’45 دن ایسے لگے جیسے 45 سال‘، فلسطینی صحافی کی غزہ میں اپنی رپورٹنگ پر مبنی یادداشتیں شائع
اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT
فلسطینی صحافی پلیسٹیا العاقَد کی عمر اکتوبر 2023 میں 21 سال تھی جب غزہ میں اس کے گھر پر اسرائیل نے بمباری کی۔ اس نے 45 دن جنگ کے آغاز میں غزہ میں تباہی کو دستاویزی شکل دی، اس کے بعد اسے آسٹریلیا منتقل کردیا گیا جہاں اس نے اپنی تعلیم جاری رکھی، اس کی پہلی کتاب ’دی آئز آف غزہ‘ اے ڈائری آف ریزیلینس اس دوران کی ڈائری پر مبنی ہے جو اس نے جنگی حالات میں لکھی۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فوج کی غزہ پر بمباری، ممتاز فلسطینی شاعرہ بھی شہید
ٹین ووگ سے گفتگو کرتے ہوئے پلیسٹیا العاقَد نے کہا کہ کتاب کے لیے اپنی ڈائری دوبارہ پڑھتے وقت وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئی، جب اسے یاد آیا کہ وہ پناہ گاہ سے پناہ گاہ بدل رہی تھی، اپنے دوستوں اور اہلخانہ کی خبر لینے کی کوشش کررہی تھی اور اردگرد پھیلی وحشت کو سمجھنے میں ناکام تھی۔ اس نے کہا ’جب بھی پڑھتی ہوں تو یقین نہیں آتا، کیا یہ سچ ہے؟ کیا میں نے واقعی یہ سب جیا؟ کیا اب بھی ہزاروں لوگ غزہ میں وہی کچھ جھیل رہے ہیں؟‘
انٹرویو میں نوجوان مصنفہ نے غزہ کی صورتحال کو تنازع کہنے کے تصور کو رد کرتے ہوئے اسے نسل کشی قرار دیا۔ اس نے کہا کہ اسے تنازع کہنا بزدلی ہے اور پوچھا کہ اگر یہ صرف اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی ہے تو پھر بچے، خواتین، بوڑھے اور مرد کیوں مارے جارہے ہیں اور بھوکے کیوں مررہے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: برطانوی پابندی کے باوجود آئرش مصنفہ سیلی رونی کی فلسطین ایکشن کے ساتھ یکجہتی
اپنی ڈائری میں اس نے لکھا کہ جنگ 18 اکتوبر 2023 کو اس وقت ختم ہوئی جب اسرائیل نے ایک اسپتال پر بمباری کر کے 500 افراد کو ایک ہی حملے میں مار ڈالا۔ اس نے کہا کہ اسے لگا تھا کہ یہ بربریت دنیا کو مداخلت پر مجبور کرے گی لیکن یہ تو محض آنے والے واقعات کی شروعات تھی۔
العاقَد نے اس بات پر سخت غصہ ظاہر کیا کہ میڈیا نے فلسطین کے ساتھ کیسا رویہ اپنایا ہے۔ اس نے کہا کہ ہم ایک ڈسٹوپیائی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں اور صحافیوں کو احتیاط برتنی پڑتی ہے کہ وہ ان کی موت کی خبر کیسے دیں تاکہ انہیں خاموش یا شیڈو بین نہ کر دیا جائے۔
مصنفہ نے سوال اٹھایا کہ دنیا فلسطینیوں سے کیوں توقع رکھتی ہے کہ وہ کامل متاثرین ہوں اور بتایا کہ اس نے متعدد انٹرویوز دیے جو نشر نہیں ہوئے یا ان کی باتوں کو توڑ مروڑ دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینی صحافی بسان عودہ نے ایمی ایوارڈ جیت لیا
انہوں نے کہا اسے دنیا کے نوجوانوں میں امید ملی، خاص طور پر امریکی طلبہ میں جو اس کی قوم کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ ’مجھے خوشی ہے کہ دنیا اب ہمیں اور ہماری جدوجہد کو جانتی ہے، لیکن میری خواہش ہے کہ ہم ایسی دنیا میں رہتے جہاں دنیا کو ہمیں یا ہماری جدوجہد کو جاننے کی ضرورت ہی نہ ہوتی، یا یہ کتاب لکھی ہی نہ جاتی۔‘
اس نے کہا کہ شروع میں اسے لگا تھا کہ اسرائیلی مظالم پر بات کرنا بیرون ملک غزہ کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہوگا، مگر اب وہ سمجھتی ہے کہ وہ سب سے زیادہ آزاد اپنے گھر میں تھی کیونکہ غزہ کے باہر آپ صرف ایک وزیٹر ہیں۔ العاقَد نے کہا کہ اس نے اپنی کتاب کے فروغ کے لیے امریکی ویزا کے لیے درخواست دینے کی زحمت بھی نہیں کی کیونکہ اس کے مسترد ہونے کے امکانات زیادہ تھے۔
غزہ کے ناقابلِ برداشت حالات پر بات کرتے ہوئے صحافی نے ٹین ووگ کو بتایا کہ بنیادی اشیا تقریباً ناپید تھیں اور جو دستیاب تھیں وہ ناقابلِ برداشت مہنگے داموں فروخت ہو رہی تھیں۔ لوگوں کو سونے کے لیے ٹینٹ نہیں مل رہے تھے اور جنہیں ٹینٹ مل گئے وہ صاف باتھ روم نہیں ڈھونڈ پاتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: مریم ابو دقہ، اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والی خاتون صحافی کون ہیں؟
العاقَد نے کہا ’دل توڑنے والی بات ہے کہ غزہ میں بچوں کو بچہ بننے کی اجازت نہیں، نوجوانوں کو نوجوان بننے کی اجازت نہیں، کیونکہ والدین کے مارے جانے کے بعد بہتوں کے کندھوں پر بڑوں کی ذمہ داریاں آ پڑی ہیں۔‘
مصنفہ نے کہا کہ ’نسل کشی نے ہمیں اس زندگی پر شکر گزار بنا دیا جو اس سے پہلے تھی، چاہے وہ کامل نہیں تھی‘۔ اس سے جب عوامی تقریبات میں کفایہ پہننے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے مزید وضاحت سے گریز کیا اور کہا کہ ’تاریخ 7 اکتوبر سے شروع نہیں ہوئی، مگر آپ نسل کشی کے وقت اپنی ثقافت اور اپنی قوم کی بات نہیں کرسکتے‘۔
ایسی داستانوں کے سامنے آنے کے باوجود، جو پڑھنے والوں کو ہلا دیتی ہیں، غزہ کے لوگ کہتے ہیں کہ اسرائیل نے اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں حالانکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پانے کی اطلاعات ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ غزہ پر بمباری بند کی جائے۔
اسرائیل سے آنے والی رپورٹس کے مطابق اسرائیلی ڈیفنس فورسز غزہ میں جارحانہ کارروائیوں کو کم کرنے کی تیاری کررہی ہیں جبکہ دنیا اس تشدد کے اختتام کی امید کر رہی ہے جس نے 729 دنوں میں 66 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جان لی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
The Eyes of Gaza we news پلیسٹیا العاقَد صحافی غزہ فلسطین کتاب مصنفہ یادداشت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: صحافی فلسطین کتاب مصنفہ یادداشت یہ بھی پڑھیں اس نے کہا کہ العاق د نے کے لیے غزہ کے
پڑھیں:
بھیڑیوں کا معاہدہ امن وبقا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251005-03-6
باباالف
بیس نکاتی غزہ امن معاہدے کا پہلا مسودہ ہو یا نیتن یاہو، وٹکوف اور جیرڈ کوشنر کا ترمیم شدہ مسودہ، صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو غزہ امن منصوبے کے نام پر خطے کی جس نئے ڈھب سے منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں اس کے بعد یہاں صرف بھیڑیوں کا راج ہوگا۔ یہ علاقہ محض ایک وجود کی ملکیت ہوگا۔ یہودی وجود کی۔ ناپاک اسرائیلی یہودی وجود کے نزدیک ہمسایہ اقوام کی زندہ رہنے کی ایک ہی ضمانت ہے۔ غلامی۔ ان کے سیاسی اظہار میں امن، امن کی گردان کے پیچھے ایک ہی معنی چھپے ہوئے ہیں۔ غلامی۔ جب مذاکرات کی میز پر اصل فریق حماس موجود نہ ہو، مسجد اقصیٰ کے کنٹرول کا ذکر نہ ہو، ہاتھ بندھے ہوں، دھمکیاں کھلی ہوں، تب اس میز پر امن کے منصوبے نہیں غلامی کی دستاویز ہی لکھی جاسکتی ہے۔
امن منصوبے میں تجویز کیا گیا ہے کہ حماس اپنے ہتھیارڈال دے، غیر مسلح ہو جائے۔ غزہ کے مستقبل میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے بجائے یہ حماس ہوگی جسے غزہ خالی کرنا ہوگا۔ ایسا کیسے ممکن ہے؟ حماس اور فلسطینی ناپاک وجود کی مزاحمت ترک کردیں، جہاد سے کنارہ کش ہوجائیں؟ ایسا کیسے ممکن ہے؟ جو قوم مزاحمت ترک کردیتی ہے وہ اپنی سانسیں دشمن کے پاس گروی رکھوا دیتی ہے۔ جو امن آزادی نہ دے، اپنی مرضی نہ دے، عزت نہ دے، فیصلوں کا اختیار نہ دے، اپنی زمین پر اپنا قبضہ اور دسترس نہ دے۔ وہ امن نہیں غلامی ہے۔ جارح طاقتوں کے لکھے ہوئے نکات مظلوموں کی تقدیر نہیں بدلتے۔ مظلوموں کے مقدر تب بدلتے ہیں جب اپنی تقدیر لکھنے کے لیے قلم اور کاغذ بھی ان کا ہو، لکھے گئے نکات بھی ان کے تجویز کردہ ہوں۔
امن منصوبے میں اہل غزہ کے لیے ایک عالمی انتظامیہ کا پیکر تراشا گیا ہے جس کا چارج صدر ٹرمپ اور دنیا کے بدترین جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ،Weapons of mass destruction کے خالق ٹونی بلیئر جیسے جھوٹے اور مسلم تباہی پسند کے پاس ہوگا۔ معاہدے میں اسے ’’عبوری انتظام‘‘ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس عبوری انتظام میں غزہ کے اصل وارث کہاں ہوں گے؟ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کا کیا ہوگا؟ فلسطین کی داخلی خود مختاری کی نمائش کہاں ہوگی؟ جب کسی قوم اور ملک کے لوگوں کے فیصلے جارح کرتے ہوں، تب غلامی عبوری نہیں، مستقل ہوتی ہے۔
معاہدے میں تجویز کردہ غزہ انٹرنیشنل ٹرانزیشنل اتھارٹی جس میں عالمی کفن چور مالک ومختار ہوں گے کبھی امن نہیں آسکتا۔ امن تب آتا ہے جب زمین کے بیٹے زمین کے مالک ہوں، وہ خود اپنی نسلوں کے مستقبل کے فیصلے کریں، اپنی مسجدوں میں اپنے دل کے خطبے پڑھیں، اپنے کھیتوں میں اپنی مرضی کی فصل کاشت کریں۔ اپنے گھر خود تعمیر کریں۔ امن کی تصویر دکھا کر، اگر ’’پہلے ہتھیار ڈال دو‘‘ کا مطالبہ ہو، اور ٹرمپ، نیتن یاہو اور ٹونی بلیئر جیسے ظالموں اور قاتلوں کی طرف سے ہو، تو وہ ہر گز ہرگز امن نہیں ہوسکتا، امن کا فریب ہوسکتا ہے چاہے اس میں کیسے ہی مہربان الفاظ لکھے ہوں، کیسے ہی وعدے کیے گئے ہوں۔
امن منصوبے میں تعمیر نو کے جس منصوبے کا ذکر ہے وہ قبضہ پکا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جو گھر گراتے اور مسمار کرتے ہیں وہ اس کی دوبارہ تعمیر اصل مالکان کو واپسی کے لیے نہیں کرتے۔ خود مالک بننے کے لیے کرتے ہیں۔ تعمیر نو نہیں یہ قبضے کا نیا روپ اور نوآبادیاتی شکل ہے۔ جو گھر تعمیر کیے جائیں گے کیا ضمانت ہے کہ ان میں کس کی رہائش ہوگی، کس کو اندر جانے کی اجازت دی جائے گی، کس کا قبضہ مستقل اور مسلسل ہوگا؟ ظالموں کے ہاتھوں تعمیر نو کبھی اصل مالکان کے لیے نہیں ہوتی اور نہ قابض قوتوں کی واپسی کے لیے ہوتی ہے۔
غزہ کو ساحلی تفریح گاہ بنانے کا عزم ظاہرکرتا ہے کہ دنیا کے تمام ظالم ایک ہی نوع کے ہوتے ہیں مگر یہودی وجود سے کم۔ مظلوموں کے لاشوں پر تعمیر کردہ ریزورٹ، شہیدوں کے خون میں تر بتر ہوٹل اور اجڑی اور تباہ حال بستیوں کے ملبے پر کھڑی کی گئی تفریح گا ہیں، زنا، جوئے اور شراب نوشی کے اڈے۔ ان تعمیرات کو اہل غزہ کی فلاح وبہبود سے کیسے تعبیر کیا جاسکتا ہے جن کی بنیادوں میں سمندر اور اہل غزہ کا خون یکساں طور پر بہہ رہا ہوگا۔ یہ اہل غزہ کی نہیں ان سرمایہ داروں کی جنت ہوگی جن کے لیے منافع ہی سب کچھ ہے خواہ سمندر بیچ کر حاصل کیا جائے یا انسانی لہو بیچ کر۔ امن منصوبہ نہ امن ہے اور نہ ترقی، یہ فلسطینیوں کی قبروں اور ان کے بچوںکی لاشوں پر سامراجی سرمایہ داروں کی باربی کیو پارٹی کا منصوبہ ہے۔
غزہ امن منصوبے پر مسلم سربراہان نے پہلے تالیاں بجائیں اور اب اپنی عوام کے خوف سے وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ منصوبہ مسلمانوں کے خلاف یہودو نصاریٰ کا مشترکہ شکنجہ ہے لیکن ان مسلم حکمرانوں کے پاس کوئی ایسا تصور نہیں جو امت مسلمہ کے ساتھ مشترک ہو۔ بیس نکاتی منصوبہ ان حکمرانوں کے لیے آرام دہ حل ہوسکتا ہے جن کی زبانیں گنگ ہیں اور ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، امت کو ان سے کوئی امید نہیں ہے۔ امت اپنا مستقبل ان کے ہاتھ میں نہیں حماس جیسے مجاہدین کے حوصلوں میں دیکھتی ہے۔
مجاہدین جانتے ہیں کہ اگر وہ منصوبوں کے اس فریب اور الفاظ کے الجھائو میں آگئے تو یہ ناقابل معافی کفر ہوگا جس کا نتیجہ مستقل پسپائی اور ذلت کے سوا کچھ نہیں۔ وہ کل بھی میدان جنگ میں کھڑے تھے، آج بھی کھڑے ہیں اور مستقبل میں بھی کھڑے ہوں گے۔ جہاد اور اللہ کی راہ میں جان دینا ایسا ہی نشہ اور لذت ہے۔ ان کے بچے کل فخر سے کہہ سکیں گے کہ ہم ان کی اولادیں ہیں جنہوں نے اپنی زمین کا سودا کرنے کے بجائے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں، جہاد کے پرچم کو سرنگوں نہیں ہونے دیا، اس جہاد کے پرچم کو جو آزادی کے دروازوں پر نصب ہوتا ہے۔
امن۔۔ ٹرمپ جیسے یہود نواز، عیش کوش اور نیتن یاہو جیسے دہشت گردوں کے منصوبوں سے نہیں آسکتا۔ تباہی وبربادی لانے والے بیس نکات سے بھی جن کی سیری نہیں ہوتی اور اہل غزہ کے لیے اس منصوبے کو مزید مہلک اور جان لیوا بنانے کے لیے وہ اس میں خاموشی سے ترامیم کردیتے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو جیسے بدمعاش ہی ایسا منصوبہ ترتیب دے سکتے تھے جس میں تمام پابندیاں، جبر اور استیصال اہل غزہ اور حماس کے لیے ہو اور یہودی ناپاک وجود کے غزہ سے انخلا کی کوئی تاریخ نہ دی گئی ہو۔
امن کبھی بھیک کی طرح مانگ کر، سر جھکا کر، ظالموں کے امن منصوبے کی تائید کرکے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ امن جہاد کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے، ظالم کے جبڑوں سے چھینا جاتا ہے۔ جہاد، اتحاد اور خون سے ہی امن کی کھیتیاں سینچی جاتی ہیں تب بیس نکات ہوں یا سو نکات، سب کاغذوں پر لکھے رہ جاتے ہیں اور جذبہ جہاد سے لبریز آزادی کی جدوجہد نئی تاریخ رقم کرتی ہے۔ جہاں ظلم ہو، مظلوموں کا خون بہایا جارہا ہو، بستیاں برباد کی جارہی ہوں وہاں غلامی کے معاہدے نہیں چلتے، جہاد چلتا ہے، وقتی کامیابی اور ناکامی سے ماورا، مسلسل اور مستقل جہاد۔ امن آزادی کی قیمت پر بھی حاصل نہیں کیا جاتا۔ دشمن کے سامنے جھکنا سانس لینے کا ایک وقفہ تو ہوسکتا ہے پائیدار امن کی ضمانت نہیں ہوسکتا۔ امن جنگ کا خاتمے اور اس کے رکنے سے نہیں آتا۔ حقیقی امن تب ہی آتا ہے جب لوگ اپنی تقدیر کے خود مالک ہوں، اپنی زمین پر خود فیصلے کرنے کا اختیار رکھتے ہوں، اپنی شناخت اپنی مرضی سے طے کرتے ہوں۔ کسی معاہدے میں اگر زمین کے اصل وارث شامل نہ ہوں، لوگوں کی آزادی محدود کی جارہی ہو، ان کے حقوق غضب کیے جارہے ہوں، ان کی خودارادی کو پابند کیا جارہا ہو اور جارح قوتیں ان پر مسلط اور قابض ہوں تو وہ امن ایک دھوکا ہے، ایک پردہ اور ظلم کی نرم شکل اور تماشا۔