پاکستان کی معاشی ترقی کی موجودہ رفتار غربت میں کمی کیلیے ناکافی ہے، عالمی بینک
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
اسلام آباد:عالمی بینک نے پاکستان کی معاشی ترقی کی موجودہ رفتار کو غربت میں کمی کے لیے ناکافی قرار دے دیا ہے۔
رواں سال پاکستان میں غربت کی شرح 21.5 فیصد اور معاشی شرح نمو 3 فیصد رہنے کا امکان ہے جبکہ اگلے سال معاشی ترقی بڑھ کر 3.4 فیصد تک جانے کا امکان ہے۔
تفصیلات کے مطابق عالمی بینک نے پاکستان سے متعلق رپورٹ جاری کر دی ہے۔
رپورٹ میں عالمی بینک نے معاشی ترقی کی موجودہ رفتار کو غربت میں کمی کے لیے ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر سال 16 لاکھ نوجوان روزگار کے لیے مارکیٹ میں آرہے ہیں۔
اس سال پاکستان میں غربت کی شرح 21.
عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں رواں مالی سال مہنگائی 7.2 فیصد رہنے کا امکان ہے جبکہ اگلے سال پاکستان میں مہنگائی کم ہوکر 6.8 فیصد تک رہنے کا تخمینہ ہے۔
عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کے مختلف شعبوں میں جامع اصلاحات پر زور دیا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: عالمی بینک نے پاکستان میں کا امکان ہے رہنے کا کے لیے
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات میں نرمی؟ افغان علما کا بیان ’حوصلہ افزا مگر ناکافی‘
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ سفارتی کشیدگی کے بعد کابل میں افغان علما و مشائخ کے بڑے اجتماع سے جاری ہونے والا بیان دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک مثبت اشارہ قرار دیا جا رہا ہے، تاہم ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت ابھی زبانی یقین دہانی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔
وی نیوز ایکسکلوسیومیں گفتگو کرتے ہوئے انڈیپنڈنٹ اردو کے منیجنگ ایڈیٹر اور سینیئر صحافی ہارون رشید کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 سے 3 ماہ میں تعلقات میں جو تناؤ بڑھا تھا، اس کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی مثبت بات سامنے آئی ہے۔
’افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی‘ہارون رشید کا کہنا تھا کہ کابل میں ایک ہزار سے زائد افغان علما کے اجلاس میں یہ مؤقف سامنے آیا کہ افغانستان کی سرزمین نہ پاکستان اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے دی جائے گی، اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے بھی اپنے خطاب میں اسی مؤقف کو دہرایا-
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اس بیان کا خیرمقدم کیا ہے، تاہم ساتھ ہی تحریری ضمانت کا مطالبہ بھی دہرایا ہے۔
’زبانی یقین دہانیاں طالبان کئی سال سے دے رہے ہیں، لیکن ریاستوں کے تعلقات میں اصل اہمیت تحریری معاہدوں کی ہوتی ہے۔‘
’تحریری ضمانت طالبان کے لیے مشکل‘تجزیہ کاروں کے مطابق افغان طالبان کے لیے تحریری یقین دہانی دینا اس لیے مشکل ہے کہ اس سے ان کی اپنی صفوں میں تقسیم پیدا ہوسکتی ہے۔
ہارون رشید کا کہنا تھا کہ اگر طالبان تحریری طور پر ضمانت دیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے، تو ان کی اپنی صفوں سے اس پر شدید ردِعمل آسکتا ہے۔
ان کے مطابق طالبان کا کچھ حصہ نظریاتی طور پر پاکستانی طالبان کے قریب سمجھا جاتا ہے، اور ایسی کارروائیاں اندرونی اختلافات کو ہوا دے سکتی ہیں۔
’افغان علما کا اجلاس اہم، مگر فیصلہ کن نہیں‘افغانستان میں مذہبی طبقے کا اثر پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، اور اس سطح کے اجلاس کو اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم ہارون رشید سمجھتے ہیں کہ یہ اجلاس دراصل اندرونی مشاورت تھا، جس کی قراردادیں منظرِ عام پر نہیں آنا تھیں لیکن خبر لیک ہونے کے بعد اسے سیاسی رنگ مل گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ علما کی حمایت طالبان حکومت کے لیے دباؤ ضرور پیدا کرتی ہے، مگر حتمی فیصلے طالبان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ہی کرنا ہوتے ہیں۔
ماضی میں بھی یقین دہانیاں، مگر عملدرآمد نداردہارون رشید کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان ماضی میں بھی کئی بار ایسی یقین دہانیاں دی گئیں، مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے باعث اعتماد کا فقدان بڑھتا چلا گیا۔
انہوں نے سابق پاکستانی سفارتکار آصف درانی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 2 افغان وزرا نے انہیں آن ریکارڈ کہا تھا کہ طالبان سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہ کرنے کا حکم دیا تھا، تاہم اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔
’سرحدی کشیدگی دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں‘ہارون رشید کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں اس وقت معاشی دباؤ کا شکار ہیں، اور سرحدی کشیدگی سے نہ صرف تجارت بلکہ خطے کی مجموعی استحکام متاثر ہو رہا ہے۔
’اسٹیٹس کو زیادہ دیر چل نہیں سکتا، تجارت، روزگار اور علاقائی رابطے پر اس کے اثرات ہیں، اس لیے فریقین پر دباؤ تھا کہ کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان ٹی ٹی پی طالبان علما و مشائخ ہارون رشید