پاکستان چینی تعاون کے ذریعے مینوفیکچرنگ کی مہارت حاصل کر رہا ہے.ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 جولائی ۔2025 )پاکستان اپنی مینوفیکچرنگ صلاحیتوں اور عالمی مسابقت کو بڑھانے کے لیے چین کے ساتھ گہرے صنعتی اور تکنیکی تعاون کو فروغ دے رہا ہے اس تعاون کا ایک اہم جزو گوانگ ڈونگ جوتا بنانے والی مشینری ایسوسی ایشن ایک چینی حکومت سے منسلک ادارہ اور پاکستان انڈسٹریل سلائی مشینز امپورٹرز اینڈ ڈیلرز ایسوسی ایشن کے درمیان پانچ سالہ معاہدہ ہے یہ معاہدہ جدید آلات اور پروڈکشن ٹیکنالوجیز متعارف کراتے ہوئے پاکستان کے جوتے، چمڑے اور گارمنٹس کی مشینری کی صنعتوں کو اپ گریڈ کرنے پر مرکوز ہے یہ مہارت کی ترقی پر بھی زور دیتا ہے، پاکستانی کارکنوں کو جدید صنعتی تقاضوں کے مطابق خصوصی تربیت حاصل کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کہ پاکستان انہوں نے کے ساتھ چمڑے کی کے لیے
پڑھیں:
آکسفورڈ سمیت عالمی جامعات سے ڈگری یافتہ چینی شہری فوڈ ڈیلیوری کا کام کرنے پر مجبور
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بیجنگ: آکسفورڈ سمیت دنیا کی کئی ممتاز جامعات سے تعلیم حاصل کرنے والے 39 سالہ چینی شہری ڈِنگ یوانژاؤ ان دنوں بیجنگ میں ایک فوڈ ڈیلیوری ورکر کے طور پر کام کر رہے ہیں، جس کے بعد سوشل میڈیا پر اعلیٰ تعلیم کی افادیت اور بے روزگاری کے بڑھتے رجحان پر شدید بحث چھڑ گئی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق ڈِنگ کا تعلق چین کے جنوب مشرقی صوبے فوجیان سے ہے، انہوں نے 2004 میں چین کا معروف قومی داخلہ امتحان “گاؤکاؤ” تقریباً 700 نمبروں کے ساتھ پاس کیا، جس پر انہیں چین کی صفِ اول کی جامعہ، تسِنگھوا یونیورسٹی میں داخلہ ملا، جہاں سے انہوں نے کیمسٹری میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔
بعد ازاں انہوں نے بیجنگ یونیورسٹی سے توانائی انجینئرنگ میں ماسٹرز، نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی سنگاپور سے حیاتیات میں پی ایچ ڈی اور برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے بائیوڈائیورسٹی میں ایک اور ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
تحقیق کے شعبے میں خدمات انجام دینے کے بعد ان کا پوسٹ ڈاکٹریٹ کا معاہدہ گزشتہ سال مارچ میں سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی میں ختم ہو گیا، جس کے بعد انہوں نے ملازمت کے لیے درجنوں درخواستیں دیں اور کئی انٹرویوز میں شرکت کی، مگر کسی موزوں ملازمت کے حصول میں ناکام رہے۔
بے روزگاری کے باعث، انہوں نے سنگاپور میں فوڈ ڈیلیوری کا کام شروع کیا، جہاں وہ روزانہ 10 گھنٹے کام کر کے تقریباً 700 سنگاپور ڈالر (تقریباً 550 امریکی ڈالر) ہفتہ وار کماتے تھے۔
ڈِنگ نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ یہ ایک مستحکم کام ہے، میں اپنی آمدن سے خاندان کی کفالت کر سکتا ہوں، اگر محنت کی جائے تو اچھی کمائی ممکن ہے، یہ کوئی بُرا کام نہیں ہے۔
انہوں نے پرائیویٹ ٹیوشن دینے سے گریز کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میں گاہک تلاش کرنے میں جھجک محسوس کرتا ہوں، کچھ مہینے بعد وہ چین واپس آ گئے اور اب بیجنگ میں “میٹوان” کمپنی کے لیے فوڈ ڈیلیوری کا کام کر رہے ہیں۔
حال ہی میں انہوں نے گاؤکاؤ امتحان مکمل کرنے والے طلبہ کے لیے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جو وائرل ہو گیا، ویڈیو میں انہوں نے کہا،اگر نتائج اچھے نہیں آئے تو مایوس نہ ہوں اور اگر اچھے ہیں، تو یاد رکھیں کہ زیادہ تر لوگوں کا کام مجموعی طور پر دنیا پر کوئی بڑا فرق نہیں ڈالتا۔
خیال رہےکہ چین میں مسلسل تیسرے سال تقریباً 1 کروڑ 30 لاکھ طلبہ گاؤکاؤ امتحان میں شرکت کر چکے ہیں، جب کہ بیروزگاری کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ مئی میں 16 سے 24 سال کے شہری نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 14.9 فیصد ریکارڈ کی گئی، جو صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔
ڈِنگ یوانژاؤ کی داستان نہ صرف تعلیمی نظام پر سوالات اٹھا رہی ہے بلکہ یہ بھی یاد دہانی ہے کہ صرف ڈگریاں ملازمت کی ضمانت نہیں ہوتیں، خصوصاً ایک دباؤ زدہ معاشی نظام میں جہاں قابلیت اور مواقع کا توازن بگڑ چکا ہو۔