موجودہ حکومت نے ایک سال قبل جب اقتدار سنبھالا تو اس وقت پاکستان کے سری لنکا بننے یعنی دیوالیہ ہونے کی بات بڑے تواتر سے کی جا رہی تھی اور ماہرین معیشت بھی پاکستان کی معیشت بارے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے غیر یقینی صورتحال قرار دے رہے تھے۔ لیکن پھر سب نے دیکھا کہ ایک سال کی قلیل مدت میں حکومت نے لڑکھڑاتی معیشت کو سنبھالا دے کر مستحکم کر دیا۔
اب معاشی ترقی کا مرحلہ درپیش ہے معاشی ترقی میں بھی پاکستانی معیشت کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں ان رکاوٹوں کو ہموار کر کے ملکی معیشت کو ترقی کی شاہراہ پر حکومت کیسے آگے لے جاتی ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس حکومت پر اب یہ اعتماد کرنا پڑے گا کہ مشکلات کے باوجود جلد یا بدیر ترقی کا سنگ میل بھی عبور کیا جا سکتا ہے۔ ہماری معیشت کو کن چیلنجز کا سامنا ہے ایک جائزہ پیش خدمت ہے۔
غیر دستاویزی معیشتپاکستان میں بہت سے کاروبار ٹیکسز اور قانونی ضوابط سے بچنے کے لیے غیر دستاویزی معیشت کا حصہ ہیں جس سے ایسے کاروباروں کی مصنوعات کی لاگت ٹیکس اور ادارہ جاتی واجبات ادا نا کرنے سے کم ہو جاتی ہے۔
دراصل یہ انفرادی کاروبار کے لئے بھی قلیل مدتی فائدہ ہوتا ہے اور مجموعی قومی معیشت پر اس کے اثرات منفی ہوتے ہیں لیکن ایسا کرنے والوں کو اس کا ادراک نہیں ہوتا، ایسے غیر دستاویزی کاروباروں سے حکومت کو ٹیکس آمدنی میں نمایاں کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے تعلیم، صحت، اور بنیادی ڈھانچے جیسے ضروری شعبہ جات کے لیے فنڈز محدود ہو جاتے ہیں اور حکومت کے لئے اقتصادی منصوبہ بندی مشکل ہو جاتی ہے۔
کیونکہ کاروباری سرگرمیوں کا ایک بڑا حصہ رپورٹ نہیں ہوتا، قانونی طور پر رجسٹرڈ کاروبار غیر منصفانہ کاروباری مقابلے کا سامنا کرتے ہیں، کیونکہ غیر رجسٹرڈ کاروباروں کے پاس ٹیکس بچا کر کم قیمتوں پر اشیا فروخت کرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔
غیر دستاویزی معیشت میں کام کرنے والے لوگ قانونی تحفظ سے محروم رہتے ہیں اور اس سے ان کا معاشی استحصال ہوتا ہے، غیر دستاویزی معیشت میں غیر ملکی سرمایہ کار سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں جس سے اقتصادی ترقی کی رفتار کم ہو جاتی ہے، غیر دستاویزی معیشت بدعنوانی، رشوت، اور غیر قانونی تجارت کو فروغ دیتی ہے، غیر دستاویزی کاروبار بینکوں کے ذریعے لین دین نہیں کرتے جس سے مالیاتی شعبے پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور چھوٹے کاروباروں کے لیے قرضوں کی فراہمی مشکل ہو جاتی ہے، غیر دستاویزی معیشت قومی ترقی کی رفتار سست کر دیتی ہے اور طویل مدتی اقتصادی عدم استحکام کا باعث ہوتی ہے۔
خسارے میں چلنے والے حکومتی ادارےخسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے (SOEs) پاکستان کی معیشت کو کمزور کر رہے ہیں۔ پی آئی اے، پاکستان ریلوے، اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں جیسے دیگر ادارے ناقص انتظام اور غیر مؤثر کارکردگی کی وجہ سے بھاری خسارے کا شکار ہیں۔
حکومت انہیں چلانے کے لیے اربوں روپے خرچ کرتی ہے جس سے قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے اور تعلیم، صحت اور ترقی کے لیے فنڈز کم ہو جاتے ہیں ایسے خساروں کی اربوں روپے میں ادائیگی سے معاشی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کر کے ان کے مالی بوجھ سے گلو خلاصی کرنے کے ساتھ انتظامی بہتری کے اقدامات کرتے ہوئے غیر ضروری اخراجات کم کرنے چاہیں۔
اگر یہ خسارے قابو میں آ جائیں تو معیشت مستحکم ہوگی اور ترقی کی رفتار بہتر ہوگی، سرکاری اداروں میں اصلاحات ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کے لیے ناگزیر ہیں۔
گردشی قرضےپاکستان کے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ معیشت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بجلی فراہم کرنے والی تقسیم کار کمپنیاں صارفین سے مکمل ادائیگی وصول نہیں کر پاتیں اور بجلی کی تقسیم کے نظام میں ترسیلی نقائص کی بابت بجلی ضائع ہو جاتی ہے۔
جس کے نتیجے میں ایندھن فراہم کرنے والوں اور بجلی پیدا کرنے والوں کے واجبات ادا نہیں کیے جا سکتے، یہ قرضہ مسلسل بڑھتا رہتا ہے جس سے بار بار بجلی کی قلت اور مالی نقصانات ہوتے ہیں۔
حکومت کو بجلی کی کمپنیوں کو مالی امداد فراہم کرنی پڑتی ہے جس سے مالیاتی خسارہ بڑھ جاتا ہے، بجلی کے زیادہ نرخ اور انتظامی نااہلیاں اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔
اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو بلوں کی وصولی بہتر بنانا ہوگی بجلی کی چوری کم کرنا ہوگی قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی اور قیمتوں کی پالیسی میں اصلاحات لانا ہوں گی۔ گردشی قرضے کے مسئلے کا مستقل حل اقتصادی استحکام کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
تجارتی خسارہپاکستان کا تجارتی خسارہ اس کے جاری کھاتے کے خسارے کی ایک بڑی وجہ ہے ملکی درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہیں جس سے زرمبادلہ میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے، ڈالر کی طلب بڑھتی ہے اور پاکستانی روپے کی قدر کم ہوتی ہے۔
اس تجارتی خسارے سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ پڑتا ہے اس خلا کو پُر کرنے کے لیے، پاکستان قرض لینے پر انحصار کرتا ہے جس سے اس کے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے، زیادہ درآمدات اور کم برآمدات معاشی صورت حال پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے، پاکستان کو برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا، مقامی صنعتوں کو فروغ دینا ہوگا، غیر ضروری درآمدات میں کمی لانا ہوگی مصنوعات سازی کے شعبے کو مقامی وسائل کے استعمال سے مضبوط کرنا اور ان کی فروخت کے لئے نئے عالمی بازاروں کی تلاش معیشت کو مستحکم کرنے اور خسارے کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔
درآمدات پر منحصر پیداوار اور برآمداتپاکستان کی معیشت کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ برآمدات کا انحصار بڑی حد تک درآمد شدہ خام مال اور مشینری پر ہے، جس سے 4 فیصد سے زیادہ اقتصادی ترقی حاصل کرنا مسائل کا باعث بنتی ہے، جب عالمی منڈی میں اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھتی ہیں یا روپے کی قدر کم ہوتی ہے تو پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔
جس سے برآمدی مسابقت کم ہو جاتی ہے، درآمدات پر یہ انحصار تجارتی خسارے کو بھی بڑھاتا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ ڈالتا ہے، اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے پاکستان کو مقامی صنعتوں کی ترقی، ملکی سطح پر خام مال کی پیداوار میں سرمایہ کاری، اور ویلیو ایڈڈ برآمدات کی حوصلہ افزائی کرنس چاہیے۔
درآمد شدہ خام مال پر انحصار کم کرنے سے معیشت مستحکم ہوگی تجارتی توازن بہتر ہوگا اور 4 فیصد سے زیادہ طویل مدتی پائیدار ترقی ممکن ہو گی اس مسئلے کا حل ایک مضبوط صنعتی حکمت عملی میں مضمر ہے۔
محصولات وصولی نظام کی خامیاںپاکستان کے ٹیکس وصولی نظام کی خامیوں کے اثرات معاشی استحکام کو متاثر کر رہے ہیں، ٹیکس کا بوجھ چند مخصوص شعبوں مثلاً تنخواہ دار طبقے اور بڑی صنعتوں پر پڑتا ہے جبکہ کئی شعبے بشمول زراعت، ریٹیل سیکٹر، رئیل اسٹیٹ کا شعبہ ایک حد تک ٹیکس سے مستثنیٰ نظر آتے ہیں۔
اس مخصوص ٹیکسیشن سے حکومتی اخراجات کے مقابل آمدن کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے حکومت کو قرض لے کر اخراجات پورے کرنے پڑتے ہیں جو ملکی قرضوں میں اضافے کا سبب ہیں کمزور ٹیکس نظام بنیادی ڈھانچے، صحت اور تعلیم پر اخراجات محدود کر دیتا ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا ہوگی، تمام شعبوں میں منصفانہ ٹیکسیشن کو یقینی بنانا ہوگا اور ٹیکس چوری کا خاتمہ یقینی بنانا ہوگا، ایک مضبوط اور متوازن ٹیکس نظام معاشی ترقی اور مالی استحکام کے لیے حد درجہ اہمیت اور توجہ کا حامل ہے۔
بڑھتی ہوئی تیز رفتار آبادیپاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی معیشت پر بے حد دباؤ کی ایک بڑی وجہ ہے، محدود وسائل کے ساتھ حکومت کو روزگار، صحت کی سہولیات، تعلیم اور رہائش کی فراہمی میں دشواری پیش آتی ہے۔
زیادہ آبادی کی شرح سے خوراک، توانائی اور بنیادی ڈھانچے کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے ملکی مالیات پر دباؤ بڑھتا بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ روزگار کے مواقع بڑھتی ہوئی افرادی قوت سے مطابقت نہیں رکھ سکتی۔
اس کے علاوہ، زیادہ آبادی شہری بھیڑ، ماحولیاتی انحطاط اور رہائش کی بلند قیمتوں کا باعث بنتی ہے، اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو خاندانی منصوبہ بندی کو بھرپور توجہ دیناہوگی، عوامی شعور میں اضافے کے لئے تعلیمی معیار کو بہتر بنانا ہوگا اور مزید معاشی مواقع پیدا کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے، آبادی کی شرح پر مؤثر طریقے سے قابو پانا پائیدار ترقی اور طویل مدتی اقتصادی استحکام کے لیے لازم ہے۔
قرضوں کا بوجھقرضوں کا بوجھ پاکستان کی معیشت پر سنگین دباؤ ہے، ہر سال حکومت کو ان قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے لیے بڑی رقم ادا کرنا پڑتی ہے جس سے ترقی، تعلیم اور صحت کے لیے کم رقم دستیاب ہوتی ہے، اس سے ملک کا مالی خسارہ بڑھتا ہے۔
کرنسی کمزور ہوتی ہے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے حکومت ٹیکس بڑھانے کے ساتھ مزید قرض لیتی ہے، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار کم ہوتی ہے اور پاکستان آئی ایم ایف اور دیگر قرض دہندگان پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے ملک کو برآمدات بڑھانے، صنعتوں کو فروغ دینے، ٹیکس وصولی کو بہتر بنانے اور غیر ضروری اخراجات کم کرنے پر توجہ دینا ہوگی، مستحکم مستقبل کے لیے ایک مضبوط معاشی حکمت عملی وقت کی ضرورت ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اس مسئلے کے حل کے لیے غیر دستاویزی معیشت کے لیے پاکستان کو پاکستان کی معیشت ترقی کی رفتار پاکستان کے کم ہوتی ہے ہو جاتی ہے ایک مضبوط معیشت کو حکومت کو ہے جس سے کے ساتھ بجلی کی کے لئے ہے اور
پڑھیں: