ہر بلایی کز آسمان آید
گرچہ بر دیگران قضا باشد
بہ زمین نارسیدہ میگوید
خانۂ انوری کجا باشد
فارسی کے اس قطعہ کی آسان اردو میں تشریح کچھ یوں بنتی ہے کہ جو بھی بلا آسمان سے نازل ہوتی ہے، خواہ وہ دیگر لوگوں کا مقدر ہی میں کیوں نہ لکھی گئی ہو، وہ ابھی زمین تک پہنچتی بھی نہیں ہوتی اور پوچھتی ہے کہ انوریؔ کا گھر کہاں ہے؟
کچھ یہی صورتِ حال اہلِ سوات کی ہے۔ 2005 کا زلزلہ ہو، 2010 کا سیلاب ہو، طالبانائزیشن ہو یا پھر 2022 کا سیلاب آسمان سے نازل ہونے والی ہر بلا جنت نظیر وادی ‘سوات’ کا پتا پوچھتی ہے۔ جیسے حالیہ ‘سانحہ سوات’ کو لے لیں…… کہاں ڈسکہ (سیالکوٹ) جیسے دور پرے علاقہ کے لوگ اور کہاں سوات…… بس تبدیلی سرکار کی شان دار تبدیلی کا بھانڈا پھوٹنا تھا اور پھوٹا بھی تو سیاحوں کی جنت کہلانے والی وادی سوات میں۔
27 جون 2025 کو جو کچھ ہوا اُسے مقامی اخبارات کے ساتھ ساتھ قومی و بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے لمحہ بہ لمحہ رپورٹ کیا۔ اس حوالے سے سوات کی ایک مستند نشریاتی ادارے ’باخبر سوات ڈاٹ کام‘ (ویب سائٹ) پر مقامی صحافی فیاض ظفر کی رپورٹوں کو سندِ قبولیت حاصل ہے۔ زیرِ نظر تحریر میں مذکورہ رپورٹس سے بھرپوراستفادہ کیا گیا ہے۔
27 جون 2025، دید و شنید:۔
27 جون 2025 کی صبح مینگورہ شہر میں ‘بائی پاس’ (شہر کا مشہور فوڈ اسٹریٹ) کے مقام پر دریائے سوات میں اچانک سیلابی ریلہ آیا جو خواتین اور بچوں سمیت13 افراد کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق جاں بحق ہونے والے افراد کا تعلق سیالکوٹ کے صنعتی شہر ڈسکہ اور صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان سے بتایا گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق سیاح ڈیڑھ گھنٹے تک مدد کے لیے چیخ و پکار کرتے رہے۔ اس حوالے سے ثبوت کے طور پر سماجی رابطے کی مشہور ویب سائٹ ’فیس بک‘ ایک طرح سے وائرل ویڈیوز سے بھری پڑی ہے۔ مذکورہ ویڈیوز ایک طرح سے کسی بھی حساس شخص کو جھنجھوڑ کر رکھنے کے لیے کافی ہیں۔
ڈپٹی کمشنر سوات شہزاد محبوب (جو کہ اَب معطل ہیں) کے مطابق، اب تک (27 جون 2025 کی شام) مختلف علاقوں میں دریائے سوات سے 8 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ مزید لاشوں کی تلاش جاری ہے۔ حادثے میں جن افراد کی لاشیں ملی ہیں، اُن میں 7 سالہ ایان (ڈسکہ سیالکوٹ)، 45 سالہ روبینہ (سیالکوٹ)، 18سالہ عجوہ (سیالکوٹ)، 16 سالہ شرمین (سیالکوٹ)، 18 سالہ میراب (سیالکوٹ)، 20سالہ تضمین (سیالکوٹ)، ایشال نصیر (مردان) اور فرمان حسین (مردان) شامل ہیں۔ لاپتا افراد میں 17 سالہ عبداللہ (سیالکوٹ)، 14 سالہ ایشال (سیالکوٹ)، 10 سالہ آئمہ (سیالکوٹ)، 8 سالہ انفال (سیالکوٹ) اور دانیال نصیر (مردان) شامل ہیں۔
واضح رہے کہ سانحہ کے اگلے روز یعنی 28 جون 2025 کو سیلابی ریلے کی نذر ہونے والوں میں سے مزید 3 لاپتا افراد کی لاشیں بھی دریا سے برآمد کی گئیں، جب کہ صرف 15 سالہ عبداللہ (سیالکوٹ) کی لاش کی تلاش جاری تھی۔ بدقسمتی سے 8 جولائی کی شب (جب یہ سطور تحریر کی جا رہی تھیں) تک عبداللہ کی لاش نہ مل سکی تھی۔
خاندان کا وہ فرد جو غرق ہونے سے بچ گیا، کیا کہتا ہے؟خاندان کا وہ فرد جو 27 جون کے سیلابی ریلے میں غرق ہونے سے بچ گیا تھا، اپنا نام محمد حسین بتاتا ہے۔ محمد حسین کے بہ قول: ’ہم ایک کوسٹر میں ڈسکہ (سیالکوٹ) سے جمعہ کی صبح مینگورہ، سوات پہنچے۔ بائی پاس (مینگورہ شہر کا مشہور فوڈ اسٹریٹ) پر ایک ریسٹورنٹ میں ناشتے کے لیے رُکے۔ ناشتا کرنے کے بعد ہمارے خاندان کے کچھ افراد جو رات بھر کا سفر کرکے تھک چکے تھے، دریا کنارے ٹھنڈے پانی اور یخ ہوا سے محظوظ ہورہے تھے کہ اتنے میں اچانک سیلابی ریلہ آیا اور ہماری ہنستی بستی دنیا کو اُجاڑ کر چلا گیا‘۔
عینی شاہدین کیا کہتے ہیں؟عینی شاہدین کے مطابق سیلابی ریلہ اُس ہوٹل میں داخل ہوا، جہاں ڈسکہ سے آئے ہوئے سیاحوں نے ناشتا کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اچانک آنے والے سیلابی ریلے سے بچنے کی خاطر سیاح وہاں پاس ہی کرش مافیا کے لگائے ہوئے بجری کے ایک بڑے ڈھیر پر چڑھ گئے، جہاں وہ خود کو محفوظ تصور کرنے لگے، لیکن جیسے جیسے دریا میں طغیانی بڑھتی گئی، توسیاح مدد کے لیے چیخنے چلانے لگے۔
سوات کے ایک فعال سماجی کارکن عابد علی جان کہتے ہیں کہ مجھے جیسے ہی خبر ملی، تو اُس وقت تک قصہ ختم ہوچکا تھا۔ ‘مجھے ایک دوست نے ساڑھے 10بجے کال کی اور کہا کہ بجری کے ڈھیر پر دریا کے وسط میں کھڑے سیاح ایک ایک کرکے سیلابی کے ریلے کی نذر ہو رہے ہیں۔ مَیں نے کام چھوڑ چھاڑ کر بائی پاس کی راہ لی، مگر جیسے ہی پہنچا، تو وہاں سیاح تھے نہ بجری کا ڈھیر، بس تا حدِ نظر غراتا ہوا دریا اور اس کا گدلا پانی دکھائی دے رہا تھا۔
’ریسکیو 1122‘ کی کارکردگی کیا تھی؟کنارے پر کھڑے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ’ریسکیو 1122‘ کو بار بار فون کیا، لیکن ایک گھنٹا اور پینتیس منٹ تک مدد کے لیے چیخنے چلانے کے بعد خاندان کے افراد بڑی بے بسی کے عالم میں ایک ایک کرکے سیلابی ریلے کی نذر ہوتے گئے۔
عابد علی جان کہتے ہیں کہ جس وقت وہ جائے وقوع پر پہنچے، تو سوگوار خاندان کی 2 یا 3 خواتین، ایک بوڑھا اور ایک 22 سالہ جوان ناشتا والے ہوٹل میں موجود تھے۔ ’بڑی بے بسی کا عالم تھا عورتیں بین کر رہی تھیں اور کچھ لوگ موبائل فون لے کر ان کی ویڈیوز بنا رہے تھے۔ د ریں اثنا سٹی میئر شاہد علی خان بھی پہنچے۔ اُنہوں نے خواتین اور دیگر سوگواروں کو گاڑی میں بٹھایا اور انہیں اپنے گھر لے گئے‘۔
عابد علی جان کہتے ہیں کہ زندہ بچ جانے والے اُس 22 سالہ نوجوان (جس کا نام اُنہیں انٹرویو کے وقت یاد نہیں تھا) نے کہا کہ ’ریسکیو 1122 والے تو اول تاخیر سے پہنچے۔ اُس کے بعد اُن کے ساتھ ہمارے گھر والوں کو بچانے کا کوئی سامان نہیں تھا۔ لے دے کے ایک رسّی تھی، جسے دریا کے وسط تک پہنچانے کی طاقت وہ نہیں رکھتے تھے۔ کئی بار رسّی ہمارے پیاروں تک پھینکی تو گئی، مگر وہ اُن تک نہ پہنچی۔ یہ ایک طرح سے اُن کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلی جارہی تھی‘۔
دراصل اُس روز یکم محرم الحرام کی چھٹی تھی۔ واضح رہے کہ ہر سال خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے مذکورہ روز چھٹی دی جاتی ہے۔ ریسکیو 1122 کے جس اہلکار نے بجری کے ڈھیر پر کھڑے ہوئے سیاحوں میں سے 3 کی جان بچائی، وہ اُس روز چھٹی پر تھا۔ دفتر سے کال موصول ہوتے ہی وہ آیا اور 3 افراد کی جان بچانے میں کامیاب ہوا۔
سانحہ بائی پاس، ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟سوات کے مقامی صحافی فیاض ظفر کی ’باخبر سوات ڈاٹ کام‘ پر 27 جون 2025 کی شام ایک خبر شائع ہوئی ہے، جو ریکارڈ پر موجود ہے۔ مذکورہ خبر کے مطابق عینی شاہدین سانحے کی تمام تر ذمے داری ریسکیو 1122 پر عائد کرتے ہیں۔ ’عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پانی تیز ہونے کے ساتھ ہی اُنہوں نے ریسکیو کے دفتر فون کیا۔ ریسکیو کا دفتر بائی پاس سے 4 یا 5 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ جمعہ کو بازار بندہونے کی وجہ سے ٹریفک معمول سے کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ریسکیو کے دفتر سے بائی پاس تک کا سفر 10 تا 15 منٹ میں طے ہوتا ہے، مگر ریسکیو کے اہلکار ایک گھنٹا 35 منٹ بعد پہنچے۔ نیز اُن کے پاس ضروری سامان بھی نہیں تھا، جس کی وجہ سے یہ بڑا حادثہ پیش آیا۔’
منتخب اُمیدواروں کا کردار کیا تھا؟بخت علی خان، جو شاہدرہ وتکے کے رہنے والے ہیں، کہتے ہیں کہ جس وقت وہ جائے وقوع پر پہنچے، تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں پر قیامت کا سماں تھا۔ اُس کی نظر کے سامنے ایسے میں چاہیے تھا کہ کوئی ایک منتخب نمائندہ، کوئی ایم پی اے، کوئی ایم این اے موجود ہوتا۔ عوام نے انھیں ووٹ دیا ہے، یہ عوام کا ان پر حق ہے کہ کوئی ایک منتخب اُمیدوار تو اس تکلیف کے وقت وہاں موجود ہوتا۔ بس ایک شاہد علی خان (سٹی میئر) وہاں موجود تھا، جو سرگرم نظر آیا۔
سوات کے ایک مقامی صحافی عدنان باچا، جو خیبر نیوز کے ساتھ کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اُنہوں نے مختلف منتخب نمایندگان، سرکاری اعلیٰ عہدے داروں اور کئی بااثر افراد کو کال کی، مگر بے سود۔ مَیں نے 27 جون 2025 کو مقامی ایم پی اے فضل حکیم (صوبائی وزیر لائیو سٹاک، کوآپریٹیو، فشریز) کو بار بار کال کی، مگر اُنھوں نے فون نہیں اُٹھایا۔ اُس کے بعد اُن کا نمبر ’آوٹ آف ریچ‘ رہا۔ 28 جون 2025 کو این اے تھری سے منتخب نمائندے ایم این اے سلیم الرحمان کو بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی، خیر سے اُن کا نمبر بار بار بند آرہا تھا۔ کمشنر ملاکنڈ ڈویژن سے بار بار رابطہ کی کوشش کی، اُنہوں نے سرے سے جواب ہی نہیں دیا۔ ‘
’سیالکوٹ، مردان ہم شرمندہ ہیں‘28 جون 2025 کو مینگورہ شہر میں دہشت گردی کے خلاف اہلِ سوات کی نمائندہ اور موثرتحریک’سوات اولسی پاسون‘ کی کال پر سول انتظامیہ کی ناکامی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں پلے کارڈز پر لکھے گئے نعروں میں سب سے مؤثر نعرہ تھا: ‘سیالکوٹ، مردان ہم شرمندہ ہیں! ‘ مظاہرے میں مختلف سیاسی جماعتوں، تاجروں اور دیگر تنظیموں کے رہنماؤں اور کارکنوں نے اپنی شرکت یقینی بنائی۔
عوامی غصے کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر تجاوزات کے خلاف آپریشن کا اعلان اور آغاز:۔چوں کہ اہلِ سوات سیاحوں کی قیمتی جانیں ضائع ہونے اور صوبائی حکومت، انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کی ناکامی پر سراپا احتجاج تھے، اس لیے ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی غرض سے 29 جون 2025 کو وزیر اعلیٰ اور چیف سیکریٹری کی ہدایت پر مینگورہ بائی پاس سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کا بڑے دبنگ انداز سے آغاز کیا گیا۔
اس موقع پر سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ دکان دار اور ہوٹل والے اپنا کاروبار بچانے کے لیے سرکاری اہلکاروں پر پتھراؤ کرتے ہیں۔اس دھینگا مشتی میں 3 سرکای اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ملیں، تو پولیس نے 8 افراد کو گرفتار کرلیا۔ ’باخبر سوات ڈاٹ کام‘ پر شائع شدہ ایک خبر کے مطابق: ’انتظامی افسران نے پولیس کی بھاری نفری اور ہیوی مشینری کے ساتھ اتوار کی صبح دریائے سوات کے کنار ے تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔ آپریشن کے آغاز پر دکان داروں نے بائی پاس روڈ بند کیا اور احتجاج کیا۔ انتظامیہ کے مطابق مظاہرین کی جانب سے انتظامیہ اور پولیس پر پتھراؤ کیا گیا جس سے انتظامیہ کے 3 اہلکار زخمی ہوئے۔ پولیس نے پتھراؤ کرنے والے 8 افراد کو گرفتار کرلیا۔ شام تک انتظامیہ نے بائی پاس پر فلائی اوور سے فضاگٹ چوک تک آپریشن مکمل کرلیا۔‘
تجاوزات آپریشن، 4 دن کی چاندنی پھر اندھیری رات:۔صحافی عدنان باچا کہتے ہیں کہ جیسے ہی تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع ہوا، تو رپورٹ بیلنس کرنے کی غرض سے کسی بھی ایم پی اے یا ایم این اے سے بات نہ ہوسکی۔’29 جون کو تجاوزات کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن کی رپورٹنگ میں حکومتی موقف لینا ضروری تھا۔ میرے سیل فون میں موجود جتنے منتخب نمایندوں کے نمبر تھے، سب ملائے، مجھے حیرت ہوئی اور ساتھ افسوس بھی کہ سب نے متفقہ طور پر اپنے نمبر بند کیے ہوئے تھے۔ خاص طور پر ایم این اے سلیم الرحمان اور ایم پی اے فضل حکیم کا نمبر بار بار ملاتا رہا۔ ان کے علاوہ کمشنر ملاکنڈ ڈویژن اور ڈپٹی کمشنر، تجاوزات کے خلاف آپریشن کے حوالے سے کسی بھی قسم کا موقف دینے کو تیار نہیں تھے‘۔
30 جون کو بھی تجاوزات کے خلاف آپریشن پورے زور و شور سے جاری رہا، پولیس کی بھاری نفری نے بائی پاس سے لے کر فضاگٹ تک آپریشن کیا۔ اس دوران میں دریا کنارے قائم غیر قانونی مارکیٹوں، دکانوں اور تعمیرات کو مسمار کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فضاگٹ میں قائم سوات کے سب سے بڑے نجی پارک (ونڈر ورلڈ) کو بھی مسمار کیا گیا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ سابق گورنر غلام علی نے جس جگہ دریا کی زمین گھیر کر ایک فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی تھی، اُس عمارت کو بھی مسمار کیا گیا۔
قصہ مختصر، 2 دن زور و شور سے جاری رہنے والے آپریشن کی کارروائی جیسے ہی وفاقی وزیر امیر مقام کے ہوٹل تک پہنچی، تو صوبائی حکومت کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ ان تمام چھوٹے بڑے ہوٹلوں، ریسٹورنٹس، ڈھابوں اور دکان داروں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ایک کلک کی دوری پر ہیں، جو نوحہ کناں ہیں کہ اگر خیبر پختونخوا حکومت ایک وفاقی وزیر کا ہوٹل گرانے کی پوزیشن میں نہیں تھی، تو پھر آپریشن کے نام پر ہمارا نقصان کیوں کیا گیا؟
سول انتظامیہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت:۔28 جون 2025 کو فیاض ظفر نے ’باخبر سوات ڈاٹ کام‘ پر ایک زبردست انکشاف کیا کہ سوات میں سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والی مشین پہلے سے موجود ہے، لیکن آج تک اُسے سرے سے استعمال ہی میں نہیں لایا گیا۔ مذکورہ خبر کی تفصیل میں ایک اور انکشاف ‘سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر نااہل لوگوں کی بھرتی کا ہے: ’ریسکیو 1122 میں سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر ملازمین کو بھرتی کیا گیا ہے، جن میں کسی کو بھی تیراکی نہیں آتی۔ باثوق ذرائع کے مطابق 2010ء کے سیلاب کے بعد محکمہ ایری گیشن کو سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والی جدید مشین دی گئی تھی، جو اِس وقت سے محکمہ ایری گیشن کے گودام میں پڑی ہے اور سرے سے قابلِ استعمال نہیں‘۔
سانحہ سوات کے اصل ذمے دار کا تعین:۔30 جون 2025 کو ’باخبر سوات ڈاٹ کام‘ پر ایک رپورٹ سانحہ سوات کے اصل ذمے دار کا تعین ہوگیا’ کے زیرِ عنوان شائع ہوئی تو سانحے کے اصل ذمے دار کا پتا بھی چل گیا۔
مذکورہ رپورٹ بھی فیاض ظفر ہی کی تیار کردہ ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ صرف ایک ٹھیکیدار کی غلطی سے کئی قیمتی جانیں سیلابی ریلے کی نذر ہوئیں۔ رپورٹ لفظ بہ لفظ ملاحظہ ہو: ‘سوات (فیاض ظفر سے) سانحہ سوات کے اصل ذمے دار کا تعین ہوگیا۔ایک ٹھیکیدار کی غلطی کی وجہ سے مذکورہ سانحہ پیش آیا۔ ’زیڈ کے بی‘ نامی کمپنی نے محکمہ ایری گیشن سے دریائے سوات کے کنارے پشتے باندھنے کا ٹھیکہ لیا تھا۔سانحہ کی جگہ کمپنی نے ایک پشتہ تعمیر کیا تھا جس کی حفاظت کے لیے انہوں نے پشتے کی حفاظت کے لیے دریا کی بجری سے عارضی بند باندھا تھا۔ مختلف ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جب دو سیاح خاندان چائے پینے کے بعدجس خشک جگہ پر آئے، وہ وہی بند والی جگہ تھی۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جس وقت سیاح خاندان اس جگہ کھڑا تھا، اس سے آدھا گھنٹا پہلے ہی اُس مقام سے سیلابی ریلہ گزر رہا تھا۔ سیاحوں کا تعلق سیالکوٹ اور مردان سے تھا۔ اس لیے ان کو سیلاب اورپانی کے رنگ کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ سیاح سیلاب کے پانی سے محظوظ ہورہے تھے اور ویڈیوز بنا رہے تھے کہ اس دوران بند ٹوٹ گیا اور سیاحوں کے چاروں طرف پانی جمع ہوگیا۔ سیاح قریب کھڑے بجری کے ڈھیر پر چڑھ گئے اور ایک گھنٹہ سے زائد وقت تک وہ وہاں موجود رہے۔ پانی آہستہ آہستہ بجری کو بھی ساتھ بہاتا گیا۔ نتیجتاً چند ہی منٹوں میں 2 خاندانوں کے 13 افراد پانی میں بہہ گئے۔ اس سلسلے میں محکمہ ایری گیشن کے ایک آفیسر نے رابطہ پر تصدیق کی۔ جائے حادثہ پر پشتے کا ٹھیکہ زیڈ کے بی نامی تعمیراتی کمپنی کے ساتھ تھا۔ اس بارے میں جب زیڈ کے بی کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدیدار ذیشان خان سے رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے بتایا کہ پشتے کا ٹھیکہ ان کے پاس تھا، تاہم وہ بند اُن کی کمپنی نے نہیں باندھا تھا۔
ذمے داروں کے صحیح تعین کے لیے سول سوسائٹی سوات کی ایک اور کاوش:۔ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ جو ہونا تھا وہ ہوکر رہا، مگر اہلِ سوات جو اول شدید زلزلے، پھر سیلاب اور اُس کے بعد طالبانائزیشن کا شکار ہوئے تھے، بڑی مشکل سے اپنا سافٹ امیج دوبارہ قائم کرنے میں لگے تھے کہ بائی پاس پر حالیہ سانحہ پیش آیا۔ مذکورہ افسوسناک سانحے کے ذمے داروں کے تعین کے لیے سول سو سائٹی کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ مینگورہ بینچ میں ایک رٹ دائر کی گئی۔
اس حوالے سے یکم جولائی 2025 کو روزنامہ مشرق کی ایک رپورٹ ریکارڈ پر موجود ہے، خبر من و عن ملاحظہ ہو: ’پشاور ہائیکورٹ مینگورہ بینچ میں افسوسناک سانحہ سوات کے ذمہ داروں کے تعین کے لئے سول سو سائٹی کی جانب سے رٹ دائر کردی گئی۔ جسٹس ثابت اللہ اور جسٹس قاضی جواد پر مشتمل ڈویژن بینچ نے پہلی سماعت کی۔ سول سوسائٹی کے وکیل شاہ فیصل خان نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری محکموں، ٹھیکیداروں اورکرش مافیا کی وجہ سے یہ بڑا سانحہ پیش آیا ہے، جس کی وجہ سے سوات کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی ہے۔ اس لیے اس واقعے کے ذمہ داروں کا تعین انتہائی ضروری ہے۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں سے آئندہ پیشی پر جواب طلب کرلیا‘۔
سانحہ سوات بارے کمشنر ملاکنڈ ڈویژن کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟03 جولائی 2025 کو کمشنر ملاکنڈ ڈویژن عابد وزیر نے سانحہ سوات کے بارے میں ’پراونشل انسپکشن ٹیم‘ کو ایک جامع رپورٹ جمع کروائی، جو 5 صفحات پر مشتمل تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ معمول سے زیادہ بارش ہونے کے باعث دریائے سوات میں خوازہ خیلہ کے مقام پر پانی کی سطح 77 ہزار 782 کیوسک تک پہنچی تھی۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق سیلاب میں 17 سیاح پھنس گئے تھے۔ اُن میں 10 سیاحوں کا تعلق سیالکوٹ پنجاب سے تھا، 6 کا تعلق مردان سے جبکہ ایک شخص مقامی تھا۔دریائے سوات میں تعمیراتی کام جاری تھا جس کی وجہ سے پانی کا رُخ دوسری جانب کر دیا گیا ہے۔ پانی کا رُخ تبدیل ہونے سے جائے حادثہ میں پانی کی سطح کم تھی۔ سیاح وہاں پہنچے۔ متاثرہ سیاح 8 بج کر 31 منٹ پر ہوٹل پہنچے۔ 9 بج کر 31 منٹ پر دریا میں گئے۔ ہوٹل کے سیکورٹی گارڈز نے سیاحوں کو دریا میں جانے سے روکا، لیکن وہ ہوٹل کی پچھلی طرف سے گئے۔ 9 بج کر 45 منٹ یعنی سیاحوں کے دریا میں داخل ہونے کے ٹھیک14 منٹ بعد پانی کی سطح بڑھنے پر ریسکیو کو کال کی گئی۔ متعلقہ حکام 20 منٹ بعد 10 بج کر 5 منٹ پر جائے وقوعہ پہنچے۔ سیلاب کے خطرات کے پیشِ نظر تمام متعلقہ اداروں کو الرٹ کیا گیا تھا۔سیلاب کنٹنجنسی پلان 2025 کو مئی کے مہینے میں تیار گیا تھا۔ خراب موسم کے بارے میں کئی بار الرٹ رہنے کی اطلاعات بھی متعلقہ اداروں سے موصول ہوئی تھیں۔ متعلقہ افسران کی ایمرجنسی کی صورت میں ڈیوٹیاں پہلے ہی سے تفویض کی گئی تھیں۔ دریا کے کنارے قائم تجاوزات کے خلاف آپریشن کا فیصلہ سیلاب سے قبل ہی ہوا تھا۔ دو جون سے ایک مہینے کے لیے ملاکنڈ ڈویژن میں دفعہ 144 کا نفاذ کیا گیا تھا۔
24 جون کو دفعہ 144 میں مزید توسیع دیتے ہوئے دریائے سوات میں نہانے اورکشتی رانی پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ 17 پھنسے ہوئے سیاحوں میں 4 کو اُسی وقت ریسکیو کیا گیا۔ 12 پھنسے ہوئے افراد کی لاشیں نکال لی گئیں، جبکہ ایک کی تلاش تاحال جاری ہے۔ سوات کے مختلف علاقوں میں کل 75 افراد بہہ گئے تھے۔ حادثے کے بعد حکومت نے ڈپٹی کمشنر ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر بابوزئی اور خوازہ خیلہ سوات کو معطل کردیا ہے۔ ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر سوات اور تحصیل میونسپل آفیسر سوات کو بھی معطل کیا گیا ہے۔ حادثے کے بعد 28 جون کو چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اورہر قسم کی مائننگ پر پابندی عائد کردی۔
سوات سیلابی ریلوں کے لیے خطرناک علاقوں کی فہرست میں شامل:۔07 جولائی 2025 کو یہ خبر بھی آئی کہ جنت نظیر وادی سوات موسمیاتی تغیر کی وجہ سے اب بڑی تیزی کے ساتھ جہنم میں تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ صوبے میں تیسری بار حکومت بنانے والی پارٹی صوبے کی جنت کہلانے والی وادی (سوات) کو جہنم بننے سے بچانے کے لیے کوئی خاص پالیسی وضع نہ کرسکی۔ جنگلات کا بے دریغ کٹاؤہو، دریا اور ندی کنارے تجاوزات ہوں یا صاف پانی کو آلودہ کرنے کا عمل ہو، کسی بھی کمی کو پورا کرنے میں صوبائی حکومت اور اس کے نمایندے مکمل طور پر ناکام ہیں۔
آخر میں صحافی فیاض ظفر کی 07 جولائی 2025 کو ‘باخبر سوات ڈاٹ کام’ پر شائع شدہ رپورٹ پڑھیے اور سر دھنیے: ’موسمیاتی تبدیلی اور سوات کے گلیشئر تیزی کے ساتھ پگھلنے کے بعد ضلع سوات کو پہلی بارزون تھری (یعنی سیلابوں کے لیے خطرناک علاقہ) میں شامل کردیا گیا۔ منگل (08 جولائی) سے سوات میں شروع ہونے والی مون سون کی بارشوں کے لیے پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے کی ہدایت کے بعد انتظامیہ نے ہائی الرٹ جاری کردیا ہے۔ اس سلسلے میں تمام اسپتالوں، ریسکیو، سرکاری محکموں میں چھٹیوں پر پابندی لگادی گئی ہے۔ تمام متعلقہ اداروں کو الرٹ کردیا گیا ہے۔ تمام سرکاری اسکولوں کو عارضی پناہ گاہوں کا درجہ دیا گیا ہے۔ ریسکیو اہلکاروں نے تما م علاقوں میں 24 گھنٹے موبائل ڈیوٹی کا آغاز کردیا ہے۔ محکمۂ پولیس کے ڈی پی او (سوات) محمد عمر خان نے بھی ضلع بھر کی پولیس کو الرٹ رہنے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں فوری امدادی کارروائی کا حکم دیا ہے‘۔
بہ قول ِ انوریؔ
ہر بلایی کز آسمان آید
گرچہ بر دیگران قضا باشد
بہ زمین نارسیدہ میگوید
خانۂ انوری کجا باشد
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ریسکیو 1122 سانجہ بائی پاس سانحہ سوات سوات.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ریسکیو 1122 سانجہ بائی پاس سانحہ سوات سوات تجاوزات کے خلاف ا پریشن کمشنر ملاکنڈ ڈویژن کے اصل ذمے دار کا محکمہ ایری گیشن دریائے سوات میں افراد کی لاشیں ریلے کی نذر ہو سانحہ سوات کے صوبائی حکومت جولائی 2025 کو عینی شاہدین سیلابی ریلے جس کی وجہ سے کہتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر ایم این اے ریسکیو 1122 جون 2025 کو ایم پی اے حوالے سے بائی پاس فیاض ظفر کے سیلاب کے مطابق افراد کو نہیں تھا دریا میں سوات کی دیا گیا گیا تھا کا تعلق کسی بھی ڈھیر پر کا تعین کیا گیا جیسے ہی کرنے کی رہے تھے کے ساتھ بجری کے نے والے کو بھی کیا کہ نہیں ا جون کو دیا ہے کی گئی سالہ ا پر ایک گیا ہے کے لیے کے بعد والے ا کی جان کال کی کے ایک
پڑھیں:
سوات: مدرسے کے طلبہ کی وین الٹ گئی، 11 زخمی
دیر(اوصاف نیوز)سوات میں مدرسے کے طلبہ کی وین حادثے کا شکار ہوگئی۔
ریسکیو ذرائع کے مطابق سوات میں بحرین کے علاقے کیدام میں منی وین کو حادثہ پیش آیا۔
ریسکیو ذرائع کا بتانا ہےکہ کیدام میں تیز رفتار وین الٹ گئی جس میں مدرسے کے طلبہ سوار تھے، حادثے کے نتیجے میں 11 طلبہ زخمی ہوگئے۔
ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ طلبہ بٹ خیلہ سے چھٹی پر اپنے گھر کالام جارہے تھے۔ابتدائی معلومات کے مطابق تمام زخمی طلباء بٹ خیلہ سے چھٹی پر کالام اپنے گھر جا رہے تھے کہ راستے حادثہ پیش آگیا۔
برکس سربراہی اجلاس: بھارت کو ایک اور سفارتی دھچکا،پہلگام واقعہ میں پاکستان کا نام شامل نہ کرسکا