اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 جولائی 2025ء) میڈیکل سائنس رضامندی کے بغیر جنسی عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی ہے۔یہ عمل انسانی نفسیات، رویوں اور اعتماد پر تباہ کن اثرات چھوڑتا ہے۔اس زور زبردستی کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ آپ کا بسا بسایا گھر اجڑ جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کسی اور کے ساتھ گھر بسا لیں یا کسی کے بھی ساتھ جنسی تعلق رکھنے سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لیں۔
جنسی عمل میں زبردستی اور تشدد کے عمل سے آپ کے شخصی اعتماد، کام کرنے کی صلاحیت،معاشرتی میل جول اور گھریلو ماحول پر خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔آپ نفسیاتی،جذباتی اور معاشرتی طور پر تنہا محسوس کرتے ہیں۔جسمانی صحت گرنے لگتی ہے اور زندگی خوشی کی نسبت بوجھ لگنا شروع ہو جاتی ہے۔
(جاری ہے)
پاکستان میں خواتین کی اکثریت میں یہ تمام اثرات بیماری کی حد تک ملیں گے۔
زیادہ تر عورتیں شادی کے بعد صرف رازدار خواتین کے ساتھ ہی اپنے مردوں کی طرف سے جنسی تشدد کی شکایت کرتی ہیں مگر معاشرتی دباؤ کی وجہ سے نہ تو کھلے عام اظہار کر پاتی ہیں اور نہ ہی کوئی قانونی کارروائی۔پاکستان میں جنسی تشدد کی چار نمایاں اقسام ہیں۔ پہلی قسم پارٹنر آپ کی نفسیاتی اور جسمانی صحت کا خیال رکھے بغیر آپ کے ساتھ جنسی عمل پر مائل ہوتا ہے۔
دوسری قسم یہ کہ مرد خود کو عورت سے زیادہ طاقتور ثابت کرنے کے لیے بھی جنسی عمل کے دوران غیر ضروری تشدد کا سہارا لیتے ہیں۔تیسری قسم میں سامنے والے کے ردعمل اور تاثرات کا خیال رکھے بغیر لذت کے لیے جسمانی اذیت دی جاتی ہے۔چوتھی قسم میں زیادہ محبت کا احساس دلانے کے لیے بھی طرح طرح کے متشدد طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ہم ان کا باری باری جائزہ لیتے ہیں۔
عورتوں کے ساتھ بہت سے جسمانی اور نفسیاتی مسائل جڑے ہوتے ہیں۔ان تمام مسائل کا خیال ذمہ دار پارٹنرز کی طرح مردوں کو رکھنا چاہیے۔پاکستانی معاشرے میں عورتوں کی اکثریت مردوں سے زیادہ کام کرتی ہے۔ ان کے کام کرنے کے اوقات بھی متعین نہیں ہیں اور نہ ہی معاوضہ دیا جاتا ہے۔گھریلو عورت ہو یا ورکنگ وومن دونوں ہی سولہ سے بیس گھنٹے کام کرتی ہیں۔
گھر کی دیکھ بھال، صفائی ستھرائی، بچوں کا خیال، شوہر اور اس سے جڑے لوگوں کی خاطرداری، ایسے بہت سے کام ہیں، جو عورت کو ہمہ وقت مصروف رکھتے ہیں۔اب ایسے میں جسمانی صحت بہت جلد خراب ہونے لگتی ہے۔ورزش اور سیلف کیئر کے لیے وقت نہیں ملتا۔ایسے سب جسمانی کاموں کے دوران، رشتہ داروں کے مسائل، شوہر کی بے اعتنائی، بچوں کا بگاڑ اور مالی پریشانیوں جیسے نفسیاتی مسائل بھی ہیں جو عورت کی جوانی اور صحت کو وقت سے پہلے کھا جاتے ہیں۔
مگر المیہ یہ ہے کہ ان تمام مسائل کے باوجود شوہر کو بیوی بستر پر مکمل چاہیے اور جب اس کا دل کرے تب چاہیے۔ بہت کم مرد ازدواجی تعلقات سے قبل عورت کی جسمانی صحت کا خیال رکھتے ہیں۔زیادہ تر تو اس چیز کو قابل غور ہی نہیں سمجھتے۔دوسری قسم کی بات کریں تو پاکستانی معاشرے میں مردوں کو طاقت کے تصور کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ بچپن سے ہی ان کے اذہان میں یہ ڈالا جاتا ہے کہ مرد عورتوں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔
اب اس طاقت کے اظہار کا بہترین ذریعہ کمزور عورت ہے۔آس پاس ماں اور بہنوں کو بھی وہ جوان ہوتے لڑکے مردوں کی طاقت سے مرعوب دیکھتے ہیں تو ان کے اعتماد میں اِضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی مردانہ طاقت کا اظہار وہ اپنی پارٹنر کے ساتھ بستر پر بھی کرتے ہیں۔ جنسی عمل جیسی لطیف اور دوطرفہ لذت بھری سرگرمی کو یکطرفہ طاقت دکھانے کا اکھاڑا بنا دیا جاتا ہے۔ جہاں ایک کمزور پہلوان پہلے سے ہی خوف کھائے بیٹھا ہوتا ہے۔اسی وجہ سے شادی شدہ خواتین کی اکثریت سیکس سے دور بھاگتی نظر آتی ہے۔تیسری قسم پاکستانی مردوں کی پورن ویب سائٹس تک رسائی کی وجہ سے سامنے آتی ہے۔وہ ان فلموں میں دکھائے گئے مناظر کو حقیقی زندگی میں آزمانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کہ عورتیں جنسی لذت کے ان طریقوں سے عدم واقفیت کی وجہ سے تیار نہیں ہو پاتی ہیں۔
یہاں بستر پر ایک جنگ کا سا ماحول بن جاتا ہے۔مرد غیرفطری طریقوں سے لذت کے خواہش مند ہوتے ہیں اور عورتیں مزاحمت کرتی ہیں۔جس سے دونوں کے درمیان ایک خاموش دوری بڑھتی چلی جاتی ہے۔تشدد کی چوتھی قسم "محبت" کے بے جا اور ضرورت سے زیادہ اظہار کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ہنسی مذاق میں جسمانی تشدد، چھیڑچھاڑ کرتے ہوئے ہاتھا پائی، ہاتھ بازو مروڑنا اور طاقت کا مظاہرہ کرنا، ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو عورتوں کو ہولے ہولے اس بات پر مائل کر دیتی ہیں کہ وہ مردوں سے بچ کے رہیں۔
ایسے ماحول میں خواتین اپنی نفیس اور لطیف محبت کا اظہار بھی نہیں کر پاتی ہیں۔تشدد کی ان مختلف اقسام کی وجہ سے دو انسانوں کا باہمی تعلق جسے بہت خوشگوار اور خوبصورت ہونا چاہیے، زخمی ہو جاتا ہے۔ وہ دونوں جنسی عمل کی لذت نہیں اٹھا پاتے اور نہ ہی ایک دوجے کے ساتھ پراعتماد زندگی گزار پاتے ہیں۔
بستر کی زندگی آپ کی عائلی زندگی کا عکس ہوتی ہے۔
یا یوں کہہ لیجئے کہ روزمرہ زندگی بستر کی زندگی کے زاویے طے کرتی ہے۔ دونوں میں لطف اور پائیداری لانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنے ساتھی کی رضامندی اور اس کی جسمانی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ خاص طور پر مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورتوں کا خیال رکھیں کیوں کہ ہم عورتیں سیکس سے جڑے اپنے جذبات اور احساسات کا بہت کم اظہار کرتی ہیں۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی وجہ سے سے زیادہ مردوں کی کرتی ہیں کا خیال جاتا ہے تشدد کی کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
بھارتی کرکٹر کیخلاف خاتون کے جنسی استحصال کی ایف آئی آر درج
بھارتی کرکٹ ٹیم کے ابھرتے ہوئے فاسٹ بولر یاس دیال قانونی مشکلات میں پھنس گئے ہیں۔
غازی آباد سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی جانب سے شادی کا جھانسہ دے کر جنسی، جذباتی اور جسمانی استحصال کے الزامات کے بعد یاس دیال کے خلاف بھارتی نیا سنہیتا (BNS) کی دفعہ 69 کے تحت ایف آئی آر درج کرلی گئی۔
27 سالہ لیفٹ آرم پیسر پر الزام لگانے والی خاتون نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ گزشتہ پانچ سال سے یاس دیال کے ساتھ تعلق میں تھیں اور اس دوران کرکٹر نے شادی کے جھوٹے وعدے کے تحت ان کا استحصال کیا۔
خاتون نے 21 جون کو آن لائن پورٹل کے ذریعے براہ راست وزیر اعلیٰ اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ کو درخواست دی تھی جس کے بعد ابتدائی تحقیقات کے بعد رسمی ایف آئی آر درج کی گئی۔
شکایت میں خاتون نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ یاس دیال ایک ہی وقت میں متعدد خواتین سے تعلقات رکھے ہوئے تھے اور انہوں نے نہ صرف بارہا جسمانی تعلق قائم کیا بلکہ اپنی فیملی سے بھی ملوایا، جنہوں نے خاتون کو یقین دلایا کہ وہ جلد ہی ان کی "بہو" بنے گی۔
غازی آباد پولیس کے مطابق خاتون نے کچھ الیکٹرانک شواہد بھی جمع کروائے ہیں، جن کا فرانزک تجزیہ جاری ہے، تاہم ابھی ان کا دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے باضابطہ بیان ریکارڈ ہونا باقی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تک متاثرہ خاتون کا بیان ریکارڈ نہیں ہوتا یاس دیال کے خلاف فوری گرفتاری یا سخت قانونی اقدام کا امکان نہیں ہے۔
یاد رہے کہ یاس دیال نے انڈین پریمیئر لیگ (IPL) میں اپنی رفتار اور کارکردگی سے نمایاں توجہ حاصل کی تھی اور وہ بھارتی ٹیم کے ممکنہ کھلاڑیوں میں شمار ہوتے ہیں۔