پہلے حفاظتی اقدامات کرے، نہ کہ سانحے کے بعد افسوس تک محدود رہے۔
منعم ظفر خان نے نشاندہی کی کہ شہر میں 40 اور 60 گز کے پلاٹس پر کئی کئی منزلہ عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی آنکھیں بند کیے ہوئے ہے، گزشتہ 5 برسوں میں کراچی میں ایک لاکھ کے قریب عمارتیں تعمیر کی گئیں، جن میں سے صرف 14 سے 15 ہزار کی ہی باقاعدہ منظوری لی گئی، جب کہ باقی 85 فیصد عمارتیں غیر قانونی اور بغیر اجازت تعمیر کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی رشوت اور کرپشن کا گڑھ بن چکی ہے، جہاں سے پورشن مافیا کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے، انہی غیر قانونی اور ناقص تعمیرات کے نتیجے میں آئے روز عمارتیں گرنے کے افسوسناک واقعات پیش آ رہے ہیں، جن میں بے گناہ شہری اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے لیکن حکمران خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں، اگر اب بھی غیر قانونی تعمیرات پر قابو نہ پایا گیا تو ایسے سانحات کا سلسلہ جاری رہے گا۔
منعم ظفر خان نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر اس واقعے کی شفاف تحقیقات کروائے، ذمہ دار عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی اصلاح اور نگرانی کے لیے ایک مؤثر نظام قائم کیا جائے تاکہ کراچی کے شہریوں کو مزید جان لیوا سانحات سے بچایا جا سکے۔