بھارتی باشندوں کی اکثریت ایرانی کسانوں کی نسل ہے، جدید جینیاتی تحقیق میں انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جدید سائنسی تحقیق میں حیران کن انکشاف ہوا ہے کہ موجودہ بھارت میں بسنے والے نصف سے زائد افراد کا نسلی تعلق درحقیقت قدیم ایرانی کسانوں سے جڑا ہوا ہے، جو ہزاروں سال قبل برصغیر میں آ کر آباد ہوئے تھے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق یہ تحقیق نہ صرف جنوبی ایشیا کی آبادی کے نسلی پس منظر پر نئی روشنی ڈالتی ہے بلکہ اس سے خطے کی قدیم تہذیبوں کی جڑیں بھی واضح ہوتی ہیں۔
یہ سائنسی تحقیق امریکی ریاست کیلیفورنیا کی معروف یونیورسٹی برکلے سے منسلک انسانی جینیات کی ماہر ڈاکٹر ایلسی کرڈوتکف اور ان کی بین الاقوامی ٹیم کی جانب سے کی گئی ہے۔ انہوں نے بھارت بھر سے جمع کیے گئے لاکھوں افراد کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا اور اسے دنیا بھر کے دیگر نسلی گروہوں کے ڈیٹا بیس سے موازنہ کیا۔
یہ تحقیقی عمل کئی برس پر محیط رہا اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ بھارت کی موجودہ آبادی کی جینیاتی ساخت میں ایرانی کسانوں کا نمایاں اثر پایا جاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق تقریباً 5 سے 7 ہزار سال قبل ایران سے تعلق رکھنے والے کسانوں نے ہندوستان کا رخ کیا، جہاں انہوں نے کاشتکاری کو فروغ دیا اور مقامی افراد سے اختلاط کے نتیجے میں ایک نئی نسلی اکائی وجود میں آئی۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے برصغیر میں زراعت کی بنیاد رکھی اور وقت کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کے بنیادی ستون بنے۔
تاہم ایرانی کسانوں کے بعد برصغیر میں وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے جنگجو قبائل کا داخلہ ہوا، جن کے جینیاتی اثرات بھی آج کی بھارتی آبادی میں نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان قبائل کی نسل بعد میں آریہ کہلائی، جنہوں نے سماجی نظام کی بنیاد رکھی اور طبقاتی تقسیم (ذات پات) جیسے ڈھانچے کو جنم دیا، جو آج بھی بھارتی معاشرے میں موجود ہے۔
اس کے علاوہ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ موجودہ بھارتی باشندوں میں افریقی نسل کے عناصر بھی شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق تقریباً 50 ہزار سال قبل افریقی خطے سے آنے والے ابتدائی انسانوں کی ایک شاخ نے جنوبی ایشیا میں آ کر سکونت اختیار کی۔ ان شکاری قبائل کی اولاد نے بعد ازاں ایرانی کسانوں سے اختلاط کیا اور یوں سندھ کی وادی میں ایک عظیم تہذیب کی بنیاد رکھی گئی، جو دنیا کی قدیم ترین شہری تہذیبوں میں سے ایک تصور کی جاتی ہے۔
یہ تہذیب زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔ یوریشین اسٹیپی کے جنگجو قبائل، جن کا تعلق شمالی و مغربی ایشیا سے تھا، اس خطے میں داخل ہوئے اور تباہی پھیلائی۔ ان کے حملوں کے باعث وادی سندھ کے بیشتر باشندے ہجرت پر مجبور ہوئے، جن میں سے بڑی تعداد نے جنوبی ہندوستان میں پناہ لی۔
تحقیق میں یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ اگر پاکستان میں بھی اسی پیمانے پر ڈی این اے تجزیہ کیا جائے تو ممکن ہے کہ پاکستانی باشندوں کی اکثریت کا تعلق بھی قدیم ایرانی، عرب اور وسطی ایشیائی نسلوں سے جڑا ہوا نکلے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ تاریخی روابط، تجارتی راستے اور مذہبی اثرات نے پاکستانی جینیاتی وراثت کو متنوع اور کثیر النسل بنایا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایرانی کسانوں
پڑھیں:
چینی درآمد کرنا کسانوں اور ملکی انڈسٹری کو تباہ کرنے کے مترادف ہے، شوگر ملز ایسوسی ایشن
اسلام آباد:شوگر ملز ایسوسی ایشن نے مزید چینی درآمد نہ کرنے کے حکومتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ چینی درآمد کرنا کسانوں اور ملکی انڈسٹری کو سراسر تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے بیان میں کہا کہ شوگر انڈسٹری شروع سےکہہ رہی ہے کہ ملک میں چینی کے وافر اسٹاک ہیں، چینی درآمد کرنا سراسر کسانوں اورملکی انڈسٹری کو تباہ کرنے کے مترادف ہے، حکومت 3 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا آرڈر دے چکی ہے جس کی شروع سے ہی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
بیان میں کہا گیا کہ حکومت نے اس بابت انڈسٹری کی اپیلوں کو یکسر نظر انداز کر دیا، 18 نومبر تک ملک میں چینی کے وافراسٹاکس موجود ہیں۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کہا کہ شوگر انڈسٹری کو مالی بحران سے نکلنے کے لیےان اسٹاکس کا ختم ہونا ضروری ہے، کسانوں کی فصلوں میں ابھی تک سیلابی پانی کھڑا ہے، جب تک پانی ختم نہیں ہوتا گنے کی کٹائی کیونکر ممکن ہو پائے گی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ درآمدی چینی ٹیکس اور ڈیوٹی فری سبسڈی کے ساتھ منگوائی جا رہی ہے، حکومت متعدد بار ملوں کا ایف بی آر پورٹل بند کرتی ہے تا کہ درآمد کی گئی چینی فروخت ہوسکے ۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کہا کہ حکومت سے التماس ہے کہ کسانوں اور انڈسٹری کی بہتری کا سوچتے ہوئے مثبت فیصلے کرے۔