اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 جون 2025ء) کم وسیلہ لوگوں کی مدد کرنا خیراتی عمل نہیں بلکہ بہتر مستقبل پر مشترکہ سرمایہ کاری ہوتا ہے، تاہم دنیا بھر میں ترقیاتی مقاصد کے لیے مالی وسائل کی شدید قلت ہے۔ 30 جون سے سپین میں شروع ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس میں اس مقصد کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے غورخوض ہو گا تاکہ مزید منصفانہ اور پائیدار دنیا کی بنیاد رکھی جا سکے۔

اندازوں کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کیا جانے والا ہر ڈالر اوسطاً 2.

80 ڈالر کا منافع دیتا ہے جس سے عالمی جی ڈی پی میں اربوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح پانی کی فراہمی اور صحت و صفائی کے شعبے میں ایک ڈالر خرچ کرنے سے طبی اخراجات میں 4.30 ڈالر کی بچت ہوتی ہے۔

معجزہ نہیں، سادہ حساب

یہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ قابل پیمائش نتائج ہیں۔

(جاری ہے)

ریاضی جنس یا بنیادی ڈھانچے کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتی بلکہ یہ محض ہندسوں کی صورت میں حقائق کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ اعداد ثابت کرتے ہیں کہ کم وسائل والے ملکوں کی مدد کرنا ترقی یافتہ ممالک سمیت سبھی کے مفاد میں ہے۔

صرف ایک ڈالر سے ہی بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر غیرمتعدی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے ہر شخص پر سالانہ ایک ڈالر خرچ کیا جائے تو 2030 تک تقریباً 7 لاکھ اموات روکی جا سکتی ہیں۔

اسی طرح، قدرتی آفات سے لاحق خطرات پر قابو پانے کے لیے ایک ڈالر خرچ کرنے سے بحالی کے اخراجات میں 15 ڈالر تک بچت ممکن ہے۔

تاہم، اس قدر واضح شواہد کے باوجود ترقیاتی امداد کو بعض اوقات غلط انداز سے دیکھا جاتا ہے۔ بعض لوگ اسے خیرات سمجھتے ہیں جبکہ ایسے بھی ہیں جو اسے منافع کمانے کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔

© UNICEF/Amin Meerzad منصفانہ مواقع اور خودمختاری

اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی افغان کاروباری خواتین کے بارے میں تازہ ترین رپورٹ ترقیاتی امداد کی افادیت پر شبہ رکھنے والوں کے سوالات کا موثر جواب ہے۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ خواتین خیرات نہیں مانگتیں بلکہ اپنے لیے منصفانہ مواقع کی طلب کرتی ہیں۔ اپنی محنت کی کمائی انہیں خودمختاری دیتی ہے جو ان کے معاشروں کو مضبوط بناتی ہے۔

مشکلات کے باوجود یہ خواتین آمدنی پیدا کر رہی ہیں، روزگار تخلیق کر رہی ہیں اور بھرپور زندگیاں تعمیر کر رہی ہیں۔ اگر سرکاری و نجی مالی وسائل تک رسائی کو وسعت ملے، قرض فراہمی کی ضمانت دی جائے، بین‌الاقوامی منڈیوں میں سازگار مواقع میسر آئیں اور معاون نظام مضبوط کیے جائیں تو افغانستان ہو یا ایکواڈور، ہر جگہ کاروبار کو ترقی کا موقع ملے گا۔

'ایف ایف ڈی 4' کو درپیش مشکلات

ترقی پر سوچ سمجھ کر کی گئی سرمایہ کاری سبھی کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ مالیات برائے ترقی پر اقوام متحدہ کی چوتھی کانفرنس (ایف ایف ڈی 4) میں اسی پیغام کو نمایاں ہونا چاہیے جو 30 جون سے 3 جولائی تک سپین کے شہر سیویلا میں منعقد ہو رہی ہے۔ لیکن اس کانفرنس کو کڑی مشکلات کا سامنا بھی ہے۔

بدھ کو اقوام متحدہ ہیڈکوارٹر (نیویارک) میں رکن ممالک نے ایک دستاویز پر اتفاق کیا جس کی منظوری سیویلا کانفرنس کے اختتام پر دی جائے گی۔

یہ دستاویز مستقبل میں ترقیاتی امداد کے لیے رہنما اصول مہیا کرے گی۔ تاہم، بعض ممالک اس معاملے میں پیچھے ہٹ رہے ہیں جن میں امریکہ بھی شامل ہے جس نے اعلان کیا ہے کہ وہ کانفرنس میں اپنا وفد نہیں بھیجے گا۔

اگرچہ سپین سمیت چند ممالک نے ترقیاتی مقاصد کے لیے دیے جانے والے مالی وسائل میں 12 فیصد اضافہ کیا ہے مگر موجودہ غیر یقینی صورتحال میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح عالمگیر تعاون پر شبہات نے جنم لیا ہے۔

ترقیاتی مالیاتی میں سالانہ 40 کھرب ڈالر کے خسارے سے ان شبہات کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، عطیہ دہندگان کا قبل ازیں کیے گئے وعدوں سے پھر جانا اور ترقیاتی امداد کی عدم فراہمی بھی باعث تشویش ہے۔ دنیا بھر کے رہنماؤں کی جانب سے محض 10 سال قبل طے پانے والے پائیدار ترقی کے اہداف کی جانب پیش رفت بھی بہت سست رفتار ہے۔

کامیابی کی ضمانت کیا ہے؟

یونیورسٹی آف میساچوسیٹس میں معاشیات کی پروفیسر جیاتی گھوش کے مطابق، سیویلا میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ دیگر ممالک عالمی قیادت کے خلا کو پر کریں اور کثیرالجہتی تعاون کے لیے معتبر عزم دکھائیں جو سبھی کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں بروقت پیش رفت کے لیے بین‌الاقوامی مالیاتی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات درکار ہیں۔ موجودہ نظام ترقی پذیر ممالک کی ضروریات پوری نہیں کرتا بلکہ امیروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں قرضوں پر کم از کم دو گنا زیادہ سود ادا کرنا پڑتا ہے۔

آج نجی قرض دہندگان ان ممالک سے پچھلے 15 سال کی بلند ترین سطح پر سود وصول کر رہے ہیں۔ © UNDP قرض: امدادی فوائد کا ضیاع

2023 میں ترقی پذیر ممالک نے بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر ریکارڈ 1.4 ٹریلین ڈالر خرچ کیے جو پچھلے 25 سال کی بلند ترین سطح ہے۔

2024 میں ایسے ممالک کی آبادی 1.1 ارب سے زیادہ تھی جہاں قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہونے والی رقم حکومت کی سالانہ آمدن کا 20 فیصد سے زیادہ ہے۔ ایسے ممالک کی آبادی تقریباً 2.2 ارب ہے جہاں یہ تناسب 10 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

یہ سود ترقی میں رکاوٹ بن رہا ہے اور خاص طور پر اس سے صحت کا بنیادی ڈھانچہ اور تعلیم پر سرمایہ کاری متاثر ہورہی ہے۔ لہٰذا قرضوں کی واپسی میں سہولت دینا بہت ضروری ہے کیونکہ ترقی کے لیے بہت سی امید امداد اور قرض کے لین دین کی نذر ہو جاتی ہے۔

کارآمد سرمایہ کاری کا فروغ

بھوک کا خاتمہ، صنفی مساوات، ماحولیاتی تحفظ، موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ اور سمندروں کی حفاظت کوئی انتہا پسندانہ تصورات نہیں بلکہ مشترکہ انسانی ترجیحات ہیں جن پر 2015 میں اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک کے رہنماؤں نے اتفاق کیا تھا۔

ترقیاتی امداد اور کثیرالجہتی نظام کے مخالفین اقلیت میں ہیں۔ اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے سپین کی وزیر برائے بین‌الاقوامی تعاون اینا گراناڈوز گالینڈو سیویلا کانفرنس کو بین الاقوای یکجہتی کا چراغ قرار دیتی ہیں۔

اس وقت جب دنیا کی توجہ 'ایف ایف ڈی 4'، ریاضی اور شماریات پر مرکوز ہے، افغان خواتین اپنے عام فہم 'ترقیاتی جادو' سے کام لینے میں مشغول ہیں۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ترقیاتی امداد سرمایہ کاری اقوام متحدہ ڈالر خرچ کے لیے

پڑھیں:

نبی کریم ﷺ کی وصیت اور آج کا چین

نبی کریم ﷺ کی وصیت اور آج کا چین WhatsAppFacebookTwitter 0 3 October, 2025 سب نیوز

تحریر :ظہیر حیدر جعفری

دنیا میں کسی بھی قوم کی ترقی یا زوال کی اصل بنیاد تعلیم ہوتی ہے۔ اگر کوئی قوم علم کو اپنی ترجیح بنا لے تو وہ ترقی کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھتی ہے، لیکن اگر کوئی قوم تعلیم کو پسِ پشت ڈال دے تو دولت، زمینیں اور طاقت سب کچھ ہونے کے باوجود وہ زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔ آج ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ جو قومیں تعلیمی میدان میں آگے ہیں وہی دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں۔ یورپ، امریکہ اور خاص طور پر آج کا چین اس کی روشن مثال ہیں۔

اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی تعلیم کی اہمیت کو سب سے نمایاں کر دیا تھا۔ قرآنِ مجید کا پہلا حکم ہی “اقرأ” یعنی “پڑھ” ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر پر سب سے پہلی وحی تعلیم کے بارے میں نازل فرمائی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی بنیاد ہی علم اور تعلیم پر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ ﷺ نے تعلیم کو ہمیشہ اولین حیثیت دی۔ آپ ﷺ نے ایک موقع پر قیدیوں کو یہ شرط پر رہا کیا کہ وہ مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں۔ اس عمل نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ مسلمان کبھی تعلیم کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔

آپ ﷺ نے فرمایا: “علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔” اس ارشاد میں بھی اس بات کو واضح کر دیا گیا کہ تعلیم صرف مردوں کے لیے نہیں بلکہ عورتوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ گویا تعلیم اسلام کے نزدیک کسی کے لیے اختیاری چیز نہیں بلکہ ایک لازمی فریضہ ہے

نبی کریم ﷺ کا ایک اور مشہور فرمان ہے: “علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔” اس فرمان نے تعلیم کی اہمیت کو نہایت دلکش انداز میں واضح کیا ہے۔ چین اُس وقت عرب دنیا سے بہت دور تھا۔ سفر کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں، نہ ریل تھی اور نہ ہوائی جہاز۔ سفر کرنا مشقت بھرا اور مہینوں کا کام ہوتا تھا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے مثال دے کر بتایا کہ اگر علم حاصل کرنے کے لیے اتنی بڑی قربانی بھی دینی پڑے تو وہ قربانی چھوٹی ہے، کیونکہ علم کی قدر و قیمت سب سے بڑھ کر ہے۔

بعض محدثین نے اس حدیث کو سند کے لحاظ سے کمزور کہا ہے، لیکن اس کے پیغام میں کوئی کمزوری نہیں۔ اس میں ایک سبق ہے کہ علم کے حصول کے لیے مشکلات برداشت کرنا لازمی ہے۔ اگر دور دراز کے علاقوں تک جانا پڑے، اجنبی زبان سیکھنی پڑے یا محنت و قربانی دینا پڑے، تب بھی علم کا سفر جاری رہنا چاہیے۔

اس زمانے میں چین ایک ایسی تہذیب تھی جو ہنر، صنعت اور دستکاری میں دنیا بھر میں مشہور تھی۔ کاغذ سازی، چھاپہ خانے، طب اور فلکیات جیسے علوم میں چینی لوگ نمایاں تھے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے “چین” کا نام لے کر گویا یہ اشارہ دیا کہ مسلمان علم کے لیے دنیا کے کونے کونے تک جائیں۔

یہ حقیقت آج بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ جو قوم علم کے راستے کو اپناتی ہے، وہ آگے بڑھتی ہے۔ اور جو قوم علم سے منہ موڑ لیتی ہے، وہ پیچھے رہ جاتی ہے۔ چین نے اس فرمان کی روح کو اپنایا اور آج علم کی بنیاد پر دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر سامنے آ رہا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرآزاد کشمیر، مذاکراتی عمل کامیاب، پیچیدہ معاملات کمیٹیوں کے سپرد کرنے پر اتفاق ہم بیت المقدس کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے، ترک صدر کا فتح بیت المقدس کے دن پر پیغام اسرائیل نے صمود فلوٹیلا کی آخری کشتی کو بھی روک لیا، 500 کارکنان گرفتار آزاد کشمیر کی 12 نشستوں کا معاملہ آئینی، سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے: اعظم تارڑ پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ 81 ہزار سے زائد افراد کی تفصیلات جمع کر لی گئیں سعودیہ سے معاہدہ آنا فانا نہیں ہوا، یہ ایک نیٹو طرز کا اتحاد بن جائیگا: وزیر خارجہ کوئٹہ؛ ایف سی ہیڈ کوارٹر پر خودکش حملے میں ملوث 2دہشتگردوں کی شناخت ہوگئی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • کراچی کی ترقی کے لیے …
  • پورٹ قاسم دنیا کی نویں سب سے زیادہ ترقی کرنے والی بندرگاہ قرار
  • ترقی پذیر ممالک باہمی تعاون سے معاشی استحکام میں کوشاں، انکٹاڈ
  • نبی کریم ﷺ کی وصیت اور آج کا چین
  • ایک ارب ڈالر سے تعمیر ہونے والا ’ٹرمپ پلازہ‘ منصوبہ، جدہ شہر کی نئی پہچان
  • حکومتی شٹ ڈاؤن، ٹرمپ انتظامیہ نے ڈیموکریٹس ریاستوں کے ترقیاتی فنڈز منجمد کر دیے
  • مسجد نبوی میں قرآن کی تعلیم دینے والے پاکستانی نژاد عالم شیخ بشیر احمد انتقال کرگئے
  • پاکستان کے زرمبادلہ مجموعی ذخائر 19 ارب 79 کروڑ 67 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئے
  • پاکستان اورایتھوپیا میں زرعی تعاون بڑھانے پر اتفاق، خوراک کے تحفظ اور معاشی ترقی کو فروغ دیا جائے گا
  • سی ڈی اے کا ملٹی پروفیشنلز ہاؤسنگ سوسائٹی کو شوکاز نوٹس، 17 سال بعد بھی ترقیاتی کام مکمل نہ ہونے پر کارروائی کا عندیہ