جولائی اور اگست میں تعطیلات کا شیڈول جاری
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جولائی اور اگست کے دوران تعطیلات کا شیڈول جاری کردیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں جولائی اور اگست میں تعطیلات کا شیڈول جاری کردیا گیا۔
آفس آرڈر میں کہا گیا کہ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر 2ماہ تعطیلات کے دوران چھٹی نہیں کریں گے جبکہ جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابرستار کی جولائی میں چھٹی ہوگی ، وہ اگست میں کیسز سنیں گے۔
آفس آرڈر میں کہنا ہے کہ جسٹس خادم حسین ، جسٹس اعظم خان اور جسٹس ارباب طاہر اگست میں چھٹی پرہوں گے ،جولائی میں دستیاب ہوں گے۔
آفس آرڈر کے مطابق جسٹس اعجاز اسحاق 21 جولائی سے30اگست تک چھٹی پر ہوں گے اور یکم سے 20 جولائی دستیاب ہوں گے۔
اس کے علاوہ جسٹس انعام امین منہاس 20 جولائی سے 20 اگست تک اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز14 سے 18جولائی پھر 4 سے 22 اگست چھٹی پر ہوں گی۔
جسٹس محسن کیانی اور جسٹس محمد آصف کی چھٹیوں کے شیڈول کا انتظار ہے۔
آرڈر میں کہا گیا کہ ہائیکورٹ میں ضمانت کے کیسز ، حبس بے جامیں رکھنےاور کورٹ کے فکس کیسز چھٹیوں میں سنے جائیں گے۔
اسٹے آرڈر سے متعلقہ ودیگر ارجنٹ کیسز مقرر ہوسکیں گے اور دائری برانچ کیسز فائلنگ کے لیے کھلی رہے گی۔
Post Views: 8.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سپریم کورٹ ججز تبادلہ کیس: جسٹس نعیم اختر افغان کا 40 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری
سپریم کورٹ میں ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اختلافی نوٹ جاری کر دیا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان کا تحریر کردہ اختلافی نوٹ 40 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں ججز کی مستقل منتقلی کو آئین کے آرٹیکل 200 کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت ٹرانسفر صرف عارضی ہو سکتا ہے، مستقل نہیں۔
صدر پاکستان نے ججز کے ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن بغیر شفاف معیار اور بامعنی مشاورت کے جاری کیا، جو غیر آئینی، بدنیتی پر مبنی اور غیر ضروری جلدی میں کیا گیا عمل تھا۔
جسٹس نعیم اختر افغان کے مطابق صدر کا یہ نوٹیفکیشن بے اثر ہے اور قانوناً اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ججز کا تبادلہ عدالتی آزادی اور تقرری کے آئینی طریقہ کار کے منافی ہے۔
اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی عدالتی امور میں مداخلت کے الزامات لگائے گئے تھے۔
خط میں دباؤ، بلیک میلنگ، غیر قانونی نگرانی اور سیاسی مقدمات میں فیصلے انجینئر کرنے کی کوششوں کا ذکر تھا۔
نوٹ میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ بھی ججز نے اپنے خط میں اٹھایا تھا اور چیف جسٹس سے عدالتی کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اختلافی نوٹ کے مطابق ججز کے اسی خط کے بعد حکومت نے جلد بازی میں ان کی مستقل منتقلی کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد اسلام آباد ہائیکورٹ کی آزادی کو متاثر کرنا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اختلافی نوٹ ججز تبادلہ کیس جسٹس نعیم اختر افغان سپریم کورٹ