پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ آپریشن بنیان مرصوص میں پاکستان کی کامیابی میں بھارت کی جانب سے بیرونی حمایت جیسے الزامات غیر ذمے دارانہ اور حقائق کے منافی ہیں۔
کسی بھی بھارتی مہم جوئی کا بغیر کسی ہچکچکاہٹ کے منہ توڑ، شدید، گہرا، تکلیف دہ اور سوچ سے بڑھ کر زیادہ سخت جواب دیا جائے گا۔ ان خیالات انھوں نے نیشنل سیکیورٹی اینڈ وارکورس کرنے والے مسلح افواج کے فارغ التحصیل افسران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے صائب خیالات کا اظہار کر کے بھارت کے مذموم عزائم بے نقاب کیے ہیں، کیونکہ بھارتی وزیراعظم نے جو ماحول بنایا ہے، وہ انھیں پاکستان کے خلاف ایک بار کچھ کرنے پر مجبور کرے گا تاکہ اندرونی ہنگامہ آرائی کو پرسکون کیا جا سکے، لیکن جیسے ہی بھارت کوئی شرارت کرے گا، تو پاکستان کا رد عمل انھیں حیران کردے گا۔
یہ بات فیلڈ مارشل نے دوٹوک الفاظ میں بھارت پر واضح کردی ہے۔ درحقیقت مجموعی طور پر بھارت نے پہلے ہی اپنی ساکھ کھو دی ہے، اگر وہ کوئی اور کارروائی کرتا ہے تو شاید انھیں مزید ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا، پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت جو بھی کشیدگی چل رہی ہے، وہ بھارت کی جانب سے یک طرفہ ہے۔
بھارت نے عالمی برادری یا اپنے لوگوں کو کوئی بھی ثبوت دکھائے بغیر پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا، لیکن اس کے کوئی شواہد موجود نہیں۔ دراصل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کے خلاف اقدامات کر کے اپنے ملک کے اندر ایک ماحول بنا رہے ہیں تاکہ اینٹی پاکستان جماعتوں کا ووٹ اسے مل سکے۔ یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ بھارت میں ہمیشہ پاکستان کے نام پر سیاست کی جاتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی مذہب کے نام پر سیاست کررہی ہے، بھارتی عوام میں پاکستان کے حوالے سے خوف پیدا کیا جا رہا ہے۔
حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران پاک فوج نے نہایت پیشہ ورانہ طریقے سے جوابی کارروائی کی، جس میں میزائلوں، ڈرونز اور وسیع پیمانے پر الیکٹرانک جامنگ کے ذریعے بھارت کے اہم عکسری ٹھکانوں اور انسٹالیشنز کو ناکارہ و تباہ کر دیا گیا تھا، اس کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی ، بھارت کی خارجہ حکمت عملی بھی کامیاب نہ ہوسکی، دنیا نے محتاط غیر جانبداری اختیار کی، واشنگٹن نے جنگ بندی کی اپیل میں دونوں جوہری ہمسایوں کو یکساں طور پر مخاطب کیا۔
بیجنگ نے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کا اشارہ دیا اور ماسکو نے بھارت کو متوقع سفارتی حمایت فراہم کرنے سے گریز کیا جب کہ ترکی ، ایران اور آذربائجان نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی ۔ بھارت کا پروپیگنڈے پر مبنی بیانیہ بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل نہ کر سکا، یوں یہ جنگ بھارت کے لیے عسکری، سفارتی اور میڈیا کی سطح پر ذلت آمیز شکست کا باعث بن گئی ۔ پاکستان کی مسلح افواج نے فضائی، میزائل، سائبر اور الیکٹرانک وار فیئر میں اپنی مہارت ثابت کردی۔
چینی ساختہ جدید ترین سینسرز، ڈیٹا لنکس اور الیکٹرانک ایک پوڈز نے پاکستان ایئر فورس کے پائلٹس کو (جو پہلے ہی رات کے وقت اور کٹھن خطوں میں کم بلندی پر پرواز کی مہارت رکھتے تھے)، نیٹ ورک برتری فراہم کی جس سے بھارت کے رافیل طیارے ناکام ہوگئے۔ مربوط الیکٹرانک حملوں نے بھارتی کمانڈ سرکٹس کو اتنی دیر کے لیے مفلوج کر دیا کہ اسٹینڈ آف گولہ بارود بلا مزاحمت اپنے اہداف پر جا گرے، جو اس بات کو واضح کرتا ہے کہ کسی بھی پلیٹ فارم کی کارکردگی اس کے انفارمیشن گرڈ کی پیچیدگی سے مربوط ہوتی ہے۔
بھارت کے لیے یہ تاریخی سبکی بھی ۔بھارتی حکومت اور فوج کی نیندیں اڑگئی ہیں، اسی لیے بھارتی اعلیٰ عہدیدار مختلف مواقع پر ’’ آپریشن سندور رکا ہوا ہے ختم نہیں ہوا‘‘ جیسے بیانات دے رہے ہیں تاکہ عوام کو مطمئن رکھا جاسکے ۔’آپریشن سندور‘ پر حالیہ بڑھکیں اور دھمکیاں دراصل اسٹرٹیجک ناکامی کا اعتراف ہیں۔ شکست خوردہ بھارتی حکومت اب بھی پروپیگنڈے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن بھارتی قوم سوال اٹھا رہی ہے کہ اگر آپریشن واقعی کامیاب تھا تو فوجی قیادت بار بار وضاحتیں کیوں دے رہی ہے؟ ان اختلافات کی وجہ سے بھارت کے امریکا سے دفاعی معاہدوں کی امیدیں بھی دم توڑتی جا رہی ہیں۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش نے عالمی سطح پر اس حقیقت کو پھر سے اجاگر کیا کہ کشمیر ایک حل طلب مسئلہ ہے نہ کہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ بھارت کے لیے یہ بہت بڑا مسلہ بن گیا ہے ۔ مسلہ کشمیر پر بھارت کی امریکا میں ڈپلومیسی ناکام ہوگئی ہے۔
کینیڈا بھی بھارت کے ساتھ نہیں ہے۔ امریکا نے بھارت اور پاکستان کو دوبارہ ایک ساتھ جوڑ دیا ہے جس سے نئی دہلی کی خطے میں بالادستی کی خواہش کو نقصان پہنچا ہے۔ ان نئی پیشرفتوں نے بھارت کو 1962 میں چین کے ساتھ جنگ کے بعد کی طرح ایک بار پھر سب سے شدید اسٹرٹیجک ذلت کا سامنا کرنے پر مجبور کیا ہے۔
پاک بھارت کشیدگی میں دونوں ممالک کو معاشی طور پر نقصانات اٹھانا پڑیں گے۔ بھارت پاکستان سے واہگہ بارڈر کے ذریعے بہت سی تجارت کرتا ہے، یہ تجارت پاکستان انڈیا اور پاکستان سے افغانستان کے درمیان اور پھر وہاں سے یہ اشیا ایران بھی جاتی ہیں۔ واہگہ بارڈر کے ذریعے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت ہو رہی تھی، بالکل معطل ہو چکی ہے اور اس سے افغانستان کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔
افغانستان کے ڈرائی فروٹس خاص طور پر جو انڈیا جایا کرتے تھے، اب نہیں جا سکیں گے، اس سے افغانستان کو بھی نقصان ہوگا، اور جو چیزیں بھارت سے افغانستان جایا کرتی تھیں ان کے نہ جانے سے بھارت کو نقصان ہوگا، یہ کوئی بڑا نقصان تو نہیں لیکن دھچکا تو ہے۔ پاکستان میں بڑا فیصلہ کرتے ہوئے بھارت کی فضائی حدود بند کردی ہے، اور یہ فیصلہ انڈین ایوی ایشن کو لے کر بیٹھ جائے گا۔
دوسری جانب پاکستان نے اقوام متحدہ کو ایک بار پھر آگاہ کیا ہے کہ اس بات کے مستند شواہد موجود ہیں کہ دہشت گرد گروہوں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ کے درمیان بڑھتا ہوا گٹھ جوڑ قائم ہو چکا ہے، جو ملک کے اسٹرٹیجک انفرا اسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ یہ گروہ افغانستان کے غیر حکومتی علاقوں سے کام کر رہے ہیں۔ ان کا یہ انتباہ ایسے وقت میں آیا ہے جب حالیہ ہفتوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی دیکھی گئی ہے۔
بلاشبہ افغانستان میں اقتدار میں موجود بعض عناصر نہ صرف ٹی ٹی پی کی سرپرستی کر رہے ہیں بلکہ اِسے پاکستان کے خلاف بطور پراکسی استعمال کر رہے ہیں، یہ دہشت گرد پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور یہ پاکستانی حدود میں دہشت گردانہ حملوں کے لیے مسلسل افغان سرزمین کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ دراصل افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا ہے۔ داعش خراسان، تحریک طالبان پاکستان اور دیگر دہشت گرد گروپ افغانستان میں منظم ہو رہے ہیں۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جنوبی اور وسطی ایشیا میں دہشت گردی کے واقعات خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔ افغان طالبان دوحہ معاہدے کے تحت دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں نہ دینے کے وعدے پر قائم نہیں رہ سکے ہیں۔
طالبان حکومت میں داعش خراسان اور فتنہ الخوارج جیسی تنظیموں کی دہشت گردانہ کارروائیاں بدستور سرگرم ہیں۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد 2024 میں پاکستان کو اپنی تاریخ کے بدترین دہشت گردانہ حملوں کا سامنا رہا۔ حال ہی میں گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس 2025میں پاکستان کو 163 ممالک میں دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے، جس نے گزشتہ سال کے دوران دہشت گرد حملوں میں ہونے والی اموات میں 45 فیصد اضافے (اور) مجموعی طور پر ہونے والی1,081 ہلاکتوں کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔
اسلام آباد کا کابل سے اختلاف صرف دو باتوں پر ہے، ایک وہاں فتنہ الخوارج کی موجودگی اور دوسرا وہاں سے وہی خوارج آ کر پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں اور یہ دو نکات کئی بار افغان عبوری حکومت کے نوٹس میں بھی لائے گئے ہیں۔ ان دو نکات کے علاوہ افغانستان کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دونوں برادر اسلامی ملک ہیں اور پاکستان دونوں ممالک میں امن کا خواہاں ہے۔ افغانستان کو سوچنا اور سمجھنا چاہیے کہ دوسروں کی نسبت پاکستان اس کے لیے زیادہ اہم ہے۔ پاکستان کے ساتھ اس کے بہت سے مفادات وابستہ ہیں جو بھائی چارے، امن و آشتی اور باہمی اتفاق و اشتراک سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سے افغانستان افغانستان کے اور پاکستان میں پاکستان پاکستان کے پاکستان کی کے درمیان نے بھارت بھارت کی بھارت کو بھارت کے کے ساتھ رہے ہیں کے لیے رہی ہے کے بعد
پڑھیں:
افغانستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیمیں پوری دنیا کے لئے خطرہ ہیں. عاصم افتخار
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 جولائی ۔2025 )اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے کہا ہے کہ افغانستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیمیں صرف ہمارے لئے نہیں پوری دنیا کیلئے خطرہ ہیں، القاعدہ ، ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسند افغانستان سے بدستور سرگرم ہیں ان خیالات کااظہارانہوں نے قوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں افغانستان کی صورتحال پر مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے کیا.(جاری ہے)
پاکستان کے مستقل مندوب کا کہنا تھا کہ ہمیں افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی دراندازی کا سامنا ہے، کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں چھوڑے گئے ہتھیار پاکستان پر حملوں کیلئے استعمال ہو رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ یہ ہتھیار افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کی جانب سے پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں، جن میں گزشتہ دو ہفتوں کے حملے بھی شامل ہیں. انہوں نے کہاکہ افغانستان کسی بھی ملک کیخلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہیے، افغان سر زمین پاکستان کیخلاف استعمال ہو رہی ہے انہوں نے اقوام متحدہ کو آگاہ کیا ہے کہ اس بات کے مستند شواہد موجود ہیں کہ دہشت گرد گروہوں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) ، اور مجید بریگیڈ کے درمیان بڑھتا ہوا گٹھ جوڑ قائم ہو چکا ہے جو ملک کے اسٹریٹیجک انفرااسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں. انہوں نے کہاکہ یہ گروہ افغانستان کے غیر حکومتی علاقوں سے کام کر رہے ہیں پاکستانی مندوب نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوﺅں کی تعداد تقریبا 6 ہزار ہے، اقوام متحدہ کی جانب سے نامزد سب سے بڑا دہشت گرد گروہ ہے، جو افغان سرزمین سے کام کر رہا ہے اور یہ نہ صرف پاکستان بلکہ علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے بھی خطرہ ہے. انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ افغانستان دوبارہ ایسے دہشت گردوں کی آماج گاہ نہ بنے جو اپنے ہمسایوں اور وسیع تر عالمی برادری کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، انہوں نے اقوام متحدہ اور علاقائی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ ان عناصر کے خلاف کارروائی کریں جو اس خطے میں دوبارہ تنازع کو ہوا دے سکتے ہیں.