ماحولیاتی تبدیلی اکیسویں صدی کا وہ بحران ہے جو اب محض مستقبل کی پیش گوئی نہیں بلکہ حال کی حقیقت بن چکا ہے۔
ہماری زمین کا درجۂ حرارت صنعتی دور سے اب تک اوسطاً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے، اور اگر عالمی برادری نے فوری اور جرأت مندانہ اقدامات نہ کیے تو یہ اضافہ 2.5 ڈگری یا اس سے بھی زیادہ تک پہنچ سکتا ہے، جس کے اثرات ناقابل واپسی ہوں گے۔ یہ موسمیاتی تبدیلی نہ صرف قدرتی ماحول کو متاثر کر رہی ہے بلکہ انسانی زندگی، معیشت، اور ریاستی سلامتی کو بھی براہِ راست چیلینج کر رہی ہے۔ گذشتہ چند سال (2021 سے 2025) عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد، نئی پالیسیوں کی تشکیل، اور عالمی ماحولیاتی عدم مساوات کے خلاف آواز بلند کرنے کا دور رہا ہے۔ اس دوران ماحول دوست ٹیکنالوجیز کو فروغ ملا، مگر اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی آفات کی شدت میں بھی غیرمعمولی اضافہ دیکھنے کو ملا، جس کا سب سے زیادہ اثر ترقی پذیر ممالک پر ہوا۔
ماحولیاتی تبدیلی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق یا ذمے دار انسانی سرگرمیاں ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
فوسل فیول کا استعمال: کوئلہ، تیل اور گیس جیسے فوسل فیول کا جلنا کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرتا ہے، جو کرہ ارض کو گرم کرتی ہیں۔ صنعتی ترقی اور توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب نے اس رجحان کو یا اس کے استعمال کو کم کرنے بجائے مزید بڑھا دیا ہے۔
* جنگلات کا کٹاؤ (Deforestation): جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کا قدرتی ذریعہ ہیں، لیکن تیزی سے بڑھتے ہوئے شہر ، زراعت اور لکڑی کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث جنگلات تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں، جس سے فضا میں کاربن کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے۔
٭ صنعتی اور زرعی سرگرمیاں: صنعتی عمل سے خارج ہونے والی گیسیں اور زراعت میں استعمال ہونے والی کھادیں بھی میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ جیسی طاقت ور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا باعث بنتی ہیں۔
٭ شہری پھیلاؤ اور انفرااسٹرکچر: بڑھتے ہوئے شہر، ٹرانسپورٹ اور رہائشی ضروریات کے لیے توانائی کا زیادہ استعمال بھی اخراج میں اضافہ کر رہا ہے۔
ان مسائل سے نبٹنے کے لیے
COP
کانفرنس آف دی پارٹیز (COP) اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی فریم ورک (UNFCCC) کے تحت ہونے والا سالانہ اجلاس ہے، جس میں دنیا کے تقریباً تمام ممالک شریک ہوتے ہیں تاکہ وہ مشترکہ طور پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی پالیسی، فنڈز، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور ماحولیاتی انصاف سے متعلق بات چیت اور قابل عمل فیصلے کرسکیں۔
اس اجلاس کی بنیاد 1992 کے ریو ارتھ سمٹ میں رکھی گئی، جب (United Nations Framework Convention on Climate Change (UNFCCC) ) بنایا گیا، اور اب تک 198 ممالک اس فریم ورک کے رکن بن چکے ہیں۔
ان میں سے ہر سال دنیا کا ایک ملک اجلاس کی میزبانی کرتا ہے، جیسے 1997 میں جاپان کے شہر کیوٹو میں COP3 ہوا جہاں کیوٹو پروٹوکول منظور کیا گیا، 2015 میں (COP21) پیرس معاہدہ طے پایا، اور 2022 (COP27) میں مصر میں Loss and Damage فنڈ قائم ہوا۔
2023 میں دبئی میں COP28 کے دوران توانائی کے شعبے میں فوسل فیول کے خاتمے پر جزوی اتفاق کیا گیا۔ یہ اجلاس نہ صرف پالیسی سازوں کے لیے بلکہ ماحولیاتی کارکنوں، سائنسی ماہرین اور ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی ایک اہم فورم ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے تحفظات، اہداف اور مالی ضروریات کو عالمی برادری کے سامنے رکھ سکیں۔ پاکستان، جو ماحولیاتی خطرات کے حوالے سے سرفہرست متاثرہ ممالک میں شامل ہے مگر عالمی کاربن اخراج میں اس کا حصہ نہایت کم ہے۔
پاکستان COP اجلاسوں میں بھرپور شرکت کرتا ہے تاکہ بین الاقوامی فنڈز، گرین ٹیکنالوجی اور ماحولیاتی انصاف کے بیانیے کو تقویت دے سکے۔
خاص طور پر 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد، پاکستان نے COP اجلاس میں فعال کردار ادا کیا۔ COP27 میں نمایاں ترین پیش رفت Loss and Damage فنڈ کا قیام تھا، اس فنڈ کے قیام کے لیے پاکستان نے بڑی تگ و دو کی تھی، جس کا مقصد ان ممالک کی مدد کرنا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے نتائج سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، باوجود اس کے کہ ان کا کاربن اخراج میں حصہ نہایت کم ہے۔
پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ اجلاس محض شرکت کا موقع نہیں بلکہ ایک حکمت عملی کا میدان ہے جہاں وہ اپنی بقا، ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے عالمی قوتوں کو قائل کرتے ہیں کہ ماحولیاتی بحران صرف فطرت کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی معاشی ناانصافی کی علامت بھی ہے۔
2021 میں گلاسگو میں ہونے والی COP26 کانفرنس سے لے کر 2023 کی COP28 (دبئی) اور پھر حالیہ 2024 کی COP29 (باکو) تک، دنیا نے موسمیاتی مذاکرات میں کئی اہم پیش رفت ہوئیں اور کئی مایوس کن تعطل دیکھے۔
دنیا آج جس ماحولیاتی بحران سے دوچار ہے، اس کی شدت، رفتار اور کثیرالجہتی اثرات کسی ایک ملک، خطے یا براعظم تک محدود نہیں رہے۔ شدید موسمیاتی تبدیلی، غیرمعمولی بارشیں، گرمی کی شدید لہریں، جنگلات کی آگ، پانی کی قلت، اور زرعی پیداوار میں تنزلی جیسے مسائل ہر سطح پر انسانی زندگی، معیشت اور ریاستی سلامتی کو چیلینج کر رہے ہیں:
حالیہ چند برسوں میں شدید موسمیاتی تبدیلیوں بات کی جائے تو:
جنگلات کی آگ
٭ امریکا اور کینیڈا: حالیہ برسوں میں کیلیفورنیا (امریکا)، اور کینیڈا کے جنگلات میں ریکارڈ توڑ آگ کے واقعات رونما ہوئے ہیں، جن سے وسیع و عریض علاقے جل کر راکھ ہو گئے اور ہوا کا معیار بھی شدید متاثر ہوا۔ یہ آگ خشک آب و ہوا، شدید گرمی کی لہروں، اور تیز ہواؤں کے باعث تیزی سے پھیلی۔ لاس اینجلس کے جنگلات میں کئی ہفتوں تک آگ بجھانے کی کوششیں جاری رہیں۔
٭ آسٹریلیا: 2019-2020 میں آسٹریلیا میں بھی بدترین جنگلات کی آگ لگی جس نے لاکھوں ہیکٹر جنگلات، گھروں اور جانوروں کو متاثر کیا۔
٭ پاکستان: 2022 میں کوہ سلیمان میں چلغوزے کے جنگلات کو لگنے والی آگ نے بھی بڑے پیمانے پر ماحولیاتی اور اقتصادی نقصان پہنچایا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان بھی اس خطرے سے محفوظ نہیں۔
غیرمعمولی بارشیں اور سیلاب
٭ پاکستان: 2022 2024 کے تباہ کن سیلاب اس کی ایک واضح مثال ہیں، بلوچستان اور خیبر پختونخوا، میں بے موسمی اور شدید بارشوں نے سیلاب کی صورتحال پیدا کی، جس سے جانی و مالی نقصان ہوا۔
٭ جرمنی اور بیلجیئم: 2021 میں یورپ کے ان ممالک میں شدید بارشوں کے نتیجے میں تباہ کن سیلاب آئے، جن سے بڑے پیمانے پر انفرااسٹرکچر تباہ ہوا اور سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
٭ چین: چین کے جنوب مغربی صوبوں میں حالیہ برسوں میں شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھی گئی ہیں۔
گرمی کی شدید لہریں (Heatwaves)
٭ چین: 2022 میں چین کے کئی صوبوں، خصوصاً سیچوان اور چونگ کنگ، میں ریکارڈ توڑ گرمی کی لہریں آئیں جہاں درجۂ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر گیا، جس سے بجلی کی قلت پیدا ہوئی اور لوگوں کو گرمی سے بچنے کے لیے زیرزمین بنکروں کا رخ کرنا پڑا۔
٭ یورپ: حالیہ برسوں میں یورپ کے کئی ممالک جیسے فرانس، اسپین، اور برطانیہ میں شدید گرمی کی لہروں نے معمولات زندگی مفلوج کر دیے، جس سے اموات کی شرح میں اضافہ ہوا اور جنگلات کی آگ کے واقعات بھی بڑھے۔
٭ پاکستان: پاکستان کے جنوبی پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں گرمی کی لہروں کے دوران درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکا ہے، جس سے ہیٹ اسٹروک سے ہلاکتیں اور زرعی پیداوار کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
پانی کی قلت اور خشک سالی
٭ یورپ: 2022 اور 2023 میں یورپ کے کئی ممالک، جیسے فرانس، اٹلی، اور اسپین، میں شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے دریاؤں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک گر گئی اور زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی۔
٭ افریقہ اور لاطینی امریکا: افریقہ کے کچھ خطے اور لاطینی امریکا کے بعض ممالک شدید خشک سالی کا شکار ہیں، جس سے پانی کی قلت، قحط اور نقل مکانی جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
٭ پاکستان: پاکستان میں بھی زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے، خاص طور پر تھل اور تھر جیسے خشک میدانی علاقوں میں پانی کی کمی کے باعث بڑے علاقے بنجر ہو رہے ہیں۔
٭ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث فصلوں کے اوقات تبدیل ہو رہے ہیں، شدید بارشیں یا خشک سالی فصلوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں، اور گرمی کی لہریں پیداوار پر منفی اثر ڈال رہی ہیں۔ اس سے عالمی غذائی تحفظ کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں، اور غذائی قلت کا مسئلہ بڑھ رہا ہے۔
٭ پاکستان: پاکستان کی زرعی معیشت بھی اس سے بری طرح متاثر ہے، فصلوں کی پیداوار میں کمی سے کسانوں کی آمدنی اور ملک کی برآمدات متاثر ہورہی ہیں۔
یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی حقیقت ہے جو تمام براعظموں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، اور اس سے نمٹنے کے لیے فوری اور مشترکہ عالمی اقدامات کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کی IPCC ( Intergovernmental Panel on Climate Change) کی رپورٹیں متواتر خبردار کرتی رہی ہیں کہ اگر گلوبل وارمنگ کو 1.
COP29، جو 2024 کے نومبر میں آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں منعقد ہوا، عالمی برادری کے لیے ایک اور موقع تھا کہ وہ موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے اجتماعی لائحہ عمل پر اتفاق کرے۔ اس کانفرنس کا مرکز ترقی پذیر ممالک کی مالی مدد، فوسل ایندھن پر انحصار میں کمی، اور ماحولیاتی انصاف کے لیے عملی اقدامات کا تعین تھا۔ سب سے اہم پیش رفت یہ رہی کہ ترقی یافتہ ممالک نے 2035 تک سالانہ 300 ارب ڈالر موسمیاتی مالیات کے لیے مختص کرنے کا نیا ہدف تسلیم کیا، جو افریقہ، جنوبی ایشیا اور پیسفک جزائر جیسے خطوں کے لیے ایک امید کی کرن ہے۔ تاہم کئی ممالک، بشمول پاکستان، نے اسے ناکافی قرار دیا کیوںکہ موسمیاتی ماہرین کے مطابق دنیا کو کم از کم 1.3 ٹریلین ڈالر سالانہ درکار ہیں تاکہ ماحولیاتی اثرات سے مؤثر طور پر بچا جا سکے۔
اسی اجلاس میں کاربن کریڈٹ کے قواعد کو بھی شفاف اور سخت بنانے پر اتفاق ہوا تاکہ ترقی یافتہ ممالک محض پیسہ دے کر اخراجات کے ذمے دار نہ بنیں بلکہ اپنے ممالک میں عملی ماحول دوست اقدامات کریں۔ Loss and Damage Fundکو فعال بنانے کی طرف بھی عملی پیش رفت ہوئی، مگر سب سے بڑی ناکامی یہ رہی کہ فوسل ایندھن کے استعمال کو مرحلہ وار ختم کرنے کے حوالے سے کوئی ٹھوس عالمی اتفاقِ رائے نہ ہو سکا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ بیانیہ آگے بڑھا ہے، مگر عمل اب بھی کم زور اور مفادات کا اسیر ہے۔
پاکستان پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات۔۔۔ ایک قومی بحران
پاکستان، جو عالمی سطح پر کاربن اخراج میں محض 0.9 فی صد کا حصہ رکھتا ہے، ماحولیاتی خطرات کے عالمی اشاریے میں مستقل طور پر صفِ اول میں رہا ہے۔ اس کی جغرافیائی ساخت، زراعت پر انحصار، اور شہری انفرااسٹرکچر کی کمزوری اسے شدید خطرات کا شکار بناتی ہے۔
گلوبل وارمنگ اور گلیشیئرز کا پگھلنا: خاص طور پر شمالی پاکستان میں واقع ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں میں موجود گلیشیئرز دنیا کے سب سے بڑے ذخائر میں شمار ہوتے ہیں، مگر اب یہی گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ان کے پگھلنے سے درجنوں گلیشیائی جھیلیں وجود میں آچکی ہیں جن کے پھیلاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جب ان جھیلوں میں پانی کی مقدار حد سے بڑھ جاتی ہے یا قدرتی بند کم زور ہوجاتے ہیں، تو وہ اچانک پھٹ جاتی ہیں۔ اس اچانک اخراج کوGlacial Lake Outburst Flood (GLOF) کہا جاتا ہے۔ ایسے واقعات میں نیچے کی بستیوں پر تباہ کن سیلابی ریلا آتا ہے، جو پل، سڑکیں، کھیت اور دیہات بہا کر لے جاتا ہے۔ گلگت بلتستان میں حسن آباد پل کا انہدام اسی نوعیت کے ایک GLOF واقعے کی مثال ہے۔
2022 کا تباہ کن سیلاب پورے تناظر میں ایک قومی سانحے سے کم نہ تھا۔ غیرمعمولی بارشوں، گلیشیائی پانی کے اخراج، اور انتظامی کم زوریوں کے نتیجے میں ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِآب آگیا۔ کئی انسانی جانیں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں، لاکھوں گھر تباہ ہوئے، زرعی معیشت مفلوج ہوئی، اور تیس ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
ماحولیاتی تبدیلی کے مضمرات اب صرف قدرتی آفات تک محدود نہیں رہے بلکہ معیشت، خوراک، پانی، صحت اور شہری منصوبہ بندی جیسے شعبے بھی ان کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی اب محض ایک لفظی بحث نہیں رہی بلکہ ایک عملی خطرہ ہے جو ریاست کی کارکردگی، معیشت اور قومی سلامتی کو براہِ راست متاثر کرتا ہے۔
ان تمام چیلنجز کے تناظر میں پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کو محض ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ اسے قومی سلامتی، اقتصادی بقا، اور بین الاقوامی انصاف کا معاملہ سمجھنا ہوگا۔ گذشتہ چند سال کا عرصہ پاکستان کے لیے اس بحران کے حوالے سے بیداری کا عرصہ ہی رہا ہے، مگر کوئی خاص پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملی۔
حکومتِ پاکستان نے کچھ اقدامات ضرور کیے ہیں، جن میں نیشنل ایڈاپٹیشن پلان 2023، کلین گرین پاکستان، بلین ٹری سونامی، اور الیکٹرک وہیکل پالیسی جیسے منصوبے شامل ہیں۔ تاہم ان پر مؤثر عمل درآمد نہ ہونا، ادارہ جاتی ہم آہنگی میں روایتی رکاوٹیں اور شفاف نگرانی کی کمی نے ان اقدامات کو اپنے ہدف سے بہت پیچھے رکھا ہوا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر پاکستان نے اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور گرین کلائمیٹ فنڈ سے تعاون کی کوششیں کیں۔ جنیوا میں 2023 میں منعقد ہونے والی ڈونر کانفرنس میں 9 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا، مگر زیادہ تر فنڈز قرضوں کی شکل میں پیش کیے گئے جن سے پاکستان جیسے ملک کے لیے ماحولیاتی انصاف کا سوال مزید گہرا ہوگیا ہے۔
پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی کو ایک قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھتے ہوئے اس کے مطابق حالیہ بجٹ 2024-25 میں ترجیحات طے کی ہیں، جس کی ایک جھلک یہ ہے:
Climate Budget Tagging (CBT)
حکومت پاکستان نے اس سال کے بجٹ میں پہلی بار CBT جیسی ادارہ جاتی اصلاحات متعارف کروا کر یہ اشارہ دیا ہے کہ ماحولیاتی پالیسی اب محض ایک ’’سائیڈ ایشو‘‘ نہیں بلکہ قومی معاشی ڈھانچے کا بنیادی حصہ بننے جا رہی ہے۔ وزارت خزانہ نے CBT کے تحت 15.3 فی صد ترقیاتی اور 7.7 فیصد جاری بجٹ کو موسمیاتی حساس قرار دیا ہے۔
٭ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری: حکومت نے PKR 67.2 ارب گرین انرجی منصوبوں کے لیے مختص کیے ہیں جن میں داسو اور مہمند ڈیمز، آزاد کشمیر میں ہائیڈرو منصوبے، اور سولر پینل و انورٹرز پر ٹیکس چھوٹ شامل ہے۔ یہ عالمی ماحولیاتی پالیسی سے ہم آہنگ اقدامات ہیں، لیکن ابھی بھی پاکستان کا انرجی مکس 60% فوسل فیول پر انحصار کرتا ہے۔
٭ آفات کی تیاری اور پانی کے منصوبے: سیلاب، پانی کی قلت اور تباہ کن بارشوں کے خطرات کے پیش نظر PKR 133 ارب پانی کے منصوبوں پر، PKR 16 ارب ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ پر، اور PKR 4.4 ارب انڈس بیسن واٹر ٹیلی میٹری پر مختص کیے گئے ہیں۔
بین الاقوامی شراکت داری
climate public investment management assessment(CPIMA)، SAP based green climate fundاور systems تک رسائی کے لیے شفافیت میں بہتری کی کوششیں پاکستان کو عالمی موسمیاتی مالیات سے جوڑنے کی سمت پیش رفت ہیں۔
پاکستان دنیا کا آٹھواں ماحولیاتی لحاظ سے غیر محفوظ ترین ملک ہے، اور ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے عالمی گرین ہاؤس گیسوں میں محض 1% سے بھی کم حصہ ڈالا ہے، لیکن ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا سب سے بڑا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
Global Climate Risk Index اور Nd -gain vulnerability index جیسے بین الاقوامی اشاریے مسلسل پاکستان کو انتہائی حساس ریاست قرار دیتے ہیں۔
پاکستان کے بجٹ 2024–25 میں ماحولیاتی حساس پالیسیوں کا آغاز ایک مثبت پیش رفت ہے۔ climate budget tagging، گرین انرجی کی طرف رغبت، اور آفات کی تیاری کے لیے بجٹ مختص کرنا مستقبل کی سمت ایک مضبوط اشارہ ہے۔ تاہم، موسمیاتی تبدیلی ایک فوری خطرہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے صرف مالی وعدے کافی نہیں، بلکہ درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں:
٭ مقامی خودمختاری: ضلعی یا ڈویژن کی سطح پر فنڈز اور اختیار دیا جائے تاکہ ماحولیاتی منصوبے نچلی سطح پر مؤثر طریقے سے نافذ ہوں اور مقامی ضروریات کو پورا کر سکیں۔
٭ نجی شعبے کی شمولیت: گرین بانڈز اور نجی سرمایہ کاری کو متحرک کرنے کے لیے پالیسی اصلاحات کی جائیں۔ اس سے نہ صرف مالی وسائل بڑھیں گے بلکہ جدید ٹیکنالوجی اور مہارت بھی ملک میں آئے گی۔
* اداروں کا استحکام: صوبائی سطح پر کلائمیٹ سیل قائم کیے جائیں تاکہ وفاقی پالیسی کا اثر نچلی سطح تک پہنچے اور مختلف وزارتوں اور محکموں کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہو۔
تعلیم اور بیداری:Research Education Climate ، اورEngagement Youth کو قومی پالیسی میں شامل کیا جائے۔ نوجوانوں کو سبز معیشت میں مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اس بحران سے نمٹنے میں فعال کردار ادا کر سکیں۔
شفافیت اور احتساب
result based financing اورMRV credible (Monitoring, Reporting & Verification) سسٹمز کی عدم موجودگی ایک بڑا خلا ہے۔ ان سسٹمز کا قیام مالی وسائل کے درست استعمال اور منصوبوں کی افادیت کو نا صرف یقینی بنائے گا بلکہ ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والے بین الاقوامی امدادی اداروں کو بھی راغب کرے گا کہ وہ پاکستان میں کام کریں۔
اگر ہم نے اجتماعی اور فوری اقدام نہ کیے، تو آنے والی تاریخ ہمیں محض متاثرہ ملک نہیں بلکہ غافل قوم کے طور پر یاد رکھے گی۔ اب وقت ہے کہ ہم فیصلہ کریں کہ ہم نے ماحولیاتی آفتوں کا شکار ہونا ہے یا اس بحران سے نکلنے والی قیادت میں شامل ہوں کر اپنا ملکی وقار پوری دنیا پر واضح کرنا۔ یہ فیصلہ تاریخ نہیں، ہمیں خود کرنا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ماحولیاتی تبدیلی کے موسمیاتی تبدیلی ماحولیاتی انصاف ترقی پذیر ممالک اور ماحولیاتی تباہ کن سیلاب بین الاقوامی کہ ماحولیاتی جنگلات کی ا گ ماحولیاتی ا پانی کی قلت کے حوالے سے پاکستان نے ہو رہے ہیں نہیں بلکہ ہونے والی ممالک میں اور زرعی خشک سالی متاثر ہو رہی ہیں نے والی گرمی کی پیش رفت تیزی سے کرتا ہے کے باعث رہا ہے رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کا ترقی پذیر ممالک کو ایم ڈی بیز میں ویٹوپاوردینے کا مطالبہ
بیجنگ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جون2025ء)پاکستان نے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بی(اے آئی آئی بی )کو کثیرالجہتی تعاون کا ایک نیا ماڈل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 2022 کے سیلاب کے بعد اے آئی آئی بی کی جانب سے پاکستان کو دی جانے امداد ’’انتہائی اہم‘‘ہے ، ترقی پذیر ممالک کو عالمی مالیاتی اداروں میں زیادہ مؤثر آواز اور حتیٰ کہ ویٹو پاور دینے کی ضرورت ہے۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق سیکرٹری وزارت اقتصادی امور کاظم نیاز نے پاکستان کو اے آئی آئی بی کا کلیدی شراکت دار قرار دیا اور اس کے ایسے طرز حکمرانی کی حمایت کی جس میں ابھرتی ہوئی معیشتوں کو زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق انہوں نے کہا ہم ہمیشہ سے اے آئی آئی کو ایک اسٹریٹیجک اہمیت اور وسیع امکانات کا حامل ترقیاتی شراکت دار سمجھتے ہیں،اس کا جامع اور مشاورت پر مبنی فیصلہ سازی کا فریم ورک وہ خصوصیات ہیں جنہیں ہم بہت سراہتے ہیں۔(جاری ہے)
چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق نیاز نے بتایا کہ پاکستان، بطور بانی رکن، صاف توانائی، شہری میٹرو نظام اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر سمیت متعدد منصوبوں پر اے آئی آئی بی کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ انہوں نے بینک کی Lean, Clean, and ،Green، شناخت اور اس کی ’’تیز رفتار اور لچکدار‘‘فنانسنگ کی تعریف کی، جو انفراسٹرکچر کے شدید بحران کا سامنا کرنے والے ملک کے لیے نہایت اہم ہیں۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق انہوں نے 2022 کے تاریخی سیلاب کے بعد بینک کی کارکردگی کو خاص طور پر سراہا، جب اس نے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ مل کر کام کیا۔ انہوں نے کہا اے آئی آئی بی کی جانب سے فنانسنگ کے جدید آلات کے ذریعے فراہم کی جانے والی مدد نے ہماری بحالی کی کوششوں پر مثبت اثر ڈالا۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق مستقبل کے حوالے سے بات کرتے ہوئیکاظم نیاز نے کہا کہ پاکستان اے آئی آئی بی کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مزید مضبوط بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں جیسے ہیٹ ویوز، سیلاب اور پانی کی قلت جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے سمارٹ انفراسٹرکچر تیار کر سکے۔انہوں نے کہا کہ دنیا کو درپیش باہم جڑے ہوئے بحران، جیسے قرض اور ماحولیاتی تبدیلی، ترقی پذیر ممالک سے متحد ردعمل کا تقاضا کرتے ہیں۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق انہوں نے زور دیا کہ ترقی پذیر ممالک کو کثیرالجہتی ترقیاتی بینکوں(ایم ڈی بیز)کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اور گورنرز میں ایک مؤثر آواز حاصل کرنی چاہیے۔ جو ممالک پہلے ان اداروں میں کم نمائندگی رکھتے تھے، اب انہیں کلیدی فیصلوں میں زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنا چاہیے، حتیٰ کہ ویٹو پاور بھی۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایم ڈی بیز کو صرف مالیاتی ادارے بنے رہنے کے بجائے "علم کے خزانی" بننا چاہیے، جو منصوبوں پر عملدرآمد کی صلاحیت بڑھائیں، قرضوں کی پائیداری یقینی بنائیں، اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری کے خطرات کم کرنے کے لیے اپنا پلیٹ فارم استعمال کریں۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق نیاز نے کہا کہ اے آئی آئی بی اس تبدیلی میں ایک رہنما کردار ادا کر رہا ہے۔ اے آئی آئی بی کثیرالجہتی تعاون کی ایک نئی شکل اور ترقی کا ایک نیا نمونہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ باہمی اعتماد اور مشترکہ ترجیحات پر مبنی ہے، جو ترقی پذیر ممالک کو یہ اعتماد دیتا ہے کہ وہ مل کر اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں۔