بھارت،رام نگر میں مسلمانوں کے17 مدارس سیل
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
رام نگر:بھارت میں مودی سرکار نے مسلمانوں کا جینا حرام کررکھا ہے،مسلمانوں پر تشدد روز کا معمول بن چکا ہے،مسلمانوں کی یادگار وں، تاریخی عمارتوں اور ان کے ناموں کو مٹانے کا سلسلہ جاری ہے،کئی مساجد کو شہید کیا جاچکا ہے اور اب مدارس کو بھی ڈھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اتراکھنڈ کے نینی تال ضلع کے رام نگر علاقے میں مدارس کے خلاف انتظامیہ کی کارروائی جاری ہے۔
رام نگر میں اب تک کل 17 مدارس کو سیل کیا گیا ہے۔ رام نگر کے سب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پرمود کمار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں کی گئی ہے، یہ مہم آئندہ بھی جاری رہے گی۔انہوں نے کہا کہ جن مدارس کو سیل کیا گیا ہے وہ رام نگر اسمبلی حلقہ کے تحت آتے ہیں۔ انتظامیہ کی طرف سے یہ کارروائی تعلیم اور عمارت کے معیار کی جانچ کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔ مدارس کی درستگی، رجسٹریشن اور آپریشن سے متعلق دستاویزات میں خامیاں پائی گئیں۔ ان کی شناخت کر کے بند کر دیا گیا ہے۔
اب تک سیل کیے گئے مدارس میںمدرسہ انوار القرآن، ایجوکیشنل سوسائٹی بلالی مسجد گلرگھٹی،مدرسہ گلشن گوسیہ، نوری مسجد، خطاڈی،مدرسہ دارالعلوم گلشن رضا، اندرا کالونی، خطادی ،مدرسہ فیضان رضا، آشیانہ کالونی، بھوانی گنج،مدرسہ مفتہ العلوم، جامع مسجد ،مدرسہ عربیہ شفاءالعلوم اہل سنت بالجماعت، پوچڑی فوجی کالونی،مدرسہ ناصر العلوم ایجوکیشنل سوسائٹی، قدیمی مسجد، گلرگھٹی،مدرسہ اسلامیہ عربیہ مصباح العلوم ایجوکیشنل سوسائٹی ،مدرسہ گلشن بغداد ایجوکیشنل مینجمنٹ کمیٹی صابری ،مدرسہ مفتی اعظم ہند ایجوکیشنل سوسائٹی اعلیٰ حضرت مسجد طاقت ،مدرسہ امام احمد رضا، آدرش نگر، گلرگھٹی،مدرسہ دارالعلوم چشتیہ، منیہار مسجد، ڈھکولی ،مدرسہ رضا دارالعلوم، چھپر والی مسجد،مدرسہ بنات العلوم، محلہ کھٹاری، نزد چھپر والی مسجد،مدرسہ گلشن عزیزیہ، جامع مسجد، ٹانڈہ مالو، پرانی بستی،مدرسہ تل مدینہ، حسین رضا مسجد، بھوانی گنج، کاشی پور روڈ، اورمدرسہ فیضانی اعلیٰ حضرت رضا، چاند مسجد، ٹانڈہ مالو، رام نگر شامل ہیں۔
انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ درست دستاویزات اور اجازت کے بغیر کام کرنے والے کسی بھی ادارے کو برداشت نہیں کیا جائے گا، یہ کارروائی علاقے میں تعلیمی نظام کے قوانین کی شفافیت اور تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے کی جا رہی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایجوکیشنل سوسائٹی
پڑھیں:
امریکا پاکستان اور بھارت تعلقات کی تشکیل جدید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بھارت اور امریکا کے تعلقات میں ایک جہاں ایک بحرانی سی کیفیت دکھائی دی رہی ہے وہیں دونوں ملکوں کے درمیان اس صورت حال سے نکلنے کے لیے ہمہ جہتی مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ امریکا تعلقات کی ایک نئی کہانی رقم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ دونوں ملکوں کو ان کے دو روایتی دوستوں چین اور روس سے تھوڑا دور کرتے ہوئے اپنے قریب لانے کی کوشش زوروں پر ہے۔ بھارت تمام تر دباؤ کے باوجود روس کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات کو امریکی پسند کی سطح پر لانے سے انکاری ہے اسی طرح پاکستان کو اپنے روایتی دوست چین سے فاصلہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ہر طرح کی ترغیب دی جارہی ہے۔ ایسے میں بظاہر امریکا کا جھکاؤ بھارت کے بجائے پاکستان کی طرف ہوتا محسوس ہورہا ہے جو محض فریب ِ نظر نہ سہی مگر ایک عارضی سی بات ہے۔ اگر بھارت کے ساتھ زیادہ بہتر سمجھوتا نہیں بھی ہوتا تو بھی امریکا چین کے مقابل اور متبادل کی آس پر بھارت کو خصوصی سلوک اور رعایت کا مستحق سمجھتا رہے گا۔ پاکستان کی اہمیت فقط جنگوں کی وجہ سے ہے۔ افغانستان کی جنگ، ایران کی جنگ، چین کی جنگ بس جنگوں کے جتنے خاکے امریکیوں کے ذہنوں اور کاغذوں میں ہیں پاکستان کی اہمیت صرف اتنی ہی ہے۔ ماضی میں پاکستان نے بھرپور کوشش کی امریکا اسے ان علاقائی ملکوں کے بجائے پاکستان کی عینک سے دیکھے اور اس کے ساتھ تجارتی معاہدات کرے مگر امریکا نے پاکستان کی اس خواہش کو اہمیت نہیں دی۔ امریکی منصوبہ سازوں کو اندازہ تھا کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو سہولتوں، مراعات، سیر وتفریح، بچوں کی رہائش، کاروبار اور تعلیم کی ضرورت کے لیے امریکا کی مستقل ضرورت رہے گی اور چین کے ساتھ ایسی کشش اور تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔
امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے فوری بعد اسلام آباد میں امریکا کے سابق سفیر رچرڈ اولسن نے اپنے ایک مضمون میں اسی اعتماد کا اظہار کیا تھا یہ وہ زمانہ جب امریکا اور پاکستان کے درمیان دنیا کے کئی ملکوں میں اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے نام پر مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا۔ رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ متذکرہ بالا مجبوریوں کے باعث پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے پاس امریکا کے ساتھ تعلق رکھنے کے سوا کوئی آپشن ہی موجود نہیں۔ انہی دنوں جنرل قمر جاوید باجوہ نجی محفلوں میں چین کی مخالفت اور امریکا کی حمایت کرتے نظر آتے تھے۔ پاکستان کو چونکہ امریکا تزویراتی زاویے سے دیکھتا ہے اس لیے وہ پہلے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے اور بعدازاں پاک فضائیہ کے سربراہ سے مذاکرات کر چکا ہے۔ اس کے برعکس بھارت کے ساتھ امریکا کے تعلقات ہمہ جہتی ہیں تو وہ ان سے کئی سطحوں پر مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایک وفد دفاعی امور پر بات چیت کو آگے بڑھا رہا ہے تو دوسرا تجارتی معاملات اور ٹیرف کی جنگ کی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
چین کی سرپرستی میں قائم شنگھائی کانفرنس سے اعلامیہ پر دست خط نہ کرکے دل برداشتہ ہو کر نکلنے والے بھارت کو مغرب سے اس وقت دست مسیحائی میسر آیا جب امریکا کی سرپرستی میں قائم تنظیم کواڈ کے مشترکہ اعلامیے میں وہ تمام خواہشات اور محاورے سمو دیے گئے جو شنگھائی کانفرنس میں اپنائے اور ٹھونسے نہ جا سکے تھے۔ شنگھائی کے دل برداشتہ بھارت کو کواڈ میں پہل گام اور سرحد پار دہشت گردی کا بھرپور ذکر کرے خوش کر دیا گیا۔ کواڈ وزرائے خارجہ کے اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ پہل گام کے مرتکبین کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ کواڈ کے اس اجلاس میں امریکا کے سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو۔ بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر آسڑیلیا کی وزیر خارجہ پینی وانگ اور جاپانی وزیر خارجہ تا کیشی کیوابا نے شرکت کی تھی۔ جس کے بعد بھارت کے وزیر خارجہ نے اعلان کیا تھا کہ امریکا کے ساتھ بھارت کے دفاعی تعلقات پہلے ہی مضبوط ہیں اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس بات کا پیغام تھا کہ بھارت ایک مقام پر جا کر امریکا کے مطالبات کے آگے سرینڈر بھی کر سکتا ہے۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے بھی یہ اشارے دیے ہیں کہ امریکا بھارت کے ساتھ کئی زیر التوا دفاعی سودے مکمل کر سکتا ہے جس میں مشترکہ دفاعی صنعت اور دفاعی پیداوار اور دونوں افواج کے درمیان قریبی تعاون بھی شامل ہے۔ یہ بھارت اور امریکا کے درمیان تزویراتی مقاصد کے یکجا ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے ساتھ تجارتی تعلقات میں ٹیرف اور جوابی ٹیرف کی جنگ بھی اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔
بھارت کے محکمہ کامرس کے خصوصی سیکرٹری راجیش اگروال ایک وفد کے ہمراہ تجارتی اختلافات کو حل کرنے کے لیے امریکا گئے تھے مگر ان کا قیام ایک ہفتے پر محیط ہوگیا۔ امریکا کی خواہش ہے کہ بھارت روس پر تیل کی خریداری کا انحصار کم کرکے یوکرین کے ساتھ اظہار یک جہتی کرے۔ بھارت روس سے اپنی ضروریات کا چالیس فی صد تیل خریدتا ہے۔ امریکا پوری کوشش کے باوجود اس میں کمی نہیں کر اسکا۔ یہ بات طے ہے کہ اگر بھارت امریکا کا یہ مطالبہ مانتا ہے تو اسے دوسرے ملکوں سے مہنگے داموں تیل خریدنا پڑے گا اور جس کا اثر بھارت کی معیشت پر پڑے گا۔ مہنگائی میں اضافے کے باعث عوام میں ناراضی پید اہوجائے گی۔ بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ بھی امریکا کے مذاکرات ٹیرف اور دفاع دونوں سطحوں پر جاری ہیں۔ بظاہر امریکا دونوں ملکوں سے تجارت پر بات کررہا ہے مگر حقیقت میں اصل وجہ نزع دفاعی اور تزویراتی ہے جس میں تجارت محض ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ بھارت کو روس سے تو پاکستان کو چین سے دور کرنا اصل مقصد ہے اور اس کے اثرات تجارتی شعبے پر منعکس ہو تے دکھائی دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ملک ان مشکل حالات سے کس طرح نبر د آزما ہوتے ہیں؟۔