Jasarat News:
2025-07-09@00:54:11 GMT

بھارتی تنہائی کی وجہ مودی کا خبط عظمت

اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایک عرصے سے بھارت تنہائیوں کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ آغاز اس خبر سے کرتے ہیں کہ چار ممالک کا ایک اتحاد کواڈ کے نام سے ہے جس میں امریکا، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں یہ اتحاد امریکا نے چین کے خلاف بنایا ہے۔ چین اور جاپان کی تو آپس میں پرانی چپقلش ہے اسی وجہ سے امریکا نے اس کو اس اتحاد میں شامل کیا ہے لیکن اس کے باوجود ان دونوں ملکوں کے درمیان ایک ہزار ارب ڈالر سالانہ کی تجارت ہوتی ہے۔ امریکا کے علاہ ان تین ممالک کی سرحدیں بھی چین سے لگتی ہیں۔ چین کا آسٹریلیا سے تو کوئی تنائو یا کھچائو نہیں ہے باہم تجارت ہوتی اور سماجی تعلقات بہت اچھے ہیں آسٹریلیا میں بہت بڑی تعداد میں چینی رہتے ہیں وہاں چینیوں کے نام سے بڑی بڑی آبادیاں قائم ہیں۔ چین میں چونکہ ایک بچے سے زیادہ پیدائش پر پابندی ہے اس لیے بہت چینی کاروباری اور متمول حضرات آسٹریلیا میں جاکر شادی کرلیتے اور وہ چار پانچ بچوں کے باپ بن جاتے ہیں اس طرح آسٹریلیا میں رہنے والے چینیوں کی ایک بیوی چین میں اور ایک آسٹریلیا میں ہوتی ہیں۔ انڈیا کے چین سے تعلقات دوستی اور دشمنی کے درمیان معلق ہے بلکہ تھوڑا سا جھکائو دشمنی کی طرف ہی جاتا ہے۔ آئے دن سرحدی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ 1962 میں ایک بڑی جنگ بھی ہوچکی ہے۔ پھر یہ کہ امریکا چین کے خلاف بھارت کو جدید اسلحے سے لیس کررہا ہے۔
کواڈ میں کیا ہوا بھارت نے سوچا کہ یہ چند بڑے ممالک کا چھوٹا سا لیکن موثر فورم ہے لہٰذا اس اجلاس میں متفقہ قرارداد میں پاکستان کو دہشت گرد ملک کے طور پر متعارف کرایا جائے کواڈ اتحاد نے پہل گام حملے میں بھارت کے پاکستان مخالف بیانیے کی حمایت سے انکار کردیا۔ گروپ نے کسی ملک کا نام لیے بغیر واقعہ کی مذمت کی اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے پر زور دیا۔ بھارت کی جانب سے پاکستان پر بغیر کسی ثبوت کے حملے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ بھارت کے لیے ایک سفارتی دھچکا ہے اور اس سے پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈے کو عالمی سطح پر نقصان پہنچا ہے۔ اس سے پہلے پچھلے ماہ چین میں شنگھائی تعاون تنظیم کی وزارت دفاع کے اجلاس میں بھارت کو پاکستان سے اس وقت ایک اور ذلت آمیز شکست اور سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے پہل گام واقع سے پاکستان کا تعلق جوڑنے کی کوشش کی تو بھارت کے سوا تمام شرکاء نے متفقہ طور پر اس کا موقف مسترد کردیا اجلاس نے اس کے بجائے بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے بارے میں پاکستان کا موقف اپنے مشترک اعلامیے میں شامل کرلیا۔ اس پر بھارتی وفد اجلاس سے بائیکاٹ کرگیا اور اعلامیے پر دستخط بھی نہیں کیے۔ شنگھائی تنظیم مغربی ملکوں کے طاقتور بلاکس کے مقابلے میں چین اور وسط ایشیائی ملکوں کا سیاسی پلیٹ فارم ہے بھارت اس میں اس لیے شامل ہوا تھا سینٹرل ایشیا کے ملکوں میں اپنا اثر رسوخ بڑھا سکے مگر وہ اپنے عزائم میں ناکام رہا۔ مئی کی جنگ میں شکست کے بعد بھارت ویسے تو دنیا میں منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہا لیکن بھارتی میڈیا نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی، مغربی میڈیا نے بھارتی میڈیا پر سخت تنقید کی اور اس کا مذاق بھی اُڑایا۔ ابھی دودن قبل چین میں ایس سی او کے وزرائے مواصلات کا اجلاس تھا اس وزارتی اجلاس میں بھارتی وزیر غائب رہے وہ پاکستان کا سامنا نہیں کرسکے جبکہ پاکستان سے وزیر مواصلات عبدالعلیم خان وفد کے ہمراہ شریک تھے۔
یہ تو کچھ تازہ واقعات تھے لیکن جنگ کے فوری بعد بھارت نے جو 67 رکنی وفد دنیا کے کئی ممالک میں بھیجے جن پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ اس پورے دورے میں بھارتی وفد کو شدید قسم کی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کسی ملک نے بھارتی موقف کی تائید نہیں کی اور اس وفد کو مایوس واپس لوٹنا پڑا اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا میں اسرائیل کے سوا کوئی ملک ہندوستان کے ساتھ نہیں ہے۔ لیکن اس سے بھی بہت پہلے بھارت کے اپنے قریبی پڑوسی ممالک سے تعلقات خراب ہوچکے تھے ان میں بنگلا دیش، سری لنکا، برما، بھوٹان، نیپال اور مالدیپ جیسے چھوٹے ممالک ہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی ان سب ممالک سے پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ کر مکالمہ کرتے ہیں اور انہیں اپنے سے بہت کمتر سمجھتے ہیں۔ پچھلے سال بنگلا دیش کی حسینہ واجد کا اقتدار عوامی غیظ و غضب کے سیلاب میں بہہ کر غرق ہوگیا اور وہ بھارت فرار ہو گئیں پاکستان سے تو اس کا چھتیس کا آکڑا رہتا اور چین جو انڈیا سے کہیں بڑا ملک ہے اس سے بھی نہیں بنتی۔ سارک تنظیم کو یورپی یونین کے طرز پر چلانے کی سب کی خواہش تھی لیکن نریندر مودی کے دور حکومت میں سارک غیر فعال ہوگئی صرف اس وجہ سے اس میں بھارت اپنی چلانا چاہتا تھا اور اپنے پڑوس کے چھوٹے ممالک بالخصوص سارک سے وابستہ ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت بھارت اپنا حق سمجھتا تھا اسی لہے ان ممالک سے تعلقات خراب ہوگئے اور اس طرح بھارت تنہا رہ گیا۔
اب ہم اس بات کا جائزہ لیں گے بھارت کو اس صورتحال کا سامنا کیوں کرنا پڑرہا ہے۔ سب سے پہلی اور اہم وجہ تو بھارتی حکمرانوں کا وہ مائنڈ سیٹ ہے جس کے تحت وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح خفیہ تنظیم سی آئی اے جس کو چاہے مروا دیتی ہے جس حکومت کا چاہے تختہ الٹ دیتی ہے، موساد بھی یہی کام کرتی ہے ایم فائیو اور کے جی بی کے بارے میں بھی اسی طرح کا تاثر ہے تو پھر ہم بھی امریکا، اسرائیل، برطانیہ اور روس کے برابر ہیں اس لیے ہماری خفیہ تنظیم را کو بھی یہ حق حاصل ہے وہ اپنے مخالفین کو جس ملک میں چاہے قتل کروا سکتی ہے۔ جیسا کے پچھلے دنوں کنیڈا میں ایک سکھ رہنما کو قتل کیا تھا جس پر حکومت کنیڈا نے بہت سخت احتجاج کیا تھا۔
یہ نریندر مودی کی خبط عظمت کا مسئلہ ہے کہ وہ اس طرح کے قتل اور ملکوں میں مداخلت کرکے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں اور پھر برملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ سی آئی اے، موساد، کے جی بی نے یا کبھی ان کے ممالک نے یہ نہیں کہا کہ ہم نے اپنے فلاں دشمن کو قتل کروایا ہے یہ الگ بات ہے کہ بیس پچیس سال بعد کوئی پیپر لیک ہوجائے یا کوئی صاحب اپنی کتاب میں انکشاف کریں کہ فلاں رہنما کا قتل اس تنظیم نے کیا تھا۔ یہاں تو 2015 میں مودی نے ڈھاکا میں خطاب کرتے ہوئے برملا یہ کہا کہ ہم نے اپنی فوج بھیج کر پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ اسی طرح کنیڈا، پاکستان، امریکا اور دیگر ممالک میں را نے اپنے مخالفین کے جو قتل کیے بھارتی وزراء نے بڑے فخر سے کہا کہ ہم نے اپنے مخالفین کو ان کے ملکوں میں گھس کر قتل کیا ہے۔ دو ماہ قبل نیو یارک ٹائم نے تو اس کی پوری تفصیل دی تھی کہ کس طرح را نے امریکا سمیت دیگر ممالک میں اپنے مخالفین کو قتل کیا ہے۔ ترقی یافتہ اور بڑے ممالک کے حکمران اسی لیے مودی سے ناراض ہیں کہ وہ ملک جہاں پچاس فی صد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جس کی معاشی حالت بھی کوئی بہت آئیڈیل نہیں وہ اپنی پگڑی ہمارے برابر رکھنا چاہتا ہے چھوٹے ممالک پہلے ہی خفا تھے پہل گام واقع میں نریندر مودی کا غرور اور تکبر اپنے عروج پر تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ہم ایک ہی جھٹکے میں پاکستان کو مزا چکھا دیں گے۔ لیکن غرور کا سر نیچا ہوا مودی جی زمین پر پڑے اکیلے کراہ رہے ہیں اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آرہا ہے۔ کچھ دن بعد جب مودی جی خبط عظمت کے سحر سے باہر آئیں گے تو پھر ان کو زمینی حقائق کا پتا چلے گا۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ا سٹریلیا میں اپنے مخالفین میں بھارت بھارت کے کرتے ہیں کا سامنا چین میں اور اس ہیں کہ

پڑھیں:

بھارت خطے کے امن کا دشمن

پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ آپریشن بنیان مرصوص میں پاکستان کی کامیابی میں بھارت کی جانب سے بیرونی حمایت جیسے الزامات غیر ذمے دارانہ اور حقائق کے منافی ہیں۔

کسی بھی بھارتی مہم جوئی کا بغیر کسی ہچکچکاہٹ کے منہ توڑ، شدید، گہرا، تکلیف دہ اور سوچ سے بڑھ کر زیادہ سخت جواب دیا جائے گا۔ ان خیالات انھوں نے نیشنل سیکیورٹی اینڈ وارکورس کرنے والے مسلح افواج کے فارغ التحصیل افسران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے صائب خیالات کا اظہار کر کے بھارت کے مذموم عزائم بے نقاب کیے ہیں، کیونکہ بھارتی وزیراعظم نے جو ماحول بنایا ہے، وہ انھیں پاکستان کے خلاف ایک بار کچھ کرنے پر مجبور کرے گا تاکہ اندرونی ہنگامہ آرائی کو پرسکون کیا جا سکے، لیکن جیسے ہی بھارت کوئی شرارت کرے گا، تو پاکستان کا رد عمل انھیں حیران کردے گا۔

یہ بات فیلڈ مارشل نے دوٹوک الفاظ میں بھارت پر واضح کردی ہے۔ درحقیقت مجموعی طور پر بھارت نے پہلے ہی اپنی ساکھ کھو دی ہے، اگر وہ کوئی اور کارروائی کرتا ہے تو شاید انھیں مزید ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا، پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت جو بھی کشیدگی چل رہی ہے، وہ بھارت کی جانب سے یک طرفہ ہے۔

بھارت نے عالمی برادری یا اپنے لوگوں کو کوئی بھی ثبوت دکھائے بغیر پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا، لیکن اس کے کوئی شواہد موجود نہیں۔ دراصل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کے خلاف اقدامات کر کے اپنے ملک کے اندر ایک ماحول بنا رہے ہیں تاکہ اینٹی پاکستان جماعتوں کا ووٹ اسے مل سکے۔ یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ بھارت میں ہمیشہ پاکستان کے نام پر سیاست کی جاتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی مذہب کے نام پر سیاست کررہی ہے، بھارتی عوام میں پاکستان کے حوالے سے خوف پیدا کیا جا رہا ہے۔

 حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران پاک فوج نے نہایت پیشہ ورانہ طریقے سے جوابی کارروائی کی، جس میں میزائلوں، ڈرونز اور وسیع پیمانے پر الیکٹرانک جامنگ کے ذریعے بھارت کے اہم عکسری ٹھکانوں اور انسٹالیشنز کو ناکارہ و تباہ کر دیا گیا تھا، اس کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی ، بھارت کی خارجہ حکمت عملی بھی کامیاب نہ ہوسکی، دنیا نے محتاط غیر جانبداری اختیار کی، واشنگٹن نے جنگ بندی کی اپیل میں دونوں جوہری ہمسایوں کو یکساں طور پر مخاطب کیا۔

بیجنگ نے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کا اشارہ دیا اور ماسکو نے بھارت کو متوقع سفارتی حمایت فراہم کرنے سے گریز کیا جب کہ ترکی ، ایران اور آذربائجان نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی ۔ بھارت کا پروپیگنڈے پر مبنی بیانیہ بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل نہ کر سکا، یوں یہ جنگ  بھارت کے لیے عسکری، سفارتی اور میڈیا کی سطح پر ذلت آمیز شکست کا باعث بن گئی ۔ پاکستان کی مسلح افواج نے فضائی، میزائل، سائبر اور الیکٹرانک وار فیئر میں اپنی مہارت ثابت کردی۔

چینی ساختہ جدید ترین سینسرز، ڈیٹا لنکس اور الیکٹرانک ایک پوڈز نے پاکستان ایئر فورس کے پائلٹس کو (جو پہلے ہی رات کے وقت اور کٹھن خطوں میں کم بلندی پر پرواز کی مہارت رکھتے تھے)، نیٹ ورک برتری فراہم کی جس سے بھارت کے رافیل طیارے ناکام ہوگئے۔ مربوط الیکٹرانک حملوں نے بھارتی کمانڈ سرکٹس کو اتنی دیر کے لیے مفلوج کر دیا کہ اسٹینڈ آف گولہ بارود بلا مزاحمت اپنے اہداف پر جا گرے، جو اس بات کو واضح کرتا ہے کہ کسی بھی پلیٹ فارم کی کارکردگی اس کے انفارمیشن گرڈ کی پیچیدگی سے مربوط ہوتی ہے۔

بھارت کے لیے یہ تاریخی سبکی بھی ۔بھارتی حکومت اور فوج کی نیندیں اڑگئی ہیں، اسی لیے بھارتی اعلیٰ عہدیدار مختلف مواقع پر ’’ آپریشن سندور رکا ہوا ہے ختم نہیں ہوا‘‘ جیسے بیانات دے رہے ہیں تاکہ عوام کو مطمئن رکھا جاسکے ۔’آپریشن سندور‘ پر حالیہ بڑھکیں اور دھمکیاں دراصل اسٹرٹیجک ناکامی کا اعتراف ہیں۔ شکست خوردہ بھارتی حکومت اب بھی پروپیگنڈے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن بھارتی قوم سوال اٹھا رہی ہے کہ اگر آپریشن واقعی کامیاب تھا تو فوجی قیادت بار بار وضاحتیں کیوں دے رہی ہے؟ ان اختلافات کی وجہ سے بھارت کے امریکا سے دفاعی معاہدوں کی امیدیں بھی دم توڑتی جا رہی ہیں۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش نے عالمی سطح پر اس حقیقت کو پھر سے اجاگر کیا کہ کشمیر ایک حل طلب مسئلہ ہے نہ کہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔  بھارت کے لیے یہ بہت بڑا مسلہ بن گیا ہے ۔ مسلہ کشمیر پر بھارت کی امریکا میں ڈپلومیسی ناکام ہوگئی ہے۔

کینیڈا بھی بھارت کے ساتھ نہیں ہے۔ امریکا نے بھارت اور پاکستان کو دوبارہ ایک ساتھ جوڑ دیا ہے جس سے نئی دہلی کی خطے میں بالادستی کی خواہش کو نقصان پہنچا ہے۔ ان نئی پیشرفتوں نے بھارت کو 1962 میں چین کے ساتھ جنگ کے بعد کی طرح ایک بار پھر سب سے شدید اسٹرٹیجک ذلت کا سامنا کرنے پر مجبور کیا ہے۔

 پاک بھارت کشیدگی میں دونوں ممالک کو معاشی طور پر نقصانات اٹھانا پڑیں گے۔ بھارت پاکستان سے واہگہ بارڈر کے ذریعے بہت سی تجارت کرتا ہے، یہ تجارت پاکستان انڈیا اور پاکستان سے افغانستان کے درمیان اور پھر وہاں سے یہ اشیا ایران بھی جاتی ہیں۔ واہگہ بارڈر کے ذریعے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت ہو رہی تھی، بالکل معطل ہو چکی ہے اور اس سے افغانستان کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔

افغانستان کے ڈرائی فروٹس خاص طور پر جو انڈیا جایا کرتے تھے، اب نہیں جا سکیں گے، اس سے افغانستان کو بھی نقصان ہوگا، اور جو چیزیں بھارت سے افغانستان جایا کرتی تھیں ان کے نہ جانے سے بھارت کو نقصان ہوگا، یہ کوئی بڑا نقصان تو نہیں لیکن دھچکا تو ہے۔ پاکستان میں بڑا فیصلہ کرتے ہوئے بھارت کی فضائی حدود بند کردی ہے، اور یہ فیصلہ انڈین ایوی ایشن کو لے کر بیٹھ جائے گا۔

 دوسری جانب پاکستان نے اقوام متحدہ کو ایک بار پھر آگاہ کیا ہے کہ اس بات کے مستند شواہد موجود ہیں کہ دہشت گرد گروہوں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ کے درمیان بڑھتا ہوا گٹھ جوڑ قائم ہو چکا ہے، جو ملک کے اسٹرٹیجک انفرا اسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ یہ گروہ افغانستان کے غیر حکومتی علاقوں سے کام کر رہے ہیں۔ ان کا یہ انتباہ ایسے وقت میں آیا ہے جب حالیہ ہفتوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی دیکھی گئی ہے۔

بلاشبہ افغانستان میں اقتدار میں موجود بعض عناصر نہ صرف ٹی ٹی پی کی سرپرستی کر رہے ہیں بلکہ اِسے پاکستان کے خلاف بطور پراکسی استعمال کر رہے ہیں، یہ دہشت گرد پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور یہ پاکستانی حدود میں دہشت گردانہ حملوں کے لیے مسلسل افغان سرزمین کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ دراصل افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا ہے۔ داعش خراسان، تحریک طالبان پاکستان اور دیگر دہشت گرد گروپ افغانستان میں منظم ہو رہے ہیں۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جنوبی اور وسطی ایشیا میں دہشت گردی کے واقعات خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔ افغان طالبان دوحہ معاہدے کے تحت دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں نہ دینے کے وعدے پر قائم نہیں رہ سکے ہیں۔

طالبان حکومت میں داعش خراسان اور فتنہ الخوارج جیسی تنظیموں کی دہشت گردانہ کارروائیاں بدستور سرگرم ہیں۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد 2024 میں پاکستان کو اپنی تاریخ کے بدترین دہشت گردانہ حملوں کا سامنا رہا۔ حال ہی میں گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس 2025میں پاکستان کو 163 ممالک میں دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے، جس نے گزشتہ سال کے دوران دہشت گرد حملوں میں ہونے والی اموات میں 45 فیصد اضافے (اور) مجموعی طور پر ہونے والی1,081 ہلاکتوں کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔

اسلام آباد کا کابل سے اختلاف صرف دو باتوں پر ہے، ایک وہاں فتنہ الخوارج کی موجودگی اور دوسرا وہاں سے وہی خوارج آ کر پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں اور یہ دو نکات کئی بار افغان عبوری حکومت کے نوٹس میں بھی لائے گئے ہیں۔ ان دو نکات کے علاوہ افغانستان کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دونوں برادر اسلامی ملک ہیں اور پاکستان دونوں ممالک میں امن کا خواہاں ہے۔ افغانستان کو سوچنا اور سمجھنا چاہیے کہ دوسروں کی نسبت پاکستان اس کے لیے زیادہ اہم ہے۔ پاکستان کے ساتھ اس کے بہت سے مفادات وابستہ ہیں جو بھائی چارے، امن و آشتی اور باہمی اتفاق و اشتراک سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت خطے کے امن کا دشمن
  • مودی کا 234 ملین ڈالرز کے ڈرون منصوبے کا اعلان
  • کیا بھارت کے ساتھ لڑائی میں چین نے پاکستان کی مدد کی؟
  • ایک فاشسٹ خواب کا جنازہ
  • عمران خان کے بیٹے قاسم خان کی ایک بار پھر والد کی ’قید تنہائی‘ پر اظہار تشویش
  • بی جے پی کی ہندو انتہا پسندی کا آلہ کار نریندر مودی بھارتی تاریخ کا بدترین وزیرِاعظم  قرار
  • مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک دبانے کیلئے مودی سرکار کے من گھڑت الزامات
  • بھارت کیساتھ جو کچھ ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا، مودی سرکار ذلیل و خوار ہوئی، خواجہ آصف
  • مودی کی بوکھلاہٹ؛ 234 ملین ڈالرز کے ڈرون منصوبے کا اعلان