صدر ٹرمپ کی پیوٹن پر سخت تنقید، روس پر مزید سخت پابندیوں کا عندیہ دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
واشنگٹن:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن پر سخت تنقید کرتے ہوئے یوکرین کے لیے امریکی دفاعی ہتھیاروں کی نئی کھیپ کی منظوری دے دی ہے۔
ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ماسکو کے خلاف مزید سخت اقتصادی پابندیوں پر بھی غور کر رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں کابینہ کے اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے روس-یوکرین جنگ میں ہونے والے انسانی جانوں کے نقصان پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں پیوٹن سے خوش نہیں ہوں کیونکہ روسی اور یوکرینی فوجی ہزاروں کی تعداد میں مارے جا رہے ہیں، اور روسی صدر کی جانب سے بہت خوش اخلاقی دکھائی جاتی ہے لیکن وہ صرف دکھاوے پر مبنی ہوتی ہے
صدر ٹرمپ نے روس کے خلاف سینیٹ میں زیر غور ایک سخت پابندیوں کے بل کی حمایت کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ میں اس بل پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہوں۔
یہ بل ریپبلکن سینیٹر لنزے گراہم (جنوبی کیرولائنا) اور ڈیموکریٹک سینیٹر رچرڈ بلومینتھل (کنیکٹی کٹ) نے پیش کیا ہے، جس کے تحت روس سے تیل، گیس، یورینیم اور دیگر مصنوعات خریدنے والے ممالک پر 500 فیصد اضافی محصولات (ٹیکس) عائد کیے جائیں گے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے صدارتی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی روس-یوکرین جنگ کو ایک دن میں ختم کر دیں گے تاہم ان کی کوششیں تاحال کامیاب نہیں ہو سکیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بنگلہ دیش: عبوری حکومت کا سیاسی اختلافات پر اظہارِ تشویش، اتفاق نہ ہونے کی صورت میں خود فیصلے کرنے کا عندیہ
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی ایڈوائزری کونسل نے ملک میں جاری سیاسی اختلافات پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں آئندہ ایک ہفتے میں جولائی نیشنل چارٹر اور مجوزہ آئینی اصلاحات پر اتفاق نہ کر سکیں، تو حکومت خودمختارانہ طور پر فیصلہ کرے گی۔
یہ اعلان پیر کے روز چیف ایڈوائزر کے دفتر (تیجگاؤں، ڈھاکا) میں ہونے والے ہنگامی اجلاس کے بعد کیا گیا، جس کی صدارت چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے کی۔
اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے قانونی مشیر پروفیسر آصف نذرل نے بتایا کہ اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان جلد اتفاقِ رائے نہ ہوا تو حکومت ’خود اپنا راستہ اختیار کرے گی۔‘
اجلاس میں دیگر مشیروں میں محمد فوزالکبیر خان، عادل الرحمان خان اور پریس سیکریٹری شفیع الحق عالم بھی شریک تھے۔
سیاسی پس منظر اور تنازعہ کی نوعیتگزشتہ ہفتے نیشنل کنسینس کمیشن نے حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی تھی، جس میں تجویز دی گئی تھی کہ آئینی اصلاحات پر ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے ایک خصوصی آرڈر جاری کیا جائے۔ اس کے مطابق، اگر ریفرنڈم کامیاب ہوتا ہے تو آئندہ پارلیمنٹ کو آئینی ترمیمی ادارہ کے طور پر تشکیل دیا جائے گا، جو 270 دن کے اندر اصلاحات مکمل کرے گی۔
تاہم ریفرنڈم کے انعقاد کے وقت پر سیاسی جماعتوں میں اختلاف ہے۔ بعض جماعتیں چاہتی ہیں کہ یہ ریفرنڈم عام انتخابات کے ساتھ کرایا جائے، جبکہ دیگر جماعتیں اسے انتخابات سے قبل منعقد کرنے کی حامی ہیں۔ یہی اختلافات عبوری حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔
پروفیسر آصف نذرل کا بیانپروفیسر نذرول نے کہا ’ہم کوئی الٹی میٹم نہیں دے رہے، بلکہ مکالمے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں باہمی اتفاق پر نہیں پہنچتیں تو حکومت اپنا لائحہ عمل خود طے کرے گی۔‘
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ حکومت مزید مذاکرات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
’ہم توقع کرتے ہیں کہ تمام جمہوری اور اینٹی فاشسٹ جماعتیں مل بیٹھ کر رہنمائی فراہم کریں۔ ان کے پاس تعاون اور مفاہمت کی طویل تاریخ ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک بڑی جماعت کا کہنا ہے کہ کمیشن کی سفارشات پہلے سے طے شدہ نکات سے مختلف ہیں، تو پروفیسر نذرل نے براہِ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا ’ہم امید کرتے ہیں کہ جماعتیں خود اپنے اختلافات حل کریں گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا۔‘
انتخابات کے شیڈول کی تصدیقایڈوائزری کونسل نے اس بات کی بھی ایک بار پھر یقین دہانی کرائی کہ قومی انتخابات فروری 2026 کے اوائل میں منعقد کیے جائیں گے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، اگر فریقین کے درمیان آئندہ چند دنوں میں اتفاق نہ ہوا تو عبوری حکومت کا یکطرفہ اقدام ملک میں ایک نئے سیاسی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں