WE News:
2025-11-20@07:10:15 GMT

ذکرِ فیض چلے!

اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT

ذکرِ فیض چلے!

یہ تحریر پہلی بار 20 نومبر 2023 کو شائع کی گئی تھی۔ فیض احمد فیضؔ کی 41ویں برسی کے موقع پر اس تحریر کو دوبارہ شائع کیا جارہا ہے۔

’’14 دسمبر 1958 کی یخ بستہ صبح تھی جب ایک کالی گاڑی مجھے اسکول سے لیکر گھر پہنچی تھی۔ عجیب منظر دیکھا کہ کچھ اجنبی افراد نے آپ کو پکڑ رکھا تھا، جو آپ کو گرفتار کرنے آئے تھے۔ آپ گزشتہ روز ہی لندن سے لوٹے تھے۔ آپ کو پھر کھو دینے کے خیال سے میں شدید ذہنی صدمے میں تھی، میں چلائی آپ کہاں جارہے ہیں ابو، آپ کب واپس آئیں گے؟ لیکن آپ نے مڑ کر میری کُرلاتی نم آنکھوں میں نہیں دیکھا تھا۔ بنا کسی وضاحت کے آپ سے دُوری کا دکھ زندگی بھر میرے ساتھ رہے گا۔‘‘

منزہ ہاشمی کے اپنے والد (فیض احمد فیض) کے ساتھ  اس مکالمے میں 40 برس کی مسافت حائل ہے۔ منزہ ہاشمی اپنی کتاب (Conversations with my father) کے بارے میں کہتی ہیں ’فیض صاحب نے مجھے بہت سے خط لکھے، وہ ہم سے دور رہے، کبھی جیل میں، کبھی جلا وطنی میں۔ دنیا کے ہر کونے سے خط یا پوسٹ کارڈ بھجواتے تھے۔ اگرچہ فاصلے جذباتی اور جسمانی تھے، لیکن انہیں ہماری سالگرہ سمیت تمام دوسرے اہم دن یاد رہتے تھے۔ ایک بار لکھا تھا ’تمہارا پچپن میں نے مِس کر دیا کہ میں جیل میں تھا۔‘

منزہ ہاشمی کی کتاب کا سرورق ’کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب‘

منزہ ہاشمی کہتی ہیں کہ اب جبکہ میں ریٹائرڈ لائف گزار رہی ہوں۔ جن دنوں کورونا کے باعث گھر میں محصور تھی، فراغت کے ان لمحات میں خطوط میرے ہاتھ لگ گئے اور انہیں پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ کیوں نہ یہ فیض کے پرستاروں سے شیئر کیے جائیں۔ اگرچہ خطوط فیض نے مجھے لکھے لیکن فیض تو سب کے ہیں۔ کچھ کرنے کی ٹھان لوں تو پھر وہ کرکے دم لیتی ہوں، یہ جبلت مجھے والدین سے ورثے میں ملی ہے۔

چھوٹے بیٹے عدیل ہاشمی نے مشورہ دیا کہ محض خطوط شائع کرنے سے کتاب بوریت کا شکار ہو جائے گی، آپ ان خطوط پر اپنا ردعمل دیں اور دل کھول کر رکھ دیں، پھر ایسا ہی ہوا۔ لیکن کچھ سینسر شپ بھی کرنا پڑی۔ 50 کے قریب خط شائع کیے، کچھ بچا لیے۔

’تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں‘

9 مارچ 1951 کو فیض صاحب کو راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ چار، ساڑھے 4 برس انتظار، آس اور امید میں گزرے، 20 اپریل 1955 کو انہیں رہائی ملی تھی۔ ماضی کی یاد کے زخم بھرنے لگے تو خطوط کے بہانے انہیں یاد کیا پھر لکھنے بیٹھی تو یادوں کی رَو میں لکھتے چلی گئی۔ اپنا لکھا ہوا دوبارہ نہیں پڑھتی، تاہم میری دوستوں نے اس سلسلے میں میری بہت مدد کی۔

کتاب میں شامل فیض احمد فیض کے ایک خط کا عکس اور انگریزی ترجمہ

پھر یہ پشیمانی بھی لاحق تھی کہ ذاتی مراسلے شیئر کر رہی ہوں لیکن دوستوں نے حوصلہ بڑھایا کہ فیض بطور والد کیسے تھے؟ وہ آپ اور سلیمہ ہاشمی کے علاوہ اور کون بتا سکتا ہے۔ یوں جو باتیں فیض صاحب سے نہیں کرسکی تھی وہ سب کردیں۔

’جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے‘

فیض صاحب کے خطوط، ان کی ٹائم لائن، پھر ان کا 40 برس بعد جواب، جن میں گلے شکوے اور پیار بھرا ہے۔ خطوط کا سیاق و سباق بھی بتانا ضروری تھا۔ خطوط میں جن شخصیات کا ذکر آیا، ان کا تعارف بھی کروایا گیا ہے۔ اس کتاب میں جگ بیتی بھی ہے اور آپ بیتی بھی، آپ اسے کتھارسس بھی کہہ سکتے ہیں، پڑھنے والے اس کتاب کو جو ٹائٹل دینا چاہیں دے دیں۔ اس میں اپنے والد سے کہی ان کہی سب باتیں شامل ہیں، اور یہ بھی کہ مجھے ان سے کیا کیا شکایتیں تھیں۔

40 برس پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) پر کام کیا، وہاں فیض صاحب پر پابندی تھی اور میں وہاں تھی۔ وہاں ضیاء دور کے 10 گیارہ برس بہت مشکل میں گزارے۔ ’فیض کی بیٹی ہے‘ اس جملے کو لیکر مجھے بہت تنگ کیا گیا۔ ضیاء دور میرے لیے ہی نہیں، پورے ملک کے لیے خوفناک تھا۔

فیض احمد فیض اپنی اہلیہ ایلس فیٖض اور بیٹیوں سلیمہ اور منزہ کے ہمراہ ’بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا‘

جب بھی کبھی کوئی شکایت کرتی تو لکھتے تھے کہ دفتری سر درد کا تو کوئی علاج نہیں، جہاں تک ہو سکے ’سوئچ آف‘ کرلیا کریں۔ کہتے تھے’ہمارا نسخہ اپناؤ‘ وہ ہم کا صیغہ استعمال کرتے تھے کہ خود کو دنیا کا فرد کہتے تھے۔ ’سوئچ آف‘ کے حوالے سے فیض صاحب کہا کرتے تھے کہ بیروت میں قیام کے دوران جب رات گئے بمباری کی آوازیں آتیں تو روم میٹ خوفزدہ رہتے جبکہ میں منہ پر تکیہ رکھ کر سوجایا کرتا تھا، سوئچ آف کر لیتا تھا۔ یہ آرٹ سب کو سیکھنا چاہیے۔

کتاب کے پیش لفظ میں زہرا نگاہ لکھتی ہیں کہ ’مجھے پورا یقین ہے کہ تمہارے خط فیض صاحب تک ضرور پہنچ گئے ہوں گے۔ اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ بھی آتی ہوگی۔‘ اور پھر انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’ہمارے جانے کے بعد ہماری میزو واقعی بڑی ہوگئی ہے۔ اب تو اسے سوئچ Off کرنا اور on کرنا بھی آگیا ہے۔‘ پھر انہوں نے سگریٹ بجھا دیا ہوگا۔ معلوم نہیں جنت میں سگریٹ کی اجازت ہے کہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر نہیں ہے تو ہوسکتا ہے انہیں اسپیشل پرمیشن مل گئی ہو۔‘

اسلام آباد (فروری 2022) منزہ ہاشمی اپنی دستخط شدہ کتاب (Conversations with my father) راقم کو عنایت کرتے ہوئے۔ ’ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آواز پا سمجھے‘

یہ فیض صاحب کی وہ زندگی ہے جو دنیا نے نہیں دیکھی، میں نے وہ سب کچھ کرنے کی کوشش کی جو فیض کرنا چاہتے تھے، ان کے فٹ پرنٹ فالو کیے ہیں۔ میں کہاں کہاں نہیں گئی؟ جب وہ جیل میں تھے، میں 8 برس کی تھی، میں ساہیوال جیل بھی گئی جہاں وہ اسیر رہے۔ میں نے حضرت امام حسینؑ کے روضے پر جا کر فیض صاحب کا سلام بھی پڑھا۔

فیض کے تمام خطوط اردو میں ہیں جبکہ منزہ ہاشمی نے ان کا جواب اپنی مادری زبان، انگریزی میں دیا ہے۔ کہتی ہیں ’مجھے دادی اور پھوپھو نے پنجابی سکھائی تھی۔ فیض شاید اس لیے اردو لکھتے تھے کہ میں مادری زبان کے ساتھ ساتھ اردو پر بھی توجہ دوں۔ کیوں کہ گھر میں انگریزی زیادہ بولی جاتی تھی۔ والد صاحب کچھ بھی لکھتے تھے تو ماں کو انگریزی میں سمجھاتے تھے۔ اب دوستوں اور پرستاروں کی پرزور فرمائش پر کتاب کا اردو ترجمہ بھی جلد آ جائے گا۔

’ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے‘

میرے دو بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا علی مدیح ہاشمی ڈاکٹر ہے، ماہر نفسیات ہے، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پروفیسر ہے۔ امریکا اور پاکستان میں پرائیویٹ پریکٹس بھی کر رہا ہے۔ لاہور کے مینٹل اسپتال کا سی ای او بھی ہے۔ بہت اچھا لکھاری ہے، 2 کتابوں کے تراجم کیے ہیں اور اپنے نانا (فیض احمد فیض) کی سوانح عمری (Love and Revolution) بھی انگریزی میں لکھی جو فیض پر لکھے جانے والی بہترین اور مستند کتاب ہے۔

چھوٹا بیٹا عدیل ہاشمی آرٹ اور میڈیا سے وابستہ ہے، فیض فاؤنڈیشن کا سیکریٹری جنرل بھی ہے۔ اپنے نانا کے پیغام کو آگے بڑھا رہا ہے۔ بہت اچھی شاعری کر رہا ہے۔ اس حوالے سے زہرا نگاہ، یاسمین حمید اور ڈاکٹر عارفہ سیدہ سے مشورے لے رہا ہے۔

’اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘

زندگی میں پیسے صرف فیض صاحب سے مانگے۔ ایک خط میں انہوں نے لکھا کہ پیسے بھیجنے میں تاخیر کے باعث سود کے ساتھ لوٹا رہا ہوں، ماں کو مت بتانا۔ پیسے ابو سے ہی مانگنے تھے، ماں کے پاس تو ہوتے نہیں تھے۔ ایک خط میں لکھا کہ ’اگر تمہیں ہاسٹل کا کھانا پسند نہیں تو ہوٹل سے منگوا لیا کرو، اپنی ماں کی طرح پیسوں کی فکر مت کیا کرو۔‘ اب بھی جب کبھی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اللہ جانے کیسے انتظام ہوجاتا ہے، ان کی رائلٹی کے پیسے آ جاتے ہیں۔

منزہ ہاشمی کا اپنی کتاب پر راقم کو دیا گیا آٹوگراف

میری والدہ سمیت کبھی کسی نے نہیں کہا کہ انہوں نے اونچی آواز میں بھی بات کی ہو، گالی تو دور کی بات وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہتے تھے وہ بڑا ’پاجی‘ ہے۔ وہ میرے خط محفوظ نہیں رکھ پائے، اس لیے کہ وہ زیادہ سفر میں ہی رہے۔

ایک بار میں نے انہیں لکھا کہ آپ بہت دور ہیں میرا دل کرتا ہے کہ آپ کی خدمت کروں، تو انہوں نے جواب دیا کہ خدمت کی ضرورت تو شاید جب پڑے گی، اگر اور دس 20 برس جینا پڑا اور ہاتھ پاؤں جواب دے گئے، پھر ہم گاؤں چلے جائیں گے، جہاں مراثی حقہ تازہ کرے گا اور مراثن پاؤں دبایا کرے گی۔

’مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں‘

فیض احمد فیض کی ادبی خدمات کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا۔ 1962 میں سوویت یونین نے انہیں لینن امن انعام دیا تھا۔ 1976 میں ادب کے لوٹس ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ 1990 میں حکومت پاکستان نے ’نشان امتیاز‘ سے نوازا۔ جبکہ ان کے صد سالہ یوم پیدائش پر 2011 کو ’فیض کا سال‘ قرار دیا گیا تھا۔

فیض کی تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سر وادیٔ سینا، شام شہر یاراں اور میرے دل مرے مسافر کے علاوہ نثر میں میزان، صلیبیں مرے دریچے میں اور متاع لوح و قلم شامل ہیں۔ انہوں نے 3 فلموں ’قسم اس وقت کی‘۔ ’جاگو ہوا سویرا‘ اور ’دور ہے سُکھ کا گاؤں‘ کے لیے گیت بھی لکھے تھے۔

فیض احمد فیض کی یادگار تصویر

فیض 13 فروری 1911 کو پنجاب کے ضلع نارووال کی اک چھوٹی سی بستی کالا قادر (اب فیض نگر) کے علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1984 میں انہیں ادب کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن انعام کا فیصلہ ہونے سے قبل ہی 20 نومبر 1984 کو ان کا انتقال ہوگیا تھا۔

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں

راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا

ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار

لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ

سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار

اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ

گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ

اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو

اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایلس فیض دست تہہ سنگ دست صبا زندان نامہ ساہیوال جیل سلیمہ ہاشمی عدیل ہاشمی علی مدیح ہاشمی فیض فیض احمد فیض مشکورعلی منزہ ہاشمی وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایلس فیض دست تہہ سنگ سلیمہ ہاشمی عدیل ہاشمی علی مدیح ہاشمی فیض فیض احمد فیض مشکورعلی منزہ ہاشمی وی نیوز فیض احمد فیض منزہ ہاشمی فیض صاحب انہوں نے کیا گیا گیا تھا کے لیے تھے کہ فیض کی رہا ہے کہ میں

پڑھیں:

دہلی دھماکہ: اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف

ڈاکٹر سلیم خان

دہلی میں ہونے والے دھماکوں کی بابت پہلے تو یہ بات واضح نہیں تھی کہ وہ کسی گاڑی کے سیلنڈر پھٹنے سے ہوا ہے یا دھماکہ خیز مادے کی مدد سے کیا گیا ہے ۔ اس گاڑی کو چلانے والا فدائین حملہ آور تھا حادثاتی طور پر موت کے منہ میں چلا گیا۔ شاید اس وقت تک سرکار دربار کے لوگ یہ فیصلہ نہیں کرپارہے تھے کہ کون سا بیانیہ سیاسی طور پر مفید یا مضر ہوگا؟ بی جے پی کی فرقہ پرستانہ سیاست کے لیے دہشت گردانہ بیانیہ ہی مفید تھا اور اگر وہ اقتدار میں نہیں ہوتی تو بلاتحقیق اسی کو آگے بڑھایا جاتا لیکن چونکہ یہ دھماکہ دارالخلافہ دہلی میں ہوا تھا جہاں ڈبل انجن سرکار ہے یعنی ریاستی حکومت کو بھی اس کے لیے گھیرا نہیں جاسکتا اس لیے یہ ہچکچاہٹ تھی کہ کسے موردِ الزام ٹھہرایا جائے ؟ ملک میں فی الحال ایک بہت طاقتور مانے جانے والے وزیر اعظم ہیں جو ایک زمانے میں چین کو لال آنکھیں دِکھا کر ٹھیک کردینے کی عار دلاتے تھے اس لیے ان کے ہوتے یہ ہوجانا موصوف کی ‘مہا مانو'( عظیم انسان) والی شبیہ پر سوال کھڑے کرتا تھا۔اس کے علاوہ وزیر داخلہ اور قومی سلامتی کے مشیر کی انتظامی صلاحیت بھی مشکوک ہوجاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دو تین دن گومگوں کی کیفیت رہی لیکن وزیر اعظم کے بھوٹان سے لوٹنے کے بعد اب تفتیشی ایجنسیوں کو دہشت گردی کے زاویہ کا اشارہ دے دیا گیا ہے ۔
دھماکے کے بعد تیسرے دن تحقیقاتی ایجنسیوں نے گرفتار شدگان سے پوچھ گچھ کے بعد یہ دعویٰ کردیا ہے کہ دہلی سمیت ملک بھر کے کم از کم 32 مقامات پر ایک ساتھ دھماکے کرنے کی سازش رچی گئی تھی ۔ ملک تفتیشی ایجنسیوں کو اس طرح کی کہانیاں گھڑنے کابہت وسیع تجربہ ہے اور وہ اس معاملے میں بڑے بڑے سے فکشن نگار کو چاروں خانے چِت کرنے کا ملکہ رکھتی ہیں۔ وطن عزیز میں یہ ہوتا رہا ہے اور یہ کام اس قدر سفاکی سے کیا جاتا ہے کہ باضمیر افسران کے لیے ایسے ظلم کا حصہ بننا ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے ۔ ممبئی کے ٹرین دھماکوں کی تفتیش شاہد ہے 11 جولائی 2006 کو ممبئی میں ہونے والے بم دھماکوں کے سینئر تحقیقاتی افسرونود وٹھل بھٹ پراسرار حالت میں خودکشی کرلی تھی۔ ریلوے پولیس کو ان کی لاش مشکوک حالت میں ریل کی پٹریوں کے درمیان ملی تھی ۔ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ونود بھٹ اس وقت انسداد دہشت گردی عملہ کے تفتیشی افسر تھے ۔ اس سے قبل وہ ممبئی میں بارہ مارچ 1993 میں ہوئے بم دھماکوں کی جانچ سے بھی منسلک رہے تھے ۔ آگے چل کر جن نام نہاد ثبوتوں کی بنیاد پر ملزمین کو برسوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا اور ان میں سے کئی لوگوں کو پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی عدالت میں نہیں ٹک سکے اور سارے کے سارے ملزم باعزت بری ہوگئے لیکن میڈیا میں سنائی جانے والی کہانی اس قدر مرصع تھی کہ ہر کسی نے اس پر اعتبار کرلیا بقول وسیم بریلوی
وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
کشمیر کے چھٹی سنگھ پورہ گاؤں میں 21اور22مارچ 2000کی رات ایسا ہی ایک سانحہ پیش آیا تھا۔ امریکی صدر بل کلنٹن کی دہلی آمد کے موقع پر بے قصور سکھوں کو ہلاک کرکے اس سانحہ کا الزام لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین پر لگا کر پتھری بل کی پہاڑیوں میں ان کے انکاونٹر کا دعویٰ کردیا گیا۔ آگے چل کر معلوم ہوا وہ پانچوں مقامی باشندے تھے اور انہیں گشتی دستے کو گائیڈ کرنے کے لیے اٹھا یا گیا تھا۔ اس ہلاکت پر احتجاج درج کرنے کے لیے ضلع ہیڈکوارٹر کی طرف مارچ کرنے والوں پر فائرنگ کرکے نو افراد کو ہلاک کردیا گیا۔ اس سے پورے کشمیر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔اس کے بعد سکھ برادری کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج جسٹس ایس آر پانڈین کی قیاد ت میں تحقیقات کا حکم دیا۔ ایک سال بعد جب کولکاتہ اور حیدرآباد کی فورنسک لیبارٹریوں نے بتایا کہ مہلوکین اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے ڈی این اے ٹیسٹ کی خاطر بھیجے جانے والے نمونے نقلی تھے ، اس پر ایک اورعدالتی کمیشن جسٹس جی اے کوچھے کی سربراہی میں مقرر کیا گیا۔ان دونوں کمیشنوں نے دیگر سیکورٹی اداروں کے علاوہ جنوبی کشمیر میں ایس او جی کے سربراہ فاروق احمد خان کو نامزد کرکے اس کے خلاف کارروائی کرنے کی سفار ش کی اور ابتداء میں گھڑے جانے والے جھوٹ کو مسترد کردیا۔ اس لیے ویسا ہی تجربہ دہلی دھماکے کے معاملے میں دوہرایا نہیں جائے ۔ چھٹی سنگھ پورہ کے سکھ اب بھی ہر سال 22مارچ کو انصاف کی خاطر اس امید پر اپنا احتجاج درج کرواتے ہیں کہ
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
دہلی دھماکے کے اگلے ہی دن سپریم کورٹ نے نٹھاری قتل کیس میں بنیادی ملزم سریندرکولی کی رہائی کا حکم دے دیا ۔ اس مقدمہ کے نشیب و فراز کو دیکھا جائے تو نہ صرف تفتیشی ایجنسی بلکہ عدلیہ کے رویہ پر بھی کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ نٹھاری قتل معاملے کا انکشاف 29 دسمبر 2006 کو ہوا تھا۔ اس وقت دہلی سے سٹے نوئیڈا کے نٹھاری گاؤں میں صنعت کار مونندر سنگھ پنڈھیر کی رہائش گاہ کے پیچھے نالے سے 8 بچوں کے ڈھانچے برآمد ہوگئے ۔ تفتیش کے دوران مرکزی ملزم کے طور پر پندھیر کا گھریلو ملازم سریندر کولی سامنے آیا۔ آگے چل کر جب یہ معاملہ سی بی آئی کے ہاتھ میں گیا تو مزید انسانی اعضا اور ڈھانچے برآمد ہوئے ۔ تفتیش کے بعد کولی کو ایک 15 سالہ لڑکی کی عصمت دری اور قتل کے الزام میں مجرم ٹھہرایا گیا ۔ 2011 میں سپریم کورٹ نے اس کی سزا برقرار رکھی تھی اور 2014 میں اس کی نظرثانی عرضی بھی مسترد کر دی تاہم، 2015 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے رحم کی عرضی پر فیصلہ کرنے میں تاخیر کی تکنیکی بنیاد پر اس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ۔
اکتوبر 2023 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے نٹھاری کیس متعلق معاملات میں سریندر کولی اور مونندر سنگھ پندھیر کو کمزورثبوت کمزور ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی سبب بری کر دیا۔اس کے بعد سی بی آئی اور مقتولین کے اہل خانہ نے مذکورہ فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاتو 30 جولائی 2025 کو عدالت عظمیٰ نے ان تمام 14 اپیلوں کو مسترد کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ دستیاب شواہد اتنے مضبوط نہیں کہ ان کی بنیاد پر سزائے موت یا قید برقرار رکھی جا سکے ۔امسال ٧اکتوبر 2025 کو عدالت نے کولی کی اصلاحی عرضی پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا مگر ١١نومبر کو سپریم کورٹ نے اپنے تازہ ترین فیصلے میں 18 برس سے جیل میں بند سریندر کولی کوفوراً رہا کرنے کا حکم دے دیا۔یہ فیصلہ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس وکرم ناتھ کی بنچ نے سنایا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ”اصلاحی عرضی کو منظور کیا جاتا ہے ، سزا اور جرمانہ منسوخ کیے جاتے ہیں، اور اگر کسی دوسرے معاملے میں کولی کی ضرورت نہیں ہے تو اسے فوراً رہا کیا جائے ۔” ان مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے کہ عدلیہ کے اندر یہ کہانیاں کیسے کمزور پڑجاتی ہیں مگر اس وقت تک بے قصور کی زندگی کے کئی سال قیدو بند میں گزر جاتے ہیں ۔
عمر خالد اور شرجیل امام وغیرہ کی مثال ہیں شاہد ہے کہ اس طرح کے معاملات صرف ہندوستان جیسے پسماندہ ملک کا خاصا نہیں ہیں بلکہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی بے قصور سبرامنیم ‘سبو’ویدم کو رہا ہونے سے قبل 43 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑتے ہیں ۔19 سالہ طالب علم سبرامنیم ویدم کو اپنے ہم کمرہ ٹام کنسر کے قتل کا مجرم قرار دے کر 43 سال قبل عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی کیونکہ انہوں نے مقتول کی گمشدگی کے دن اس سے گاڑی لی تھی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹام کنسر کو ان کی گاڑی معمول کی مختص جگہ پر واپس کر دی گئی تھی مگر اس واقعے کا کوئی عینی شاہد نہیں تھا۔ 1984 میں سبرامنیم کو عدالت کے سامنے طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت منشیات کے جرم میں علیحدہ سے ڈھائی سے پانچ برس کی سزا سنا دی گئی۔ یہ سزا انھیں عمر قید کی سزا کے ساتھ ہی بھگتنی تھی۔ سبرامنیم کو قتل کی سزا کے خلاف نئے شواہد سامنے آنے پر بریت مل گئی ان کے خلاف ملک بدری کا حکمنامہ موجود ہے اور وہ حراست میں ہیں۔ ان کا پورا خاندان امریکہ میں ہے جبکہ ہندوستان کوئی بھی نہیں ہے اس لیے وہ یہاں آکر کیا کریں گے کوئی نہیں جانتا مگر امریکی انتظامیہ کے لیے یہ سوال بے معنیٰ ہے ۔ سبرامنیم ملک بدری کے مقدمے کے فیصلے تک حراست میں ہی رہیں گے ۔ اس طرح دنیا بھر میں بے قصور لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے ۔ خدا کرے دہلی دھماکے میں گرفتار ہونے والے بے قصور لوگوں کے ساتھ یہ سلوک نہ ہو۔ مذکورہ بالا تشویش کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کی تفتیشی ایجنسیوں اور عدلیہ کی موجودہ حالت پر امیر قزلباش کا یہ شعر صادق آتا ہے
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا

متعلقہ مضامین

  • انقلاب، ایران اور پاکستان
  • کراچی والوں کا نوحہ
  • بدل دو نظام
  • اپنے آپ کو دریافت کرنے کی ضرورت ہے!
  • تابش ہاشمی کا اپنے نام سے متعلق دلچسپ انکشاف
  • دہلی دھماکہ: اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
  • کوچۂ سخن
  • حکومتی بے توجہی
  • بچوں کا عالمی دن! مگر غزہ کے بچوں کے نام