سپریم کورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم پر بحث، اجتماعی استعفے کی تجویز پر کوئی اتفاق نہ ہو سکا
اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT
سپریم کورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بلائے گئے اہم فل کورٹ اجلاس میں ججوں نے ترمیم کے اثرات اور عدلیہ کے ادارہ جاتی ردِعمل پر تفصیلی غور کیا، تاہم اجلاس کے دوران پیش کی گئی اجتماعی استعفے کی تجویز پر کوئی اتفاق رائے سامنے نہ آسکا۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم کے باعث سپریم کورٹ کے اختیارات کم ہو گئے اور اس کے اگلے ہی دن ایک درجن سے زیادہ جج چیف جسٹس کے چیمبر میں جمع ہوئے تاکہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ آگے کیا کرنا ہے۔
گفتگو کے دوران جب ترمیم کے خلاف احتجاج میں سب کے اجتماعی استعفے دینے کی تجویز پیش کی گئی تو جج خاموش رہے اور کوئی اس پر راضی نظر نہ آیا۔
فل کورٹ کا یہ اجلاس 14 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہوا، اس وقت چار ججوں کو وفاقی آئینی عدالت میں بھیجنے کی تیاری ہو رہی تھی اور یہ اجلاس دو ججوں، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ، کے استعفے کے ایک دن بعد بلایا گیا تھا۔
ان دو ججوں کے علاوہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھ کر 27ویں ترمیم پر بات کرنے کے لیے فل کورٹ اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی، تاکہ آئین کے مطابق اپنی ذمہ داری پوری کی جا سکے۔
اجلاس کے بارے میں ایک ذریعے نے بتایا کہ چیف جسٹس کے چیمبر میں ماحول کافی تناؤ کا شکار تھا اور سینئر جج اس صورتحال کو بہت افسوسناک دن قرار دے رہے تھے۔
اجلاس کا ماحول اس وقت مزید سنجیدہ ہو گیا جب ایک جج نے سوال اٹھایا کہ کیا سپریم کورٹ کے پاس یہ آئینی اختیار ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو قانون سازی یا آئینی ترمیم کرنے سے روک سکے؟
ترمیم کے اثرات پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے افسوس ظاہر کیا کہ ججوں نے ان سے سیدھی بات کرنے کے بجائے خط لکھنا بہتر سمجھا، حالانکہ وہ ہمیشہ ملنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
فل کورٹ اجلاس میں کم از کم 13 جج موجود تھے، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ اے ملک اجلاس میں نہیں آئے، جب کہ جسٹس مسرت ہلالی بیماری کے باعث شامل نہیں ہو سکیں۔
چار جج، امین الدین خان، حسن اظہر رضوی، عامر فاروق اور علی باقر نجافی کو پہلے ہی وفاقی آئینی عدالت کے لیے منتخب کیا جا چکا تھا۔
مضبوط ادارہ جاتی ردِعمل
اجلاس میں ججوں نے اپنے دو ساتھیوں کے استعفوں پر افسوس کا اظہار کیا اور زور دیا کہ عدلیہ کو مضبوط ادارہ جاتی ردِعمل سامنے لانا چاہیے۔
جب کچھ ججوں نے حکومت کو رسمی طور پر خط لکھنے کی تجویز دی تو چیف جسٹس نے یاد دلایا کہ ججوں کو خط لکھنے کے بجائے پہلے ان سے براہِ راست بات کرنی چاہیے تھی۔
ذرائع کے مطابق چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس عدالتی نظرِ ثانی کا اختیار موجود ہے تاکہ قانون سازی کی آئینی حیثیت کا جائزہ لیا جا سکے، لیکن یہ اختیار قانون بننے کے بعد استعمال ہوتا ہے، پہلے نہیں، لہٰذا عدالت پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روک سکتی۔
جب ایک مضبوط ادارہ جاتی ردِعمل پر اصرار کیا گیا تو ایک جج نے یہ تجویز دی کہ اگر جج عملی اور مؤثر احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں جو آئینی طریقہ کار سے ہٹ کر ہو تو انہیں، حتیٰ کہ چیف جسٹس سمیت اجتماعی طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
تاہم، یہ تجویز خاموشی کی نذر ہو گئی، جو اس بات کا اشارہ تھی کہ شرکا اس سے متفق نہیں تھے، چنانچہ اجلاس کسی متفقہ فیصلے کے بغیر ختم ہو گیا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ادارہ جاتی رد عمل سپریم کورٹ اجلاس میں کی تجویز چیف جسٹس ترمیم کے فل کورٹ
پڑھیں:
جسٹس امین، آئینی عدالت کے ججز سے سپریم کورٹ بار کے وفد کی ملاقات
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت جسٹس امین الدین خان سے سپریم کورٹ بار کے وفد نے ملاقات کی۔ وفد کی قیادت سپریم کورٹ بار کے صدر ہارون الرشید نے کی وفد نے عدالت کے ججز سے بھی ملاقات کی۔ چیف جسٹس ار دیگر ججز کو مبارکباد دی۔