Jasarat News:
2025-11-03@19:16:07 GMT

بھارتی تنہائی کی وجہ مودی کا خبط عظمت

اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایک عرصے سے بھارت تنہائیوں کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ آغاز اس خبر سے کرتے ہیں کہ چار ممالک کا ایک اتحاد کواڈ کے نام سے ہے جس میں امریکا، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں یہ اتحاد امریکا نے چین کے خلاف بنایا ہے۔ چین اور جاپان کی تو آپس میں پرانی چپقلش ہے اسی وجہ سے امریکا نے اس کو اس اتحاد میں شامل کیا ہے لیکن اس کے باوجود ان دونوں ملکوں کے درمیان ایک ہزار ارب ڈالر سالانہ کی تجارت ہوتی ہے۔ امریکا کے علاہ ان تین ممالک کی سرحدیں بھی چین سے لگتی ہیں۔ چین کا آسٹریلیا سے تو کوئی تنائو یا کھچائو نہیں ہے باہم تجارت ہوتی اور سماجی تعلقات بہت اچھے ہیں آسٹریلیا میں بہت بڑی تعداد میں چینی رہتے ہیں وہاں چینیوں کے نام سے بڑی بڑی آبادیاں قائم ہیں۔ چین میں چونکہ ایک بچے سے زیادہ پیدائش پر پابندی ہے اس لیے بہت چینی کاروباری اور متمول حضرات آسٹریلیا میں جاکر شادی کرلیتے اور وہ چار پانچ بچوں کے باپ بن جاتے ہیں اس طرح آسٹریلیا میں رہنے والے چینیوں کی ایک بیوی چین میں اور ایک آسٹریلیا میں ہوتی ہیں۔ انڈیا کے چین سے تعلقات دوستی اور دشمنی کے درمیان معلق ہے بلکہ تھوڑا سا جھکائو دشمنی کی طرف ہی جاتا ہے۔ آئے دن سرحدی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ 1962 میں ایک بڑی جنگ بھی ہوچکی ہے۔ پھر یہ کہ امریکا چین کے خلاف بھارت کو جدید اسلحے سے لیس کررہا ہے۔
کواڈ میں کیا ہوا بھارت نے سوچا کہ یہ چند بڑے ممالک کا چھوٹا سا لیکن موثر فورم ہے لہٰذا اس اجلاس میں متفقہ قرارداد میں پاکستان کو دہشت گرد ملک کے طور پر متعارف کرایا جائے کواڈ اتحاد نے پہل گام حملے میں بھارت کے پاکستان مخالف بیانیے کی حمایت سے انکار کردیا۔ گروپ نے کسی ملک کا نام لیے بغیر واقعہ کی مذمت کی اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے پر زور دیا۔ بھارت کی جانب سے پاکستان پر بغیر کسی ثبوت کے حملے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ بھارت کے لیے ایک سفارتی دھچکا ہے اور اس سے پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈے کو عالمی سطح پر نقصان پہنچا ہے۔ اس سے پہلے پچھلے ماہ چین میں شنگھائی تعاون تنظیم کی وزارت دفاع کے اجلاس میں بھارت کو پاکستان سے اس وقت ایک اور ذلت آمیز شکست اور سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے پہل گام واقع سے پاکستان کا تعلق جوڑنے کی کوشش کی تو بھارت کے سوا تمام شرکاء نے متفقہ طور پر اس کا موقف مسترد کردیا اجلاس نے اس کے بجائے بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے بارے میں پاکستان کا موقف اپنے مشترک اعلامیے میں شامل کرلیا۔ اس پر بھارتی وفد اجلاس سے بائیکاٹ کرگیا اور اعلامیے پر دستخط بھی نہیں کیے۔ شنگھائی تنظیم مغربی ملکوں کے طاقتور بلاکس کے مقابلے میں چین اور وسط ایشیائی ملکوں کا سیاسی پلیٹ فارم ہے بھارت اس میں اس لیے شامل ہوا تھا سینٹرل ایشیا کے ملکوں میں اپنا اثر رسوخ بڑھا سکے مگر وہ اپنے عزائم میں ناکام رہا۔ مئی کی جنگ میں شکست کے بعد بھارت ویسے تو دنیا میں منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہا لیکن بھارتی میڈیا نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی، مغربی میڈیا نے بھارتی میڈیا پر سخت تنقید کی اور اس کا مذاق بھی اُڑایا۔ ابھی دودن قبل چین میں ایس سی او کے وزرائے مواصلات کا اجلاس تھا اس وزارتی اجلاس میں بھارتی وزیر غائب رہے وہ پاکستان کا سامنا نہیں کرسکے جبکہ پاکستان سے وزیر مواصلات عبدالعلیم خان وفد کے ہمراہ شریک تھے۔
یہ تو کچھ تازہ واقعات تھے لیکن جنگ کے فوری بعد بھارت نے جو 67 رکنی وفد دنیا کے کئی ممالک میں بھیجے جن پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ اس پورے دورے میں بھارتی وفد کو شدید قسم کی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کسی ملک نے بھارتی موقف کی تائید نہیں کی اور اس وفد کو مایوس واپس لوٹنا پڑا اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا میں اسرائیل کے سوا کوئی ملک ہندوستان کے ساتھ نہیں ہے۔ لیکن اس سے بھی بہت پہلے بھارت کے اپنے قریبی پڑوسی ممالک سے تعلقات خراب ہوچکے تھے ان میں بنگلا دیش، سری لنکا، برما، بھوٹان، نیپال اور مالدیپ جیسے چھوٹے ممالک ہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی ان سب ممالک سے پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ کر مکالمہ کرتے ہیں اور انہیں اپنے سے بہت کمتر سمجھتے ہیں۔ پچھلے سال بنگلا دیش کی حسینہ واجد کا اقتدار عوامی غیظ و غضب کے سیلاب میں بہہ کر غرق ہوگیا اور وہ بھارت فرار ہو گئیں پاکستان سے تو اس کا چھتیس کا آکڑا رہتا اور چین جو انڈیا سے کہیں بڑا ملک ہے اس سے بھی نہیں بنتی۔ سارک تنظیم کو یورپی یونین کے طرز پر چلانے کی سب کی خواہش تھی لیکن نریندر مودی کے دور حکومت میں سارک غیر فعال ہوگئی صرف اس وجہ سے اس میں بھارت اپنی چلانا چاہتا تھا اور اپنے پڑوس کے چھوٹے ممالک بالخصوص سارک سے وابستہ ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت بھارت اپنا حق سمجھتا تھا اسی لہے ان ممالک سے تعلقات خراب ہوگئے اور اس طرح بھارت تنہا رہ گیا۔
اب ہم اس بات کا جائزہ لیں گے بھارت کو اس صورتحال کا سامنا کیوں کرنا پڑرہا ہے۔ سب سے پہلی اور اہم وجہ تو بھارتی حکمرانوں کا وہ مائنڈ سیٹ ہے جس کے تحت وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح خفیہ تنظیم سی آئی اے جس کو چاہے مروا دیتی ہے جس حکومت کا چاہے تختہ الٹ دیتی ہے، موساد بھی یہی کام کرتی ہے ایم فائیو اور کے جی بی کے بارے میں بھی اسی طرح کا تاثر ہے تو پھر ہم بھی امریکا، اسرائیل، برطانیہ اور روس کے برابر ہیں اس لیے ہماری خفیہ تنظیم را کو بھی یہ حق حاصل ہے وہ اپنے مخالفین کو جس ملک میں چاہے قتل کروا سکتی ہے۔ جیسا کے پچھلے دنوں کنیڈا میں ایک سکھ رہنما کو قتل کیا تھا جس پر حکومت کنیڈا نے بہت سخت احتجاج کیا تھا۔
یہ نریندر مودی کی خبط عظمت کا مسئلہ ہے کہ وہ اس طرح کے قتل اور ملکوں میں مداخلت کرکے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں اور پھر برملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ سی آئی اے، موساد، کے جی بی نے یا کبھی ان کے ممالک نے یہ نہیں کہا کہ ہم نے اپنے فلاں دشمن کو قتل کروایا ہے یہ الگ بات ہے کہ بیس پچیس سال بعد کوئی پیپر لیک ہوجائے یا کوئی صاحب اپنی کتاب میں انکشاف کریں کہ فلاں رہنما کا قتل اس تنظیم نے کیا تھا۔ یہاں تو 2015 میں مودی نے ڈھاکا میں خطاب کرتے ہوئے برملا یہ کہا کہ ہم نے اپنی فوج بھیج کر پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ اسی طرح کنیڈا، پاکستان، امریکا اور دیگر ممالک میں را نے اپنے مخالفین کے جو قتل کیے بھارتی وزراء نے بڑے فخر سے کہا کہ ہم نے اپنے مخالفین کو ان کے ملکوں میں گھس کر قتل کیا ہے۔ دو ماہ قبل نیو یارک ٹائم نے تو اس کی پوری تفصیل دی تھی کہ کس طرح را نے امریکا سمیت دیگر ممالک میں اپنے مخالفین کو قتل کیا ہے۔ ترقی یافتہ اور بڑے ممالک کے حکمران اسی لیے مودی سے ناراض ہیں کہ وہ ملک جہاں پچاس فی صد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جس کی معاشی حالت بھی کوئی بہت آئیڈیل نہیں وہ اپنی پگڑی ہمارے برابر رکھنا چاہتا ہے چھوٹے ممالک پہلے ہی خفا تھے پہل گام واقع میں نریندر مودی کا غرور اور تکبر اپنے عروج پر تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ہم ایک ہی جھٹکے میں پاکستان کو مزا چکھا دیں گے۔ لیکن غرور کا سر نیچا ہوا مودی جی زمین پر پڑے اکیلے کراہ رہے ہیں اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آرہا ہے۔ کچھ دن بعد جب مودی جی خبط عظمت کے سحر سے باہر آئیں گے تو پھر ان کو زمینی حقائق کا پتا چلے گا۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ا سٹریلیا میں اپنے مخالفین میں بھارت بھارت کے کرتے ہیں کا سامنا چین میں اور اس ہیں کہ

پڑھیں:

بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش

پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے کہا ہے کہ پاکستانی پروازوں پر بھارتی فضائی حدود کی پابندی سے پاکستان بنگلہ دیش کے درمیان براہ راست فضائی رابطوں میں تاخیر کا سامنا ہے، کراچی اور چٹا گانگ کے درمیان براہ راست بحری رابطوں سے تجارتی سامان کی ترسیل کا دورانیہ بیس روز سے کم ہوکر پانچ چھ دن تک مختصر کیا جاسکتا ہے جس سے تجارتی سرگرمیوں میں تیزی لائی جاسکے گی اور دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا۔

یہ بات انہوں نے *ڈاکٹر اے ایس ایم انیس الزمان چوہدری، چیف ایڈوائزر حکومتِ بنگلہ دیش کے خصوصی معاون کے اعزاز میں منعقدہ خیرمقدمی تقریب میں کہی، جس کا اہتمام **بورڈ آف مینجمنٹ، قائداعظم ہاؤس میوزیم – انسٹیٹیوٹ آف نیشن بلڈنگ* نے کراچی میں کیا۔

اقبال حسین خان نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے اور مثبت دور میں داخل ہو رہے ہیں۔بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعاون، دوستی اور عوامی رابطوں کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

اپنے خطاب میں ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے دونوں ممالک کے تاریخی روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ماضی میں سیاسی جدائی واقع ہوئی، مگر بنگلہ دیش اور پاکستان کے عوام آج بھی باہمی محبت اور بھائی چارے کے جذبات رکھتے ہیں۔

انہوں نے حالیہ برسوں میں ویزا پالیسی میں مثبت تبدیلیوں کو سراہتے ہوئے بتایا کہ اب بنگلہ دیشی شہری صرف 24 گھنٹوں میں پاکستانی ویزا حاصل کر سکتے ہیں اور پاسپورٹ جمع کرانے کی ضرورت نہیں رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں قائم بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمیشن کو اب مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ ویزا براہِ راست جاری کرے، جس سے سابقہ رکاوٹیں ختم ہو گئی ہیں۔

ہائی کمشنر نے *ڈھاکا اور پاکستان کے بڑے شہروں کے درمیان براہِ راست پروازوں * کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فضائی حدود کی پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ فی الحال تاخیر کا شکار ہے، تاہم دونوں ممالک کے متعلقہ ادارے اس مسئلے کے حل کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے *چٹاگانگ اور کراچی کے درمیان براہِ راست بحری رابطے* کی تجویز بھی پیش کی، جس سے مال برداری کا وقت بیس دن سے کم ہو کر صرف پانچ یا چھ دن رہ جائے گا۔ ان کے مطابق یہ اقدام تجارتی سرگرمیوں میں تیزی اور دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا۔

اقبال حسین خان نے تعلیم، سیاحت، صحت اور ثقافتی تبادلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی وفود اور جامعاتی سطح پر کھیلوں کے تبادلے شروع ہو چکے ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور تعاون میں اضافہ ہوگا۔

قائد اعظم ہاؤس میوزیم اور انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل بلڈنگ کے وائس چیئرمین اکرام سہگل نے اپنے خطاب میں دونوں ممالک کے تاریخی و ثقافتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پاکستان اور بنگلہ دیش آج دو علیحدہ ممالک ہیں، مگر وہ مشترکہ تاریخ، ثقافت اور اقدار کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم دو ممالک ضرور ہیں، لیکن ایک قوم ہیں۔''

انہوں نے زور دیا کہ اگر دونوں ممالک ویزا کی پابندیوں کو ختم کر دیں، باہمی تجارت پر محصولات عائد نہ کریں اور ایک دوسرے کی کرنسی کو قابلِ تبادلہ قرار دیں تو خطے میں خیرسگالی، اعتماد اور معاشی ترقی کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ اقدامات پیچیدہ معاہدوں کے بغیر ایک ہی صفحے کے فیصلے سے ممکن ہیں۔

اکرام سہگل نے دونوں ممالک کے درمیان *براہِ راست پروازوں اور بحری رابطوں * کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ کراچی اور چٹاگانگ سمیت دیگر بندرگاہوں سے تجارت تیز رفتار اور مؤثر ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر برآمدات بالخصوص *بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری* براہِ راست یورپ تک پہنچنے لگے تو دونوں ممالک کی معیشت کو بے پناہ فائدہ ہوگا۔

اپنے خطاب میں انہوں نے 1971 کے واقعات سے متعلق ذاتی مشاہدات کا بھی ذکر کیا اور زور دیا کہ دونوں ممالک کو ''حقیقت پسندی، مفاہمت اور سچائی'' کی بنیاد پر تعلقات کو آگے بڑھانا چاہیے۔

اکرام سہگل نے آخر میں کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش اگر باہمی اعتماد، سچائی اور نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھیں تو دونوں ممالک مشترکہ اقدار اور مقصد کے تحت خوشحالی کے ایک نئے دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔

تقریب سے خطاب میں ڈاکٹر اے ایس ایم انیس الزمان چوہدری مشیر خزانہ بنگلہ دیش نے کہا کہ دونوں ملکوں کو حقیقت تسلیم کرنی ہوگی، دونوں ملکوں کے درمیان بدگمانیاں پھیلائی گئیں ہمیں اپنے دشمن پر نظر رکھنا ہوگی جو اس وقت بھی بدگمانیاں پھیلا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد میں کمی اور غلط معلومات نے فاصلے پیدا کیے اسلام آباد میں دو اہم سڑکیں تحریک پاکستان کی سرکردہ بنگالی شخصیات کے نام سے موسوم ہیں اور بنگلہ دیش میں بھی محمد علی جناح اور دیگر سرکردہ شخصیات کے نام پر ادارے آج بھی قائم ہیں ہمیں یہ معلومات اور اعتماد نئی نسل کو منتقل کرنا ہوگی۔

انہوں نے پاکستان کی معاشی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکسان نے ساٹھ کی دہائی مں تیزی سے ترقی کی جب کوریا انتہائی غربت کا شکار تھا اور پاکستان سے مددکا خواہش مند تھا۔ انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں کے فنڈز کے بجائے خود انحصاری کو پائیدار ترقی کا راستہ قرار دیا۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت بیرونِ ملک اپنے واحد فوجی اڈے سے ہاتھ دھو بیٹھا، تاجکستان کی عینی ائیربیس خالی کردی
  • ورلڈ کپ میں تاریخی کامیابی نے انڈینز کو ’1983 کی یاد دلا دی، مودی سمیت کرکٹ لیجنڈز کا خراجِ تحسین
  • میری دعا ہے کہ کراچی اپنی پرانی عظمت کو بحال کر سکے: احسن اقبال
  • آپریشن سندور کی بدترین ناکامی پر مودی سرکار شرمندہ، اپوزیشن نے بزدلی قرار دیدیا
  • آپریشن سندور پر مودی کی خاموشی سیاسی طوفان میں تبدیل
  • بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش
  • بھارتی خفیہ ایجنسی نے پاکستانی مچھیرے کو اپنے لیے کام کرنے پر آمادہ کیا، عطا تارڑ
  • بھارتی خفیہ ایجنسی نے پاکستانی مچھیرے کو پیسوں لا لالچ دیکر اپنے لیے کام کرنے پر آمادہ کیا، عطا تارڑ
  • بھارتی خفیہ ایجنسی نے اعجاز ملاح کو اپنے لیے کام کرنے پر آمادہ کیا: عطا تارڑ
  • مودی سرکار میں ارکان پارلیمان ارب پتی بن گئے، بھارتی عوام  انتہائی غربت سے بے حال