Express News:
2025-11-18@22:31:14 GMT

پاکستان ریلوے، مستقبل کے چیلنجز

اشاعت کی تاریخ: 19th, November 2025 GMT

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ وفاقی حکومت تمام صوبوں کے ساتھ مل کر ریلوے نیٹ ورک کو وسطی ایشیا تک توسیع دے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کراچی کو ملک کا معاشی مرکز اور ’’پاکستان کا دل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت، سندھ حکومت کے تعاون سے کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) کی جدیدیت اور صوبے سمیت ملک بھر کے ریلوے اسٹیشنز کی اپ گریڈیشن یقینی بنائے گی۔

بلاشبہ مستقبل کا ایک اہم چیلنج ٹیکنالوجی ہے۔ آج ڈیجیٹل نظام ہر شعبے کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ ٹکٹنگ، ٹرین ٹریکنگ، ریزرویشن، کارگو مینجمنٹ، اسٹیشن کنٹرول، ہر چیز ٹیکنالوجی کے بغیر ادھوری ہے۔ پاکستان ریلوے اپنے نظام کو ڈیجیٹلائز کرنے سے نہ صرف مسافروں کو سہولت مل رہی ہے بلکہ اس طرح انتظامیہ کے لیے بھی شفافیت اور کارکردگی میں اضافہ ممکن ہوگا۔ پاکستان کے وزیراعظم بھی ریلوے کی بہتری کے لیے پرامید دکھائی دیتے ہیں، اور پاکستان ریلوے کے وسائل کا دائرہ کار بھی وسیع کرچکے ہیں۔

اب ریلوے کو ازخود کام کرنے اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کراچی جیسے میگا سٹی کے لیے سرکلر ریلوے کی بحالی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے، وزیراعلیٰ سندھ کی خواہش پر اگر یہ منصوبہ وزیراعظم سی پیک میں شامل کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ کراچی کے ٹریفک مسائل سے دوچار عوام کے لیے مژدہ جانفزا ہوگا،کیونکہ پاکستان ریلوے کا سب سے بڑا چیلنج اس کا فرسودہ انفرا اسٹرکچر ہے۔ آج بھی ریلوے ٹریکس، سگنلنگ سسٹم، انجنز اور بوگیاں کئی دہائیوں پرانے ہیں، جن کی حالت نہ صرف ٹرینوں کی رفتار کم رکھتی ہے بلکہ حادثات کے خطرات بھی بڑھا دیتی ہے۔

جدید دنیا میں ریلوے نظام تیز رفتار ٹرینوں، خودکار کنٹرول سسٹمز اور ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی کے بغیر سوچا بھی نہیں جا سکتا، جب کہ پاکستان میں ٹیکنیکل اپ گریڈیشن کا سفر سست روی کا شکار ہے۔ نتیجتاً نہ صرف ٹرینیں تاخیر کا شکار ہوتی ہیں بلکہ مسافر سہولیات بھی متاثر ہوتی ہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی حادثے کی خبر سامنے آنا ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہمارے ریلوے کے حفاظتی نظام کو فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔

پاکستان ریلوے کی کارگو سروس اگر صحیح معنوں میں فعال ہو جائے تو ملکی معیشت کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ دنیا بھر میں مال بردار ٹرینیں سڑکوں سے کہیں زیادہ مؤثر، سستی اور ماحول دوست سمجھی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں کارگو ریلوے کو طویل عرصہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، جس کے باعث قومی تجارت کا انحصار ٹرکوں اور ملٹی ویلر ٹرالرز اور سڑکوں پر منتقل ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف پورٹس پر بوجھ بڑھ گیا بلکہ سڑکوں کی حالت بھی بگڑی اور تیل کی کھپت میں اضافہ ہوا، اگر ریلوے کارگو سروس کو جدید تقاضوں کے مطابق بہتر کرلیا جائے تو درآمد و برآمد کا پورا نظام سستا اور تیز رفتار بنایا جا سکتا ہے، جو ملکی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔

پاکستان ریلوے کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرنا بھی مستقبل کے چیلنجز میں سب سے اہم ہے۔ آبادی میں اضافہ اور شہروں کا پھیلاؤ بھی ریلوے کے لیے نئے چیلنجز لائے ہیں۔ آج پاکستان کے بڑے شہر ٹریفک کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اگر ریلوے شہری ٹرانسپورٹ میں مؤثر کردار ادا کرے تو شہروں کی زندگی میں آسانی آ سکتی ہے۔

لاہور میٹرو ٹرین جیسے منصوبے اس کی مثال ہیں، مگر انھیں مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ کراچی، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان اور دیگر بڑے شہروں میں شہری ریلوے نظام قائم کیا جائے تو یہ ٹریفک کے مسائل کے حل میں مدد دے سکتا ہے اور لاکھوں شہریوں کو بہتر سفری سہولت مل سکتی ہے۔ سی پیک کے تناظر میں ریلوے کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ اگر پاکستان ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کر دیا جائے تو یہ خطے کی معاشی راہداری بن سکتا ہے، جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ چین، وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کے تجارتی راستے مستحکم ہوں گے۔ مگر اس کے لیے ریلوے کو عالمی معیار کے مطابق اپ گریڈ کرنا ہوگا، ورنہ ہم علاقائی تجارت کے اس بڑے موقع سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جائیں گے۔

پاکستان ریلوے کو ملکی ٹرانسپورٹ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، یہ محکمہ اپنے اندر عروج و زوال اور پھر استحکام کی تاریخ لیے ٹریک پر چلے جا رہا ہے۔ پاکستان میں 150 سال پرانی ریلوے لائن اپنے ہاتھ میں معاشی ترقی کی ان گنت کنجیاں رکھتی ہے مگر اپنی 78 سالہ تاریخ میں پاکستان ان میں سے ایک بھی حاصل نہیں کر پایا۔ کراچی سے پشاور تک جانے والی 1800 کلومیٹر سے زیادہ طویل مین ریلوے لائن ایک یا ایم ایل ون اسے وراثت میں ملی لیکن آج تک پاکستان نہ تو اس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ کر پایا اور نہ ہی کوئی بہتری لائی جا سکی۔

 عوام کو ریلوے مسائل کے حوالے سے محکمے اور حکومت سے شکایات بھی ہیں، جیسا کہ نئی ٹرینوں کو چلانے سے قبل ایک بار اس ریلوے ٹریک اور سگنل نظام کا تو جائزہ لیا جائے، جو اس قابل ہی نہیں جن پر اتنا بوجھ ڈالا جائے۔ بنیادی طور پر ان حادثات کی وجہ بھی یہی ہے کہ موجودہ سسٹم ہی اتنا بوجھ برادشت کرنے کی قابلیت سے قاصر ہے۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ نئی ٹرینوں کو چلانے سے پہلے ان سب باتوں کی جانب توجہ کیوں نہیں دی جاتی؟ ٹریک لیول،کراسنگ، سگنل سسٹم کو کیوں بہتر نہیں بنایا جاتا؟ ان حادثات کے بعد ایک جانب پاکستان ریلوے کو تو نقصان ہو ہی رہا ہے، دوسری جانب عوام کے ردعمل میں بھی ٹرین کے سفر کو غیر محفوظ سمجھا جانے لگا ہے۔ پاکستان میں معاشی ترقی ایم ایل ون کے بغیر ممکن ہونا مشکل ہے۔ زیادہ مال بردار گاڑیاں چلنے سے ریلوے زیادہ سامان کراچی سے ملک کے دوسرے حصوں میں تیز رفتاری اور کم خرچ پر ترسیل کرے گا۔ مال بردار گاڑی کے لیے 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار عالمی سطح کے عین مطابق ہے۔ اس طرح مال کی قیمت کم بھی ہو گی اور وہ وقت پر مہیا بھی ہو گا۔ یوں خود بخود کاروبار میں اضافہ ہو گا۔ روڈ ٹرانسپورٹ کے ذریعے سامان کی ترسیل نسبتاً مہنگی بلکہ سست رو بھی ہے۔

اس سے سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بھی زیادہ ہے۔ ایم ایل ون مکمل ہونے سے پاکستان کو خطے میں تجارتی اعتبار سے بنیادی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ پاکستان میں ٹرین کا سفر ہمیشہ سے عوام کے لیے ایک سہولت سمجھا جاتا رہا ہے، مگر موجودہ صورتحال نے اس سہولت کو ایک بڑے مسئلے میں بدل دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان ریلوے میں بوگیوں کی کمی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے جس نے ہزاروں مسافروں کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ ٹکٹ لینے کے باوجود مسافروں کو ریلوے اسٹیشن پر جا کر پتا چلتا ہے کہ انھیں اپنی منتخب کردہ ٹرین کے بجائے دوسری ٹرین میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ یہ صورتحال نہ صرف مسافروں کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے بلکہ ریلوے کے نظام کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کر رہی ہے۔

1960 کے اوائل میں پاکستان کی زیادہ تر تجارتی نقل و حمل کا 75 فیصد ریلوے کے ذریعے ممکن ہوتا تھا لیکن پھر حکومت کی ترجیحات بدل گئیں اور ریلوے کے نظام سے توجہ ہٹالی گئی۔ پاکستان ریلوے نے جب چند ٹرینوں کو نجی کمپنیوں کے حوالے کیا تو نتائج حیران کن طور پر مثبت نکلے۔ مسئلہ صرف مینجمنٹ اور نگرانی کے نظام کا ہے۔ پرائیویٹ کمپنیز ٹرین کے ہر ڈبے کے لیے ایک ٹکٹ چیکر اور ایک محافظ مقرر کرتی ہیں جن کی ذمے داری صرف اپنے کمپارٹمنٹ کے مسافروں پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔ یہ عمل مسافروں کے نظم و ضبط اور اطمینان میں اضافہ کرتا ہے۔

وہ بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے ہر شخص سے کرائے کے ساتھ دس یا بیس روپے آن لائن ٹکٹ فیس وصول کرتے ہیں اور ٹکٹ گیجٹ سے نکال کر مسافر کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس کا ریکارڈ فوری طور پر ہیڈ آفس کو منتقل ہو جاتا ہے، اگر ٹرین کے دس ڈبے ہوں تو دس ٹکٹ چیکر تعینات کیے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ٹرین کے نظام پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹرین کے نظام کو جس طرح بہترین بنادیا گیا، اس سے یہ اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہیں کہ ٹرین کا نظام کسی بھی ملک کے ریونیو اور سفری سہولیات کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان ریلوے کو پاکستان میں میں اضافہ ریلوے کے ریلوے کی ٹرین کے جائے تو کے نظام سکتا ہے کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

مری گلاس ٹرین منصوبے کا روٹ بڑھانے کی تجویز پیش

 ویب ڈیسک :مری گلاس ٹرین منصوبہ کے روٹ کو اسلام آباد ائیر پورٹ تک بڑھانے کی تجویز پیش کر دی گئی۔

مری گلاس ٹرین منصوبے کے کنسلٹنٹ نے سی ڈی اے کو تجویز دی ہے کہ منصوبے کے مجوزہ روٹ کو فیض آباد کے راستے اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ تک بڑھایا جائے۔

یہ تجویز پنجاب حکومت، نیسپاک اور سی ڈی اے کے حالیہ اجلاسوں میں پیش کی گئی ہے، جہاں منصوبے کے اگلے مرحلے پر کام میں تیزی لانے پر اتفاق کیا گیا ہے، پنجاب حکومت راول جھیل پارک اور بھارہ کہو بائی پاس سے مری تک گلاس ٹرین سروس کے آغاز کی تیاری کر رہی ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے تناسب سے رد و بدل ہو گیا

منصوبے کی فزیبلٹی اسٹڈی پہلے ہی مکمل ہو چکی ہے، موجودہ منصوبے کے مطابق ٹرین بھارہ کہو بائی پاس سے مری کے پنڈی پوائنٹ تک 40 کلو میٹر طویل روٹ پر چلے گی۔

گزشتہ ماہ وزیراعلیٰ کے مشیر شاہد اشرف تارڑ کی سربراہی میں پنجاب حکومت کے وفد نے چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا اور بورڈ ممبران سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں پنجاب حکام نے مری گلاس ٹرین کو اسلام آباد ائیر پورٹ سے منسلک کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

گرین شرٹس آج روایتی حریف کو کرکٹ سکھانے کے لئے میدان میں آئیں گے

دونوں اداروں نے اتفاق کیا کہ سی ڈی اے کی پری فزیبلٹی مکمل کرنے میں نیسپاک معاونت فراہم کرے گا، ذرائع کے مطابق نیسپاک نے اب اپنی پری فزیبلٹی رپورٹ سی ڈی اے کو پیش کر دی ہے۔ منصوبے کے کنسلٹنٹ نے ائیر پورٹ سے فیض آباد تک موجودہ میٹرو ٹریک کو مونوریل کیلئے استعمال کرنے کی سفارش کی ہے۔

اس کے علاوہ فیض آباد سے بھارہ کہو بائی پاس تک 13 کلو میٹر طویل نیا ٹریک تعمیر کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے جو کہ مجوزہ مین اسٹیشن (لیک ویو پارک اور بائی پاس)سے منسلک ہوگا۔ اگلے مرحلے میں روٹ کو راول جھیل سے فیض آباد تک ایکسپریس وے کے ساتھ بڑھانے کی بھی تجویز موجود ہے تاکہ وہاں سے مونوریل سے لنک ہو سکے۔

بشریٰ کےمتعلق جو چھپا ہے وہ بالکل درست ہے، عون چوہدری بھی گواہی دینےآگئے

دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کئی بار گلاس ٹرین منصوبے کے فوری آغاز پر زور دے چکی ہیں اور حال ہی میں مری کے عوام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ منصوبے پر جلد کام شروع ہو جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کے مستقبل کو خطرات! نئی رپورٹ میں سنگین موسمی بحرانوں کی پیشگوئی
  • آئینی عدالت کو بڑے قانونی اور انتظامی چیلنجز کا سامنا
  • کراچی روشنوں کا شہر ، شالیمار ایکسپریس کو دوبارہ نئی ٹرین بنا دیا گیا جو خوش آئند ہے؛ وزیراعظم
  • پاکستان کو آبادی اور موسمیاتی تبدیلی کے 2 بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ، محمد اورنگزیب
  • کراچی کینٹ اسٹیشن اپ گریڈیشن، کون سی سہولیات فراہم کی گئی ہیں؟
  • پاکستان کی معیشت کا مستقبل آبادی اور موسمی تبدیلیوں سے وابستہ ہے، وفاقی وزیر خزانہ
  • کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن کی تزئین و آرائش مکمل، وزیر اعظم آج اپ گریڈ شالیمار ٹرین کا افتتاح کریں گے
  • پاکستان کرکٹ کا مستقبل روشن ہے: محسن نقوی کی بھارت کو شکست دینے پر پاکستان شاہینز کو مبارکباد
  • مری گلاس ٹرین منصوبے کا روٹ بڑھانے کی تجویز پیش