اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کثیرالفریقی نظام کو لاحق خطرات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے عالمی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ غریب ممالک کو پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے فراہم کیے جانے والے مالی وسائل میں 4 ٹریلین ڈالر کی کمی کو پورا کریں۔

انہوں نے مالیات برائے ترقی کے موضوع پر سپین کے شہر سیویل میں اقوام متحدہ کی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ممالک اور عالمی اداروں کے مابین اعتماد کمزور پڑ رہا ہے۔

دنیا کو شدید عدم مساوات، موسمیاتی ابتری اور بڑھتی ہوئی جنگوں کا سامنا ہے اور یہ سنگین مسائل انسانی ترقی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ Tweet URL

سیکرٹری جنرل نے مندوبین کو بتایا کہ ترقی مضبوط بین الاقوامی تعاون اور مالی وسائل کی فراہمی سے ہی ممکن ہے۔

(جاری ہے)

آج دنیا اس تعاون میں کمزوری اور ترقیاتی امداد کی شدید قلت کا سامنا کر رہی ہے۔ ان حالات میں بہتر اور منصفانہ مستقبل کو خطرات لاحق ہیں اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) میں دو تہائی کی جانب پیش رفت بے سمت ہے جن کی تکمیل مزید 4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا تقاضا کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیویل کانفرنس میں اس صورتحال کو تبدیل کرنا اور ترقی کے انجن کو دوبارہ فعال بنانا ہو گا۔

اس ضمن میں سوموار کو منظور کیا جانے والا 'میثاق سیویل' کم آمدنی والے ممالک کو ترقی کے زینے چڑھنے میں مدد دے سکتا ہے۔تین ضروری اقدامات

انتونیو گوتیرش نے کہا کہ پائیدار ترقی اور اس کے لیے حسب ضرورت مالیاتی وسائل کی فراہمی یقینی بنانا تین اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔

سب سے پہلے، پائیدار ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے تمام ممالک کو بڑی مقدار میں مالی وسائل تک رسائی حاصل کرنا ہو گی اور امیر ممالک کو اپنے وعدے کے تحت انہیں فراہم کی جانے والی ترقیاتی امداد کو دو گنا بڑھانا ہو گا۔

اس میں کثیرالفریقی ترقیاتی بینکوں کی قرض دینے کی صلاحیت میں تین گنا اضافہ اور نجی سرمایے سے کام لینے کے لیے اختراعی طریقے اختیار کرنا بھی شامل ہے۔

اس کے بعد، سیکرٹری جنرل نے کہا کہ قرض کے غیرمستحکم، غیرمنصفانہ اور مہنگے عالمی نظام کو درست کرنا ہو گا۔ اس وقت غریب ترین ممالک اپنے قرضوں پر ہر سال سود کی ادائیگی کے لیے 1.

4 ٹریلین ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔

اس صورتحال میں بہتری لانے کے لیے قرض خواہ ممالک کا نیا فورم قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قرضوں کے حصول اور ادائیگی کو ان کے لیے آسان اور منصفانہ بنایا جا سکے۔

آخری اہم اقدام پر بات کرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ عالمگیر مالیاتی نظام میں اصلاحات لانا ضروری ہیں تاکہ اس میں ہر ملک بااختیار ہو اور اس سے سبھی کو مساوی طور سے فائدہ پہنچے۔

انہوں نے کہا کہ استطاعت اور جامد ترقی کا بحران دراصل 'لوگوں کا بحران' ہے جس کے نتیجے میں لوگ بھوکے، بچے ویکسین سے محروم اور لڑکیاں تعلیم سے دور ہیں۔ اس کانفرنس کا مقصد امداد و خیرات میں اضافہ کرنا نہیں بلکہ انصاف کی بحالی اور باوقار طور سے رہنے کے لیے تمام لوگوں کی استعداد میں اضافہ کرنا ہے۔ کانفرنس کا تعلق محض مالی وسائل کا حصول نہیں بلکہ مستقبل پر سرمایہ کاری ہے۔

ٹھوس لائحہ عمل

سپین کے بادشاہ فلپ نے کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے قبل مندوبین سے کہا کہ ان کے ملک کا کثیرالثقافتی شہر سیویل دنیا کا کھلی بانہوں سے استقبال کرتا ہے۔ کانفرنس میں ایک نیا راستہ کھلے گا جس کی بنیاد ٹھوس اور قابل عمل اقدامات پر ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کو کامیاب ہونا چاہیے کیونکہ تعاون کثیرالفریقی دنیا کے بنیادی ستونوں میں سے ایک اور ان اقدار کی تجسیم ہے جو اسے برقرار رکھتی ہیں۔

بالخصوص تاریخ کے اس اہم موڑ پر اس کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے جب کئی یقینی چیزیں ختم ہو رہی ہیں اور بہت سے خوف اور غیریقینی حالات ان کی جگہ لے رہے ہیں۔عزم، یکجہتی اور جرات

سپین کے صدر پیڈرو سانچیز نے مندوبین کو بتایا کہ دنیا بھر میں لاکھوں زندگیوں کا دارومدار سیویل کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں اور ان پر عملدرآمد پر ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں بے عملی کے بجائے عزم، اختلاف کے بجائے یکجہتی اور آسانی کے بجائے جرات کا انتخاب کرنا ہو گا۔ دنیا کی نظریں اس کانفرنس پر مرکوز ہیں اور لوگ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا ہم انسانی ترقی کا اپنا مقصد پورا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے مندوبین کو بتایا کہ سفارتی حوالے سے سیویل کو 16ویں صدی میں نیویارک جیسی اہمیت حاصل تھی اور یہ شہر عالمگیریت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔

آج سبھی کو اس میراث کے ساتھ انصاف کرنا ہو گا۔سیویل: اختتام نہیں، آغاز

کانفرنس کے سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے شعبہ معاشی و سماجی امور (یو این ڈی ای ایس اے) کے سربراہ لی جُنہوا نے کہا کہ سیویل کانفرنس منصفانہ، مشمولہ اور پائیدار مستقبل کی تعمیر کے لیے درکار ضرورت وسائل جمع کرنے کا اہم موقع ہے۔ ترقیاتی مقاصد کی خاطر مالی وسائل مہیا کرنے کے لیےاقوام متحدہ کی کوشش کی بنیاد کثیرالفریقی طریقہ کار اور یکجہتی پر ہے لیکن آج اس نظام پر بے حد دباؤ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پائیدار ترقی کو کبھی اس قدر کڑا امتحان درپیش نہیں تھا لیکن میثاق سیویل نے لوگوں کو ایک مرتبہ پھر مرکزی اہمیت دلائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس اختتام نہیں بلکہ پائیدار ترقی کے اقدامات پر عملدرآمد، اس مقصد کے لیے احتساب اور یکجہتی کے نئے دور کا آغاز ہے۔ 'یو این ڈی ای ایس اے'اس عزم کو بین الاقوامی اقدامات میں تبدیل کرنے کے لیے تمام ممالک کو ضروری مدد دینے کے لیے تیار ہے۔

شراکتوں کی تجدید

اس موقع پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر فائلیمن یانگ نے مندوبین کو بتایا کہ دنیا کو سبھی کے لیے روشن اور مزید خوشحال مستقبل کی جانب بڑھنے کے لیے قیادت کی ضرورت ہے۔ سیویل فریم ورک آئندہ دہائی میں عالمگیر شراکتوں کی تجدید کرے گا اور غریب ممالک پر قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے اقدامات میں مددگار ہو گا۔

اقوام متحدہ کی معاشی و سماجی کونسل کے صدر باب رائے نے کہا کہ ممالک کے مابین اعتماد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کی غیرموجودگی میں ابتری بڑھ رہی ہے۔

ورلڈ بینک گروپ کے صدر اجے بنگا نے مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غربت کا خاتمہ ادارے کا اہم ترین مقصد ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں بڑھتی آبادی مزید وسائل کا تقاضا کرتی ہے جن کی بڑے پیمانے پر اور تیزرفتار فراہمی ضروری ہے۔ حکومتیں اور فلاحی ادارے ہر وعدہ پورا نہیں کر سکتے اسی لیے سیویل معاہدے میں نجی شعبے کی شمولیت ضروری ہے تاکہ بڑی مقدار میں سرمایے کا حصول ممکن ہو۔

تجارتی ٹیرف کا مسئلہ

عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کی ڈائریکٹر انگوزی اوکونجو آویالا نے کہا کہ کئی دہائیوں تک مثبت کردار ادا کرنے کے بعد اب عالمگیر تجارتی نظام بری طرح منتشر ہے۔ یکطرفہ محصولاتی اقدامات اور پالیسی سے متعلق غیریقینی حالات کے نتیجے میں برآمدات متاثر ہوئی ہیں۔ امریکہ کی جانب سے مزید محصولات عائد کرنے کے لیے 9 جولائی کی ڈیڈلائن دی گئی ہے جس سے عالمگیر تجارت میں تنگی مزید بڑھ جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ 'ڈبلیو ٹی او' نے کم ترین ترقی یافتہ اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے ممالک کو ان محصولات سے چھوٹ دینے کی بات کی ہے تاکہ انہیں عالمی تجارتی نظام میں بہتر طور سے شامل رکھا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر ملک کو تجارت کے ذریعے اپنے قومی وسائل میں اضافے کا موقع ملنا چاہیے۔

محصولاتی آمدن بڑھانے کی ضرورت

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے نائب مینیجنگ ڈائریکٹر نائجل کلارک نے ممالک سے اپنے ہاں محصولات میں اضافے کے لیے کہتے ہوئے واضح کیا کہ پائیدار ترقی کے لیے مضبوط مالیاتی انتظام، تعاون کو مربوط بنانے اور قرض کے مسئلے پر مزید سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

بہت سے ممالک کو قرضوں پر بلند شرح سود کے باعث مسائل کا سامنا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ انہیں ادائیگیوں میں سہولت دینے کا اہتمام کرے۔ انہوں نے کہا کہ 'آئی ایم ایف' رکن ممالک کو ترقی کے لیے اپنی راہیں تخلیق کرنے میں مدد دے رہا ہے اور انتہائی ضرورت کے وقت انہیں مالی مدد بھی مہیا کرتا ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے مندوبین کو بتایا کہ کہ پائیدار ترقی پائیدار ترقی کے انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سیکرٹری جنرل کانفرنس میں کرنے کے لیے کی ضرورت ہے مالی وسائل کرتے ہوئے ممالک کو کرنا ہو کے صدر

پڑھیں:

رکاوٹوں کے باوجود پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کیلئے تیار

پاکستان ایک ارب ڈالر سے زائد کی تیسری قسط حاصل کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں نظر آتا ہے، حالاں کہ کچھ معاملات میں معمولی کوتاہیاں ہوئی ہیں، حکام پیر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دورہ کرنے والے جائزہ مشن کے ساتھ پالیسی سطح کے مذاکرات کا آغاز کر رہے ہیں۔

نجی اخبار کی رپورٹ میں باخبر ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ تکنیکی سطح کے مذاکرات مکمل ہو چکے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریقین کو پالیسی سطح کی بات چیت کے دوران چند نرمیوں پر اتفاق کرنا ہوگا، تاکہ رواں ہفتے کے آخر (9 یا 10 اکتوبر) تک وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے ساتھ جائزہ مکمل کیا جا سکے۔

اگرچہ پاور سیکٹر نے وصولیوں میں بہتری اور گردشی قرضے میں کمی کے ذریعے غیر معمولی کارکردگی دکھائی ہے، جو کہ سبسڈی کے لیے مختص مالی گنجائش کی منتقلی اور نئے قرضوں کے ذریعے ممکن ہوئی، لیکن وفاقی محصولات اور صوبائی کارکردگی، خصوصاً بجٹ سرپلس اور زرعی ٹیکس وصولی کے وعدوں میں کمزوری دیکھی گئی ہے۔

آئندہ 4 روز میں اضافی اقدامات کے ساتھ، سیلاب سے متعلق چیلنجوں کے پیش نظر ممکنہ رعایتوں کے ذریعے دوسرے جائزے کے اختتام کی راہ ہموار ہونے کی توقع ہے، جس کے نتیجے میں آئندہ ماہ کے آغاز تک ایک ارب ڈالر سے زائد کی اگلی قسط جاری ہونے کا امکان ہے، تاہم آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری درکار ہوگی۔

بین الاقوامی سیاسی ماحول بھی پاکستان کے حق میں سازگار بتایا جا رہا ہے، کیوں کہ بڑے ووٹنگ اراکین ملک کی حمایت کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور پنجاب و سندھ کی صوبائی حکومتیں آئی ایم ایف کے سخت جائزے کے تحت ہیں۔

ایف بی آر نہ صرف جون 2025 کے اختتام تک آمدنی کے ہدف سے کافی پیچھے رہا بلکہ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بھی تقریباً 200 ارب روپے کا شارٹ فال دیکھا گیا ہے، جو ماہانہ اوسطاً 65 ارب روپے سے زائد بنتی ہے، حالاں کہ ادارے نے اصلاحاتی منصوبہ شروع کر رکھا ہے جس میں درجنوں نئی گاڑیاں خریدنے جیسے اقدامات شامل تھے۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ آیا عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات سے متوقع ریکوریاں اس خسارے کو پورا کر سکیں گی یا نومبر کے آغاز میں مزید اقدامات کی ضرورت پیش آئے گی؟۔

کیش سرپلس کے وعدے
دوسری طرف وفاق میں اتحادی ہونے کے باوجود سندھ اور پنجاب کی حکومتیں گزشتہ مالی سال کے اختتام پر اپنے کیش سرپلس وعدے پورے کرنے میں ناکام رہیں، بلکہ سندھ نے تو نئے مالی سال 26 کے آغاز پر خسارے کا بجٹ پیش کیا۔

آئی ایم ایف نے ان سستیوں کے باعث اصلاحی اقدامات پر زور دیا ہے، جس سے اپوزیشن کی زیرِ قیادت خیبرپختونخوا حکومت پر بھی سیاسی وجوہات کی بنا پر اخراجات بڑھانے کا دباؤ پڑا، حالاN کہ وہ اب تک مالی نظم و ضبط برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔

سیلابی حالات کے باعث صوبوں کی موجودہ سال میں بہتر کارکردگی متوقع نہیں، لیکن آئی ایم ایف ان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اپنے مالی نظم کو درست کریں، اسی دباؤ کا اظہار پنجاب کے وزیراعلیٰ کے اس بیان میں ہوا جس میں انہوں نے شکایت کی کہ آئی ایم ایف صوبے کے تمام مالی معاملات پر ان سے حساب مانگ رہا ہے۔

پنجاب کو مرکز کو 740 ارب روپے کا سرپلس فراہم کرنا ہے، سندھ کو 370 ارب، کے پی کو 220 ارب، اور بلوچستان کو 155 ارب روپے دینے ہیں۔

مزید برآں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں زرعی ٹیکس کے مؤثر نظام کے قیام میں مشکلات کا شکار ہیں، حالیہ سیلابی تباہی کے باعث وہ قوانین پر مکمل عملدرآمد کے بجائے نرمیوں اور رعایتوں کی متلاشی ہیں۔

صوبے اپنی بجٹ سرپلس کارکردگی کو وفاقی ریونیو کی کارکردگی سے مشروط کر رہے ہیں، تاہم، کے پی اور پنجاب نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ سیلاب سے متعلق اخراجات اپنی ہی وسائل سے پورے کریں گے۔

اگرچہ تمام صوبوں نے زرعی آمدنی ٹیکس کے قوانین وقت پر منظور کر لیے تھے، لیکن ان پر عملدرآمد جو ستمبر یا اکتوبر سے شروع ہونا تھا، خصوصاً پنجاب اور سندھ میں جاری سیلابی حالات کے باعث اب بھی غیر یقینی ہے، حکام کو ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ متاثرہ لوگوں، شعبوں اور بنیادی ڈھانچے کے لیے کتنی مالی مدد درکار ہوگی۔

پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے وفد کی گفتگو میں گیس سیکٹر کے بڑھتے ہوئے گردشی قرضے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، جو کسی حد تک بجلی کے شعبے سے واجبات کی منتقلی کا نتیجہ ہے، دونوں فریقین مستقبل میں گیس سیکٹر کے لیے نئے بینچ مارک طے کرنے پر بات چیت کر رہے ہیں، جس میں تعریفات اور رپورٹنگ کے طریقہ کار شامل ہیں۔

ابھی تک دونوں فریقین ریاستی ملکیت کے اداروں (ایس او ایز) سے متعلق قوانین کی تعمیل کے معاملات حل نہیں کر سکے، جن میں پاکستان ویلتھ فنڈ کے تحت بڑی کمپنیوں کے انتظامی امور اور تمام سطحوں پر سرکاری اہلکاروں کے اثاثوں و منافعوں کے عوامی انکشاف کے مسائل شامل ہیں۔
مجموعی طور پر جون 2025 کے آخر تک حکام کی پروگرام کارکردگی ملی جلی رہی ہے، اور مستقبل کا منظرنامہ مزید کوششوں کا متقاضی ہے۔

آئی ایم ایف نے تیل صاف کرنے والی پرانی ریفائنریوں کی اپ گریڈیشن کے لیے ٹیکس میں رعایت دینے کی حکومتی درخواست مسترد کر دی ہے، جس سے تقریباً 6 ارب ڈالر کی نئی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ گئی ہے۔

آئی ایم ایف فنڈ کا کہنا ہے کہ ایسی رعایتیں ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ریسائلنس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسلیٹی (آر ایس ایف)کے مقاصد کے خلاف ہوں گی۔

ریفائنری اپ گریڈیشن کی پالیسی دو سال قبل صنعت سے مشاورت کے بعد متعارف کروائی گئی تھی، اور کمپنیاں معاہدوں پر دستخط کے قریب تھیں، جب حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کسی بھی قسم کی ٹیکس چھوٹ نہ دینے کا وعدہ کر لیا۔

پیٹرولیم ڈویژن کا مؤقف ہے کہ موجودہ ریفائنریاں پیداوار اور کھپت دونوں سطحوں پر ماحولیاتی خطرات کا باعث بن رہی ہیں، جو انسانی صحت اور آب و ہوا دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔

اگرچہ حکومت موسمیاتی منصوبوں کے لیے آر ایس ایف کے تحت فنڈز حاصل کرنا چاہتی ہے، لیکن اندرونِ ملک پرانی ٹیکنالوجی کے استعمال کے باعث اسے تنقید کا سامنا ہے، حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ صورتحال آئی ایم ایف مذاکرات کاروں کی تکنیکی غلط فہمی اور وزارتِ خزانہ و ایف بی آر کے سخت مؤقف کا نتیجہ ہے۔

پاکستان نے جون 2025 کے آخر تک زیادہ تر مقداری اہداف (کوانٹیٹیو پرفارمنس انیشیٹیو) حاصل کر لیے ہیں، لیکن اشاریاتی اہداف (انڈیکیٹو ٹارگٹس) اور ساختی شرائط (اسٹرکچرل بینچ مارکس) میں پیچھے ہے، جو مستقبل کے پروگرام پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

چوں کہ 7 ارب ڈالر کے ای ایف ایف اور ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے اار ایس ایف کے 6 ماہ بعد جائزے ہوتے ہیں، اس لیے دونوں فریقین کو ماضی کی کارکردگی اور مستقبل کی حکمتِ عملی پر اتفاق کرنا ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جی7 ممالک کی جانب سے ایران پر پابندیوں کی بحالی کا مطالبہ، ایرانی وزارتِ خارجہ کا شدید ردعمل
  • رکاوٹوں کے باوجود پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کیلئے تیار
  • پاک سعودی معاہدے میں وسعت کا مطالبہ
  • ترقی پذیر ممالک باہمی تعاون سے معاشی استحکام میں کوشاں، انکٹاڈ
  • ٹنڈوجام،پیٹرولیم قیمتوں میں اضافہ ،عوام مشکلات کا شکار
  • پاکستان اورایتھوپیا میں زرعی تعاون بڑھانے پر اتفاق، خوراک کے تحفظ اور معاشی ترقی کو فروغ دیا جائے گا
  • وفاقی وزیر اوورسیز چوہدری سالک حسین کا تمام ممالک سے اسرائیل کے بائیکاٹ کا مطالبہ
  • وفاقی وزیر اوور سیز چوہدری سالک حسین کا تمام ممالک سے اسرائیل کے بائیکاٹ کا مطالبہ
  • حکومت ٹرانسپورٹ، انفراسٹرکچر اور ریل کے نظام کی ترقی پر تیزی سے کام کر رہی ہے، بلال اظہر کیانی
  • پی ٹی سی ایل کو ٹیلی نار کے حصول کی منظوری دےدی