سیویل کانفرنس: قرضوں میں ڈوبے ممالک کی بپتا سننے کے فورم کا قیام
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 02 جولائی 2025ء) مالیات برائے ترقی کے موضوع پر اقوام متحدہ کی چوتھی کانفرنس میں قرضوں کے بوجھ تلے دبے ممالک کو عالمی مالیاتی نظام میں مربوط اقدامات اور اپنی آواز موثر طریقے سے دوسروں تک پہنچانے کا نیا طریقہ کار متعارف کرایا گیا ہے۔
سپین کے شہر سیویل میں جاری کانفرنس کے تیسرے روز متعارف کرائے گئے 'مقروض ممالک کے فورم' کو قرضوں کے عالمی نظام میں اصلاحات لانے کی ایک اہم کوشش قرار دیا گیا ہے جسے اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہے اور یہ کانفرنس کے اختتام پر اس کے نتائج سے متعلق جاری کی جانے والی حتمی دستاویز کا اہم حصہ ہو گا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصر کی وزیر مںصوبہ بندی و معاشی ترقی ڈاکٹر رانیا المشاط نے کہا کہ یہ محض بات چیت نہیں بلکہ عملی اقدام ہے۔
(جاری ہے)
مقروض ممالک کا فورم ایک حقیقی منصوبہ ہے جو بہت سے ممالک نے قرضوں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے مشترکہ آواز اور حکمت عملی اختیار کرنے کے لیے بنایا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ تجارت و ترقی (انکٹاڈ) کی سیکرٹری جنرل ریبیکا گرینسپین نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک قرضوں کے حصول کے لیے عام طور پر اکیلے بات چیت کرتے ہیں جبکہ انہیں قرض دہندہ ممالک کے متحدہ بلاک کا سامنا ہوتا ہے۔
آج 3.4 ارب لوگ ایسے ممالک میں رہتے ہیں جنہیں اپنے ہاں صحت و تعلیم سے کہیں زیادہ وسائل قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔فورم کے نمایاں مقاصد
کانفرنس میں اس فورم کی اتفاق رائے سے منظوری دی گئی جبکہ حکومتی قرضوں کے حوالے سے اصلاحات لانے کے وعدے بھی کیے گئے۔ اس میں قرض کی فراہمی اور وصولی کے عمل میں مزید شفافیت لانے، قرض دہندہ ممالک میں ارتباط کو بہتر بنانے اور قرضوں کی ادائیگی میں مزید سہولت کی فراہمی کے لیے کثیرفریقی قانونی طریقہ کار وضع کرنے کی بات بھی شامل ہے۔
فورم کے تحت قرضوں کی پائیداری سے متعلق حکمت عملی متعلقہ ممالک خود وضع کریں گے اور موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک کے لیے قرض کی ادائیگی ملتوی کرنے کی سہولت حاصل کی جائے گی۔ اس میں قدرتی ماحول یا موسمیاتی تبدیلی سے متعلق نمایاں اقدامات پر قرضوں میں رعایت دینے کے حوالے سے بڑے پیمانے پر مدد کی توثیق بھی کی گئی ہے۔
یہ فورم قرضوں کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے قائم کردہ ماہرین کے گروپ کی جانب سے پیش کردہ 11 سفارشات میں سے ایک ہے۔ اس سے رکن ممالک کو اپنے تجربات کے تبادلے، تکنیکی و قانونی مشاورت کے حصول، قرض کی فراہمی اور حصول کے ضابطوں کو ذمہ دارانہ بنانے اور اس ضمن میں گفت و شنید کی اجتماعی قوت پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
ترقی پذیر ممالک (گلوبل ساؤتھ) طویل عرصہ سے مطالبہ کرتے آئے تھے کہ قرضوں کے نظام میں فیصلہ سازی کو مزید مشمولہ ہونا چاہیے جہاں فی الوقت قرض دہندہ ممالک کا غلبہ ہے۔
خاموش اور سنگین بحرانکانفرنس کے موقع پر افریقی ملک زیمبیا کے وزیر خارجہ مولامبو ہیمبے نے صحافیوں کو بتایا کہ اس اقدام کی بدولت طویل مدتی شراکتوں اور باہمی احترام و مشترکہ ذمہ داری کو فروغ دینے میں مدد ملے گی جبکہ ان کا ملک اس حوالے سے ابتدائی اجلاس کی میزبان کے لیے تیار ہے۔
سپین کے وزیر خزانہ کارلوس کوئرپو نے کہا کہ دنیا کو قرضوں کے خاموش مگر سنگین بحران کا سامنا ہے جو ہنگامی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ مقروض ممالک کے فورم کا قیام 70 سال قبل قرض دہندہ ممالک کے پیرس کلب کے قیام سے مماثل ہے۔
2030 تک پائیدار ترقی کے ایجنڈے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے محمود محی الدین نے کہا کہ یہ فورم ایک ایسے نظام کا براہ راست جواب ہے جس نے مقروض ممالک کو طویل عرصہ سے لگ تھلگ کر رکھا تھا۔
یہ فورم ان ممالک کی مضبوط آواز ہو گا، قرضوں کے نظام میں شفافیت لائے گا اور اس کی بدولت قرض کے کسی بحران کو شروع ہونے سے پہلے ہی روکا جا سکے گا۔کانفرنس کے نتائج پر تنقیدآج سول سوسائٹی کے نمائندوں نے سیویل کانفرنس کے نتائج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ قرضوں کے عالمگیر نظام میں بامعنی اصلاحالات کا موقع گنوا دیا گیا ہے۔
افریقن فورم اور نیٹ ورک برائے قرض و ترقی کے نمائندے جیسن بریگانزا نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس کے پہلے روز اس کی جس حتمی دستاویز کو منظور کیا گیا وہ توقعات پر پورا نہیں اترتی۔ یہ کمزور دستاویز ہے جس میں عزائم کی کمی ہے۔ براعظم افریقہ کے تقریباً نصف ممالک کو قرضوں کے بحران کا سامنا ہے جو صحت، تعلیم اور صاف پانی پر سرمایہ کاری کے بجائے قرض دہندگان کو ادائیگیاں کرنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے موسمیاتی و ماحولیاتی اقدامات کے بدلے قرضوں کو کم کرنے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے غریب ممالک کو فوائد نہیں ملیں گے۔
قرض و ترقی پر یورپی نیٹ ورک کی نمائندہ ٹووی ریڈنگ نے جیسن بریگانزا کے خدشات کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ بتایا گیا ہے غربت یا موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل نہیں ہیں جبکہ حقیقت اس سے برعکس ہے۔ مسئلہ صرف معاشی ناانصافی کا ہے اور اس کانفرنس میں اس پر قابو پانے کے لیے کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے نئے ٹیکس کنونشن پر پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ پرعزم ممالک حقیقی تبدیلی لا سکتے ہیں۔
صحت عامہ میں بہتری کا اقدامآج سپین نے کانفرنس میں عالمگیر طبی اقدام متعارف کروایا جس کا مقصد دنیا بھر میں صحت کے نظام کو بہتر بنانا ہے۔ اس کی بدولت سرکاری سطح پر طبی خدمات تک رسائی اور پالیسیوں کے حوالے سے خامیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی اور طبی مقاصد کے لیے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل میں کمی کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے گا جس کے باعث ہزاروں زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔
اس اقدام کے ذریعے 2027 تک عالمگیر طبی نظام میں 315 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس کے لیے کثیرفریقی طبی ادارے اور 10 سے زیادہ ممالک مدد فراہم کریں گے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے قرض دہندہ ممالک اقوام متحدہ کے کانفرنس میں مقروض ممالک ہوئے کہا کہ کانفرنس کے کی فراہمی نے کہا کہ حوالے سے ممالک کو ممالک کے قرضوں کے کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک ہتھیار نہیں چھوڑیں گے، حماس کا دو ٹوک اعلان
غزہ: فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام تک ہتھیار نہیں ڈالے گی۔
حماس کے سیاسی بیورو کے رکن محمد نزال نے انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل کا یہ مطالبہ ناقابلِ قبول ہے کہ حماس فلسطینی ریاست بننے سے پہلے غیر مسلح ہو جائے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کی کسی بھی آزادی کی تحریک نے آزادی سے پہلے اپنے ہتھیار نہیں چھوڑے، چاہے وہ جنوبی افریقہ، افغانستان، ویتنام، الجزائر یا آئرلینڈ ہو۔
محمد نزال کا کہنا تھا کہ حماس صرف اسی وقت غیر مسلح ہوگی جب ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوگی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تنظیم امریکی صدر کے غزہ پلان پر غور کر رہی ہے اور جلد ہی اپنا مؤقف باضابطہ طور پر پیش کرے گی۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے جس میں فوری جنگ بندی، یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ، اسرائیلی فوج کا مرحلہ وار انخلا، حماس کا غیر مسلح ہونا اور ایک عبوری حکومت کا قیام شامل ہے۔ ٹرمپ نے حماس کو اس منصوبے پر جواب دینے کے لیے 3 سے 4 دن کی مہلت بھی دی ہے۔