طیب سیف :بانی تحریک انصاف کی ہدایت پرپی ٹی آئی کے احتجاج کا پلان فائنل کر لیا۔
ذرائع کے مطابق حتمی پلان چاروں صوبوں ، کشمیر اور گلگت بلتستان کے صدور کی سفارشات کے بعد مرتب کیا گیاہے،پی ٹی آئی نے اسلام آباد کی بجائے ہر صوبائی حلقے میں احتجاج کا فیصلہ  کیاہے۔
ذرائع کے مطابق احتجاج ایم پی اے لیڈ کرے گا جبکہ مقامی قیادت اور ایم این اے اسے سپورٹ کرے گا ۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے بھی حتمی پلان کی منظوری دے دی ہے،سیاسی کمیٹی نے تمام تر قیادت اور ایم پی ایز کو مقامی سطح پر متحرک ہونے کی ہدایت کی ہے۔

بھارت پاکستان میں دہشتگردکارروائیوں کی حمایت اور مالی معاونت کررہا ہے: ڈی جی آئی ایس پی آر  

ذرائع کے مطابق پیٹرن انچیف کی ہدایت کے مطابق پانچ اگست تک بھر پور تیاریاں کی جائیں  گی اورپانچ اگست کو بانی تحریک انصاف کا حکم ملتے ہی بھر پور احتجاج ریکارڈ کروایا جائے گا۔
 

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: ذرائع کے مطابق کی ہدایت

پڑھیں:

کراچی کی زبوں حالی پر تحریک انصاف کا اطمینان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دو سال پہلے کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے پانچ ماہ بعد میئر کا انتخاب کا مرحلہ مکمل ہوا تھا۔ میئر کے انتخاب میں اتنی دیر کی وجہ خرید و فروخت کا سلسلہ تھا جو پانچ ماہ میں صدر زرداری کی ذاتی دلچسپی سے مکمل ہوا۔ اب پچھلے ماہ پیپلز پارٹی کے انتخاب کو دو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ اُس وقت کے نمبرز کو دیکھا جائے تو مخصوص نشستوں کو ملا کر سٹی کونسل میں پیپلز پارٹی کے ایک سو پچپن 155، جماعت اسلامی 130 ارکان تھے جبکہ پی ٹی آئی کے باسٹھ 62، مسلم لیگ کے چودہ 14، جے یو آئی کے چار اور تحریک لبیک کے ایک رکن موجود تھے۔
میئر کے انتخاب کے لیے پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کی حمایت حاصل تھی۔ جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کی حمایت حاصل تھی۔ اس حمایت کے بعد پیپلز پارٹی کے اتحادی ارکان کی تعداد ایک سو تہتر 173 جبکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد ایک سو بانوے 192 تھی۔ لیکن ڈرامائی انداز میں انتخاب کا مرحلہ پیپلز پارٹی کے حق میں رہا کیونکہ تحریک انصاف کے تیس اراکین نے ایک فارورڈ گروپ بنانے کا اعلان کرکے انتخاب کے دن غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ پیپلز پارٹی کی سیاست میں تجارتی طاقت کا اظہار تھا۔ لہٰذا پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب کراچی کے میئر منتخب ہوگئے۔ میئر کے انتخاب میں پانچ ماہ کی تاخیر پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے لیے سوالیہ نشان تھی جس کا جواب یہی ہوسکتا تھا کہ آخر خریدو فروخت کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔
آج دو سال بعد کراچی کی حالت مزید ابتر ہوگئی ہے۔ عشروں سے صوبہ سندھ پر پھر پیپلز پارٹی حکمرانی کررہی ہے۔ ان کا میئر بھی آگیا تھا، کچھ لوگوں کا خیال تھا اب کراچی کی حالت کچھ تو بہتر ہوجائے گی کہ سارے اختیارات کا محور ایک واحد پارٹی ہے لیکن ہوا یہ کہ کراچی کی حالت اور نازک ہوگئی۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور معاشی شہہ رگ ہے لیکن اس کا حال یہ ہے کہ سڑکیں کھنڈرات میں بدل چکی ہیں۔ سیوریج کا نظام تباہ حال ہے۔ کراچی کا پرانا علاقہ جو تجارتی مرکز بھی ہے تھوڑی سی بارش بھی برداشت نہیں کرسکتا، سڑکوں پر کھڑا پانی ہفتوں موجود رہتا ہے، شہری پانی کے لیے پریشان حال رہتے ہیں، ٹینکر مافیا ایسے مسلط ہے کہ نلوں میں پانی کے بجائے ہوا آتی ہے لیکن ٹینکر پورے شہر کو من مانے ریٹ پر پانی دیتے ہیں۔ کراچی کے شہری پوچھتے ہیں کہ نلوں میں پانی کیوں نہیں آتا جبکہ ہائیڈرنٹ پر ہر وقت ٹینکر پانی بھرتے رہتے ہیں اور شہریوں کو قیمت بڑھا بڑھا کر فروخت کرتے ہیں۔ وفاق صوبے اور بلدیات میں حکومتی مزے اُڑانے میں مصروف پیپلز پارٹی کو کراچی کے عوام کے مسائل سے دلچسپی نہیں، اگر دلچسپی ہے تو اس کو ملنے والے فنڈز کی بندر بانٹ سے۔ بجٹ کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو کراچی کا کے فور منصوبہ عشروں سے فنڈز کی کمی کے باعث وہیں کا وہیں ہے۔ دوسری طرف جماعت اسلامی کے نو ٹائونز کے ناظم بلدیاتی نمائندے اپنے اختیارات سے بڑھ کر کام کررہے ہیں امانت و دیانت سے فنڈز کا استعمال ایسے کررہے ہیں کہ نظر آرہا ہے۔ پیپلز پارٹی کو سندھ بخشنا اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ تھا جو پچھلے انتخابات میں سندھ کے ہر شہر میں واضح نظر آیا۔ کراچی میں تو اس طرح پیپلز پارٹی جھرلو نہ پھیر سکی لہٰذا اسٹیبلشمنٹ نے آگے آکر کاندھا فراہم کیا اور خریدو فروخت کے لیے پانچ ماہ دیے، یوں بلدیاتی انتخابات کے پانچ ماہ بعد پیپلز پارٹی کا میئر منتخب کیا جاسکا۔ کراچی کی محرومی کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا رویہ بھی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ وہ کراچی کو کھنڈر میں بدلتا دیکھتے ہیں پھر بھی اسی طرح پیپلز پارٹی کو جوڑ توڑ کی اجازت دیتے ہیں۔ انتخابات کو شفاف طریقے سے کرانے کے لیے فوج اور رینجرز کو اختیارات نہیں دیتے۔ آخر کراچی میں مخلص اور دیانت دار نمائندوں کو لانا پورے ملک کے مفاد میں ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ بے ایمان اور کرپٹ جماعت کے انتخابات میں اچھی طرح بے ایمانی کے بعد کامیابی حاصل کرنے کو ٹھنڈے ہی نہیں میٹھے انداز میں قبول کرتی ہے تو واضح ہوجاتا ہے کہ یہ سب اس کی مرضی اور منشا کے عین مطابق ہے۔ کراچی کے لیے ایک اور کوشش کے طور پر جماعت اسلامی نے بلدیات میں تحریک عدم اعتماد کے لیے تحریک انصاف سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے پیپلز پارٹی کی حمایت کی، یوں کراچی کی موجودہ زبوں حالی پر اطمینان کا اظہار کیا۔

متعلقہ مضامین

  • صدر مملکت کا پنجاب میں جوڑ توڑ کا پلان تیار، بڑے نام پی پی میں شمولیت کا امکان
  • اب مذاکرات نہیں سڑکوں پردما دم مست قلندر ہوگا،عمران خان
  • عمران خان کا جیل سے احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے کا اعلان
  • بیرسٹر گوہر کی عمران خان سے ملاقات، احتجاج میں عدم شرکت پر لوگوں کو پارٹی سے نہ نکالنے کی درخواست
  • محرم گزر گیا، اب پارٹی لائحہ عمل دے گی، بانی نے پلان بنایا ہوا ہے، علیمہ خان
  • زرعی پیداوار بڑھانے، کسانوں کو سہولیات اور موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کا جامع اصلاحاتی پلان طلب
  • کراچی، تحریک انصاف سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ پریس کانفرنس کررہے ہیں
  • کراچی کی زبوں حالی پر تحریک انصاف کا اطمینان
  • کراچی میں انتہائی خطرناک عمارتیں گرائی جائیں گی، ابتدائی پلان تیار